All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

شاہراہِ قراقرم : پاک چین دوستی کی یادگار

بشّام سے تقریباً پندرہ کلومیٹر آگے دوبیر کے مقام پر دریائے دوبیر دریائے سندھ
میں شامل ہو جاتا ہے۔ دوبیر اور جیجال سے گزر کر سوا تین بجے ہم پٹن پہنچ گئے۔ پٹن بشّام سے تینتیس کلومیٹر کے فاصلے پر ایک خاصا بڑا، سر سبز و شاداب اور با رونق قصبہ ہے۔ یہاں ملٹری پولیس کی چوکی اور کوہستان ریسٹ ہاؤس موجود ہے۔ میرے خیال میں پنڈی سے گلگت جاتے ہوئے ایک رات کا قیام کرنا مقصود ہو تو پٹن بشّام کی نسبت زیادہ موزوں مقام ہے۔ ایک تو آرام کرنے سے پہلے آپ شاہراہ قراقرم کی اصل جھلک دیکھ لیتے ہیں اور دوسرے یہ کہ آپ کو ایک روایتی پہاڑی شہر سے آگاہی حاصل ہوتی ہے جس کی تہذیب و ثقافت نے ابھی تک جدیدیت کا مصنوعی لبادہ پوری طرح نہیں پہنا ہے۔
شاہراہ قراقرم کی تعمیر کی نسبت سے دیکھا جائے تو پٹن ایک تاریخی مقام بھی ہے۔ 1974ء میں یہاں درمیانے درجے کے زلزلے نے شاہراہ کی توسیع کے کام کو شدید متاثر کیا۔ کئی بلڈوزر دریائے سند ھ کی گہرائی میں پہنچ گئے، بہت ساری چٹانیں اوپر سے آئیں اور سڑک پر براجمان ہو گئیں۔ کئی کارکن شدید زخمی ہوئے، چند ایک ہلاکتیں بھی ہوئیں اور تعمیر و توسیع کا کام کافی عرصہ تک بند رہا۔
پٹن کراس کرنے کے بعد لینڈ سکیپ اچانک بدل جاتا ہے کیونکہ اب آپ ہمالیہ کے سر سبز و شاداب دامن سے گزر کر قراقرم کی چٹانی آغوش میں داخل ہو تے ہیں اور قراقرم کے معنی واضح ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ قراقرم ترکی زبان کا لفظ ہے قرا کے معنی ہیں سیاہ اور قرم شکستہ چٹانوں کو کہتے ہیں، یعنی سیاہ رنگ کی ٹوٹی پھوٹی چٹانیں،اور یہ چٹانیں خنجراب تک آپ کے ساتھ رہتی ہیں۔
کچھ لوگ اس لینڈ سکیپ میں داخل ہو کر شدید مایوس ہو جاتے ہیں، خصوصاً وہ لوگ جو مری،سوات اور کاغان کے سرسبز پہاڑوں کا تصوّر ذہن میں سجائے اس لینڈ سکیپ میں داخل ہوتے ہیں۔ وہ ان بے آب و گیاہ چٹانوں کو دیکھ کر مایوس ہو جاتے ہیں۔ یہاں سبزے کا دور دور تک نشان نہیں، چوٹیاں برف سے خالی ہیں اور چٹیل و دیو قامت چٹانوں پر بڑی بڑی دراڑیں ہیں۔ کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابھی کوئی چٹان سڑک پر تشریف لا کر فل سٹاپ لگا دے گی، اور بعض اوقات ایسا ہو بھی جاتا ہے۔
کئی جگہ لینڈ سلائیڈنگ کے علاقوں کی نشاندہی کے بورڈ لگے ہوئے ہیں، لیکن جس وقت آپ کو بورڈ کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے اُس وقت آپ خطرے کی حدود میں داخل ہو چکے ہوتے ہیں۔ کچھ اور لوگوں کا رد عمل انتہائی مختلف ہے۔ شاہراہِ قراقرم کا سفر ہر لمحہ بدلتے لینڈ سکیپ کا سفر ہے۔ سنگلاخ چٹانیں بے آب و گیاہ ضرور ہیں لیکن ہر لمحہ اپنا میک اپ بدلتی رہتی ہیں۔ اگر یہ بات ذہن میں رہے کہ چٹانوں کی وہ سطح جو سڑک کے ساتھ ساتھ نظر آ رہی ہے قدرتی نہیں انسانی ہاتھوں کا کمال ہے، اور سڑک کا یہ حصہ جس پر آپ کی گاڑی رواں دواں ہے کبھی انہیں چٹانوں کا اٹوٹ انگ تھا تو آپ ہر قدم پر حیرت زدہ ہوتے جاتے ہیں۔ 
جس طرح کے۔ ٹو بیس کیمپ جاتے وقت آپ قدرت کے برفانی عجائب گھر سے گذرتے ہیں بالکل اسی طرح پٹن سے خنجراب تک شاہراہِ قراقرم پر سفر کرتے ہوئے آپ قدرت کے چٹانی عجائب گھر کا مشاہدہ کرتے ہیں،اور غالباً چٹانوں کی کوئی ایسی قسم نہیں جو اس عجائب گھر میں موجود نہ ہو۔ اس چٹانی علاقے کی اہمیت کے بارے میں ابتدائی آگاہی مجھے فیری میڈوز پہنچ کر ہی ہوئی تھی جہاں ایک جغرافیہ دان سے میری ملاقات ہوئی۔ وہاڑی واپس آنے کے بعد میں نے اس بارے میں مزید معلومات حاصل کیں تو انتہائی دلچسپ انکشافات ہوئے۔
یہ بظاہر بنجر، اُجاڑ اور بے آب و گیاہ علاقہ ماہرین ارضیات کی ریسرچ کے لئے انتہائی زرخیز سمجھا جاتا ہے اور اس کا جغرافیائی نام کوہستانی آرک ہے جو خشکی کے دو بڑے خطّوں انڈو پاک پلیٹ اور یورو ایشین پلیٹ کے درمیان پھنس کر اپنا علیٰحدہ وجود کھو بیٹھا ہے۔ لگ بھگ پندرہ سے بیس لاکھ سال پہلے انڈو پاک پلیٹ نے یورو ایشین پلیٹ (یعنی برِ صغیر انڈ و پاک نے برِ اعظم ایشیا) کی طرف کھسکنا شروع کر دیا، دونوں عظیم خطے ایک دوسرے سے ٹکرائے، انڈو پاک پلیٹ ایشین پلیٹ کے نیچے گھس گئی اور دونوں کے کناروں نے اوپر اٹھنا شروع کر دیا۔ اسی اُبھار نے ہمالیہ اور قراقرم کے عظیم سلسلوں کی صورت اختیار کر لی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا نوزائیدہ پہاڑی سلسلہ ہے جو ابھی شیر خواری کی عمر کو بھی نہیں پہنچا، بیچارے کی عمر صرف پندرہ لاکھ سال ہے۔

ڈاکٹر محمد اقبال ہما

Post a Comment

0 Comments