All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

ہمیں تو یہ ہندو مانتے ہی نہیں، ورنہ ہمارے ساتھ ایسا کرتے؟

دو گھر، ایک بڑے بیٹے کا اور ایک چھوٹے بیٹے کا۔ دونوں کی بغیر پلاسٹر والی
دیواروں پر آتشزدگی کے نشانات دو دن گزر جانے کے بعد بھی تازہ نظر آتے ہیں اور دوسری جانب اوم وتي کا ماتم اب بھی جاری ہے۔ کچھ ہی دنوں پہلے اوم وتي کے یہاں شادی ہوئی تھی اور ان کی نئی نویلی بہو اس دن کسی طرح جان بچانے میں کامیاب ہوئی تھیں۔ اب گھر میں صرف اوم وتی اور صحن میں کھونٹے سے بندھی ایک گائے ہے۔ اوم وتی کی پڑوسن مگگو کہتی ہیں: 'دونوں بیٹوں کا گھر ایک دوسرے سے ملحق ہے۔ فسادات کرنے والے ایک چھت سے دوسرے گھر میں پہنچ گئے اور دونوں گھروں میں آگ لگا دی۔‘

گذشتہ ہفتے انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے سہارنپور ضلع کے شبير پور گاؤں میں بھڑکنے والے فسادات میں دلتوں (پسماندہ طبقے کے ہندوؤں) کے گھر جلائے جانے کے بعد علاقے میں اب بھی کشیدگی ہے۔ اس دلت اکثریتی گاؤں میں راجپوت برادری کے لوگ عہد وسطی کے راجا مہارانا پرتاپ کے یوم پیدائش پر شوبھا ياترا نکال رہے تھے اور اسی دوران پرتشدد جھڑپیں ہوئی تھیں۔ فریقین اپنی اپنی باتیں کہہ رہے ہیں اور ایسے جہاں فساد ہوا، وہاں کے لوگوں کی باتیں ان ہی سے سننا بہتر نظر آتا ہے۔
ہمیں راجپوت یوا شکتی کے جو لوگ ملے انھوں نے یہ دعویٰ کیا کہ آگ خود دلتوں نے لگائی تھی، یہاں تک کہ پولیس کی گاڑی میں بھی انھی لوگوں نے آگ لگائی تھی۔ لیکن نصف جلی روٹی، کمرے میں پھیلے اناج، نوکیلے ہتھیاروں کے نشان والی کھڑکیاں اور صحن میں بندھی وہ گائے کچھ اور ہی کہانی بیان کرتی ہیں۔ دوسری جانب میوزیک سسٹم سے لیس پاس کے گاؤں سملانا جانے والی راجپوتوں کی ٹولی، دلتوں اور راجپوتوں کے درمیان تنازع، سنگ باری اور پھر مبینہ طور پر دوسرے دیہات کے سینکڑوں نوجوانوں کا شبير پور میں جمع ہونا دوسرا رخ پیش کرتے ہیں۔

گاؤں کی گلی کے کنارے آباد دلتوں کا شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جن پر آگ کے شعلوں کے نشانات نہ ہوں۔ گندم کی کٹائی کے بعد صحن یا گھر کے باہر پڑے اناج جگہ جگہ جلے ہوئے نظر آئے۔ جمعہ کو رونما ہونے والے واقعے میں ایک 35 سالہ راجپوت کی موت ہو گئی تھی۔ اس سلسلے میں قتل کا مقدمہ درج ہوا ہے اور پولیس نے 17 افراد کو گرفتار بھی کیا ہے جن میں آٹھ دلت ہیں۔ سروج کہتی ہیں کہ ان کے شوہر معذور ہیں، لیکن پھر بھی پولس انھیں پکڑ کر لے گئی ہے۔

راجپوت کے محلے کی ایک خاتون وملیش ہمیں گاؤں کے ایک چوراہے پر ملیں۔ بیٹے سمیت ان کے گھر کے بھی تین افراد پولیس کی حراست میں ہیں۔ سویتا بھی وملیش کے ساتھ ہیں اور اسی وقت تقریباً 100 راجپوت عورتوں کے ایک گروہ نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا۔ سویتا کا بھی کہنا ہے کہ ان کے گھر والے ہنگامے میں شامل نہیں تھے، لیکن پھر بھی وہ پولیس حراست میں ہیں۔ جارحانہ رخ اختیار کرتی بھیڑ کو دیکھ کر وہاں تعینات پولیس دستے کے لوگ ہمیں وہاں سے جانے کے لیے کہتے ہیں۔ پاس کے محلے میں تقریباً سناٹے کا ماحول ہے یا پھر رونے کی آوازیں سنائی پڑتی ہیں۔ مگگو ہمیں بتاتی ہیں: 'ہم ان کھیتوں میں فصل کی کٹائی کرتے ہیں، ان کا کام کرتے ہیں اور انھوں نے ہمارے ساتھ ایسا کیا۔

اوم وتي کے بیٹے بھی دوسرے دلتوں کی طرح راجپوتوں یا دوسری نام نہاد اونچی ذات کے لوگوں کے کھیتوں یا گھروں پر مزدوری کرتے ہیں۔ کچھ دلتوں کے پاس زمینیں بھی ہیں۔ ان کے گھر کی دیواریں پختہ ہیں اور چھتوں تک باقاعدہ زینے جاتے ہیں۔ گاؤں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسا پرتشدد واقعہ وہاں پہلے کبھی نہیں ہوا اور شاید اس کی وجہ ایک دوسرے پر زمانے سے جاری انحصار ہے۔ لیکن مہارانا پرتاپ کے یوم پیدائش کی تقریب کے دوران قرب و جوار کے دسیوں دیہات اور دوسرے صوبوں سے سینکڑوں لوگوں کے آنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے وہ قدیمی تانا بانا بکھر گیا۔

دلت انتہائی ناراض ہیں۔ ہندوؤں کو متحد کرنے میں مصروف حکمراں پارٹی کو یہاں دیشراج سنگھ جیسے دلتوں کو سمجھانے کی ضرورت پڑے گی۔ دلت سماج سے تعلق ركھنےوالے دیشراج سنگھ کہتے ہیں: ’ہمیں تو یہ ہندو ہی نہیں سمجھتے۔ ورنہ کیا ہمارے ساتھ وہ ایسا کرتے؟‘

فیصل محمد علی
بی بی سی ہندی، شبیرپور، سہارنپور

Post a Comment

0 Comments