All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

بیرم خان : مغل تاریخ کا ناقابل فراموش کردار

مغل تاریخ میں ویسے تو ان گنت کرداروں کومختلف اوصاف اور کارناموں کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا لیکن کچھ کردار حیرت انگیز ہیں اور ان کی خدا داد صلاحیتوں پر رشک آتا ہے۔ انہوں نے قدم قدم پر کامیابیوں کے پھول سمیٹے، قسمت کی دیوی ان پر مہربان رہی۔ ایسا ہی ایک کردار بیرم خان کا ہے جس نے مغل خاندان کی بے مثال خدمت کی ۔ بلکہ اس نے مغلوں کے اقتدار کا چراغ روشن رکھنے میں بھر پور کردار ادا کیا جو ہمایوں کی وفات کے بعد خطرے سے دو چار تھا۔ ہمایوں کے انتقال کے وقت اکبر کی عمر صرف چودہ برس تھی۔ اس وقت کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ اس نازک دور میں بیر م خان نے اکبر کو اقتدار کے سنگھاسن پر متمکن کروا دیا۔ کہنے کو تو اکبر بادشاہ تھا لیکن پانچ سال تک عملی طور پر بیرم خان ہی حکومت چلاتا رہا ۔ 

جب اکبر 19 برس کا ہوا تو بیرم خان امور مملکت سے الگ ہو گیا۔ بیرم خان کی تربیت نے اکبر کو کندن بنا دیا ۔ پھر اس نے تقریباً 50 برس تک ہندوستان پر حکومت کی۔ بیرم خان بیک وقت کئی عہدوں پر کام کرتا رہا۔ وہ جلال الدین اکبر کا مشیر اعلیٰ اور مغل فوج کا کمانڈر انچیف بھی تھا ۔ وہ ایک مدبرّ کے طور پر کام کرتا رہا۔ بیرم خان وسطیٰ بد خشاں کے علاقے اوغذ ترک کے قبیلے کارا کیونلو میں پیدا ہوا ۔ اس کا باپ سفیالی بیگ بہارلو اور دادا جنبالی بیگ با بر کی فوج میں خدمت سر انجام دیتے رہے تھے۔ وہ 16 سال کی عمر میں بابر کی فوج میں شامل ہو کر مغلوں کی فتوحات میں اہم کردار ادا کرتا رہا۔ مغل سلطنت کے قیام میں بھی اس نے ہمایوں کے ساتھ مل کر بہت کام کیا۔ 

وہ بنارس، بنگال اور گجرات کی فوجی مہمات میں بھی شریک رہا ۔ جب شیر شاہ سوری سے شکست کھا کر ہمایوں ایران روانہ ہوا تو بیرم خان بھی اس کے ساتھ تھا۔ ہمایوں ایران سے فوج لے کر ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو بیرم خان دوبارہ کامیابی کیلئے ہمایوں کی فوج میں کمانڈر بن گیا۔ 1556ء میں ہمایوں کی وفات کے بعد اسے اکبر کا اتالیق مقرر کردیا گیا۔ اس نے شمالی ہندوستان میں مغلوں کے اقتدار کو مستحکم کیا ۔ اس نے پانی پت کی دوسری لڑائی میں مغل فوجوں کی قیادت کی ۔ یہ لڑائی اکبر اور ہیموں کے درمیان نومبر 1556ء میں لڑی گئی۔ یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ اکبر کے جوان ہونے سے پہلے بیرم خان نے اسے ہلاک کیوں نہیں کیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ بیرم خان اور اس کے باپ دادا ہمیشہ مغلوں کے وفادار رہے۔ اس نے اپنے خاندان کی روایات کو زندہ رکھا اور اپنے اور اپنے خاندان کے نام پر دھبہ نہیں لگنے دیا۔ بابر اور ہمایوں کے ساتھ بیرم خان نے بڑا شاندار وقت گزارا تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بابر اور ہمایوں نے بیرم خان کو بہت احترام دیا۔ اس کی عزت و تکریم میں انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔

اس نے ہمایوں کا اس وقت ساتھ دیا جب اس نے ایران میں جلا وطنی کی زندگی اختیار کر لی تھی۔ یوں کہنا چاہیے کہ بیرم خان کی رگوں میں مغل خاندان سے وفاداری خون بن کر دوڑتی تھی۔ گرانقدر خدمات اور دیگر اوصاف کے باوجود بیرم خان کو دربار میں زیادہ پسند نہیں کیا جاتا تھا۔ کچھ مورخین کے نزدیک 1560 میں اس کا زوال شروع ہوا جب وہ بہت مغرور ہو گیا تھا۔ تکبر انسان سے عقل و فراست چھین لیتا ہے۔ پھر اس نے اپنے قریبی دوستوں کو بھی نوازنا شروع کردیا تھا جس سے اس پر انگلیاں اٹھنے لگیں۔ اس نے گورنر تردی بیگ کو موت کے گھاٹ اتار دیا کیونکہ تردی بیگ ہیموں کے خلاف لڑائی میں دہلی کا دفاع کرنے میں نا کام ہو گیا تھا۔ جب اکبر نے بیرم خان کوسبکدوش کرنے کا فیصلہ کیا تو دونوں میں اختلافات پیدا ہوئے ۔ اکبر نے اسے جاگیر عطا کر دی۔

غیر متوقع طور پر بیرم خان ، اکبر کے خلاف بغاوت کا علَم بلند کرتے ہوئے اس کے خلاف میدان جنگ میں کود پڑا۔ جس میں اسے شکست ہوئی۔ طویل خدمات اور مغل خاندان سے وفاداری کی بنا پر اکبر نے اسے معاف کر دیا۔ اکبر نے بیرم خان کو پیش کش کی کہ یا تو وہ ریٹائر ہو جائے اور محل میں قیام پذیر ہو جائے یا پھر حج کرنے مکہّ معظمہ چلا جائے۔ بیرم خان نے حج کرنے کو ترجیح دی ۔ براستہ گجرات سفر کے دوران حاجی خان سیوا تی نے 31 جنوری 1561ء کو بیرم خان کو قتل کر دیا ۔ حاجی خان میواتی ہیموں کی فوج میں جرنیل تھا اور اس نے بیرم خان کو قتل کر کے ہیموں کی موت کا بدلہ لیا۔ بیرم خان کے بیٹے اور بیوی کو آگرہ بھیج دیا گیا۔ اس کے بیٹے عبدالرحیم خان ِ خاناں کو اکبر کے دربار میں خصوصی حیثیت دی گئی۔ وہ اکبر کے نورتنوں میں شامل کر لیا گیا ۔ ہمایوں نے بیرم خان کوخانِ خاناں کا خطاب دیا تھا جس کا مطلب ہے بادشاہوں کا بادشاہ۔ پہلے پہل اسے بیرم بیگ کے نام سے پکارا جاتا تھا لیکن بعد میں وہ بیرم خان کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ ایک ناقابل ِ تردید حقیقت ہے کہ مغل تاریخ میں بیرم خان کا نام انتہائی اہمیت کا حامل ہے بلکہ اس کے بغیر مغل تاریخ کا تذکرہ بے معنی ہے۔


عبدالحفیظ ظفرؔ

 


Post a Comment

0 Comments