All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

ڈان لیکس اور سول ملٹری ٹینشن

ڈان لیکس سکینڈل گزشتہ سال اکتوبر میں ظہور پذیر ہوا جب وزیراعظم ہائوس میں
ہونیوالے قومی سلامتی کے اجلاس کے حوالے سے پاک فوج کے بارے میں اشتعال انگیز، بے بنیاد اور پلانٹڈ سٹوری ڈان اخبار کے فرنٹ پیج پر شائع کی گئی۔ اس وقت سپہ سالار جنرل راحیل شریف کی ’’اخلاقی اتھارٹی‘‘ کا سورج پوری آب و تاب کیساتھ چمک رہا تھا۔ آئینی اتھارٹی کے مالک وزیراعظم دبائو میں آ گئے انہوں نے نہ صرف وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کو فارغ کر دیا بلکہ ایک انکوائری کمیشن تشکیل دینے پر بھی آمادہ ہو گئے۔ غیر مصدقہ رپورٹ کے مطابق سابق عسکری قیادت نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اگر حکومت نے ڈان لیکس پر ٹھوس اور سنجیدہ کاروائی نہ کی تو ذمے دار افراد کو بلا تفریق پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت گرفتار کر کے تفتیش کی جائیگی۔

انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں غیر معمولی تاخیر کی گئی تا کہ قومی سلامتی پر ڈٹ جانیوالا سپہ سالار رخصت ہو جائے اور نیا سپہ سالار ڈان لیکس کے سلسلے میں حکومت کو توقع کیمطابق ’’ریلیف‘‘ دینے پر آمادہ ہو جائے۔ وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف گورنینس اور سکیورٹی امور کے سلسلے میں اہلیت ثابت نہیں کر سکے ان کو یہ ادراک نہیں ہو سکا کہ کوئی آرمی چیف قومی سلامتی کے امور پر کمپرومائز کرنے کا متحمل ہی نہیں ہوسکتا کیوں کہ یہ انتہائی نازک اور حساس مسئلہ ہے جس پر کمپرومائز کرنے سے فوج کے اندر بغاوت کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔
وزیراعظم پاکستان کو خفیہ رپورٹیں ملتی رہیں کہ نئے سپہ سالار جنرل جاوید قمر باجوہ کو فوج کے افسروں کی جانب سے ڈان لیکس کے بارے میں سخت سوالوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور فوج کے اندر اضطراب پایا جاتا ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے حساس اداروں کی ان رپورٹوں پر کوئی توجہ نہ دی۔ وزیراعظم کے ساتھ کام کرنیوالے ریٹائرڈ بیوروکریٹس کی رائے ہے کہ میاں نواز شریف اہم قومی امور کے فہم اور ادراک کی صلاحیت سے عاری ہیں۔ ان کا ایک ہی جنون ہے کہ شاہرائیں اور موٹرویز تعمیر کی جائیں کیونکہ یہ نظر آنیوالے، ووٹ اور نوٹ بنک بڑھانے والے منصوبے ہیں۔ جس طرح بقول شاعر یزداں تخلیق کائنات کے ’’دلچسپ جرم‘‘ پر کبھی کبھی ہنستا ہو گا اسی طرح پاک فوج کے جرنیلوں کو بھی ’’عاقبت نا اندیشانہ جرم‘‘ پر پچھتاوا ہو گا کہ انہوں نے اہلیت اور میرٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے الطاف حسین اور میاں نواز شریف کا بطور لیڈر انتخاب کیا اور انہیں پروموٹ کیا۔ بقول حبیب جالب ’’تیرے ذہن کی قسم خوب انتخاب ہے‘‘ فوج کے جرنیلوں کو یہ کہا جا سکتا ہے ’’تم ہی نے درد دیا تم ہی دوا دینا‘‘۔ پاکستانی قوم کی بدقسمتی ملاحظہ کیجئے کہ مسلم لیگ قائداعظم سے میاں نواز شریف اور پی پی پی ذوالفقار علی بھٹو سے آصف زرداری کے ’’معیار‘‘ تک پہنچ گئی ہے۔ چہ بلندی چہ پستی مگر اس کیلئے ووٹرز خود بھی ذمے دار ہیں جو بار بار ’’لٹیروں‘‘ کو ووٹ دیتے ہیں۔

پانامہ لیکس بنچ کے پانچ ججوں نے میاں نواز شریف کے بارے میں کیا کچھ کہہ دیا۔ وہ اگر اہل لیڈر ہوتے تو عدالت عالیہ کے فیصلے کے بعد پاکستان اور مسلم لیگ (ن) کے عظیم تر مفاد میں مستعفی ہو جاتے، اپنا جانشین نامزد کر کے سکون کے ساتھ آئینی ٹرم پوری کر لیتے مگر وہ چوں کہ مزاج اور فطرت کے اعتبار سے اول و آخر تاجر ہیں اس لیے وہ آبرومندانہ راستہ اختیار کرنے پر آمادہ نہیں ہیں انکی اخلاقی اتھارٹی برباد ہونے سے آئینی اتھارٹی بھی مفلوج ہو چکی ہے۔ مناسب وقت پر موزوں فیصلے کی صلاحیت ان میں نہیں ہے۔ سابق آرمی چیف جنرل آصف نواز کے بھائی شجاع نواز نے اپنی شہرہ آفاق کتاب میں چشم کشا انکشافات کیے ہیں کہ انہوں نے کس طرح فوج کے جرنیلوں کو کرپٹ کرنے اور انہیں خاندان کا وفادار بنانے کی کوشش کی۔

اپوزیشن جماعتیں سڑکوں پر ان کیخلاف ’’گو نواز گو‘‘ کے نعرے لگا رہی ہیں۔ بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی پرامن تحریک کو مسلح طاقت سے کچلنے کیلئے جبروتشدد اور ظلم و ستم کی اس حد تک انتہا کر دی ہے کہ نیو یارک ٹائمز بھی چیخ اُٹھا ہے۔ بھارت ایل او سی پر مسلسل اشتعال انگیزی کر رہا ہے۔ ان حالات میں وزیراعظم پاکستان نے سی آئی اے اور را کے ایجنٹ اور پاکستان کے کٹڑ دشمن سجن جندل سے مری میں خفیہ ملاقات کر کے پاکستان کے عوام کو ششدر اور پاک فوج کو مزید مضطرب کر دیا۔ محترمہ مریم نواز شریف نہ تو وزیراعظم کی سرکاری ترجمان ہیں اور نہ ہی مسلم لیگ (ن) کی عہدیدار ہیں اسکے باوجود وہ حکومتی اور ریاستی امور کے بارے میں ٹویٹ کرتی رہتی ہیں انہوں نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ جندل وزیراعظم کے پرانے دوست ہیں لہذا اس ملاقات کو اچھالا نہ جائے۔ 

سوال یہ ہے کہ پاکستان کے کٹڑ دشمن وزیراعظم پاکستان کے دوست کیسے ہو سکتے ہیں۔ وزیراعظم اگر اس خفیہ ملاقات کے سلسلے میں پاکستانی قوم کو اعتماد میں لیتے تو انکے بارے میں قیاس آرائیاں اور بدگمانیاں پیدا نہ ہوتیں اور اپوزیشن جماعتوں کو انہیں ’’سکیورٹی رسک‘‘ کہنے کا موقع نہ ملتا۔ یہ قیاس آرائی کی جا رہی ہے کہ ’’دوستوں‘‘نے میاں نواز شریف کو ’’ڈٹ جانے‘‘ کا پیغام بھیجا ہے تاکہ وہ پانامہ کیس میں نا اہل ہونے کی بجائے ’’سیاسی شہید‘‘ ہو کر اگلا انتخاب جیت سکیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ آمر اور منتخب حکمران ریاست کو آئین کے مطابق چلانے کا حلف تو اُٹھاتے رہے ہیں مگر عملی طور پر ہر حکمران نے آئین سے کھلا انحراف کیا۔ پاکستان کے مسائل کی جڑ یہ ہے کہ ریاست پر آئین اور قانون کی حکمرانی نہیں ہے۔

ریاست کے تمام ادارے قانون کی طاقت کے بجائے طاقت کے قانون کے بل پر حکومتی نظم و نسق چلاتے ہیں۔ میاں نواز شریف پاکستان کو بیس کروڑ عوام کی ریاست نہیں بلکہ ذاتی جاگیر کی طرح چلا رہے ہیں۔ اب میاں نواز شریف ڈان لیکس کی رپورٹ روک کر افواج پاکستان کو مشتعل کر رہے ہیں۔ کیا اسلام اجازت دیتا ہے کہ کمزوروں کو قربانی کے بکرے بنا کر طاقتوروں کو بچا لیا جائے۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار ریکارڈ پر ہیں کہ ڈان لیکس انکوائری رپورٹ کے بارے میں رولز آف بزنس کیمطابق وزیراعظم سیکریٹریٹ کو نوٹیفکیشن جاری کرنے کا اختیار نہیں ہے اور قواعد و ضوابط کے مطابق وزارت داخلہ خود رپورٹ جاری کریگی۔ ثابت ہو چکا کہ وزیراعظم سیکریٹریٹ کا نوٹیفکیشن ’’بدنیتی اور نااہلی‘‘ پر مبنی تھا جس نے ڈی جی آئی ایس پی آر کو غیر معمولی اور سخت ٹویٹ جاری کرنے پر مجبور کیا۔ باوثوق ذرائع کے مطابق اگر یہ ٹویٹ جاری نہ کیا جاتا تو پاک فوج کا اندرونی ڈسپلن متاثر ہوتا اور عوام کا قومی سلامتی کے ادارے پر اعتماد مضمحل ہوتا۔ البتہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی ٹویٹ میں "Rejected" ’’مسترد کیا جاتاہے‘‘ کا لفظ غیر ضروری تھا۔ بہتر ہوتا اگر آرمی چیف ٹویٹ سے پہلے اہتمام حجت کیلئے وزیراعظم سے فون پر بات کر کے متفقہ اور مکمل نوٹیفکیشن جاری کرنے کا مطالبہ کرتے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کی ٹویٹ کے بعد سول ملٹری ٹینشن شدت اختیار کر گئی ہے جو ہرگز ریاست کے قومی مفاد میں نہیں ہے۔ حکومت کے یہ دعوے بے بنیاد ثابت ہوئے کہ حکومت اور فوج ایک صفحہ پر ہیں۔ سول سوسائٹی کو یہ تشویش لاحق ہے کہ وزیراعظم کی ضد اور ہٹ دھرمی کی بناء پر ریاستی اداروں کے درمیان محاذ آرائی اور عوامی سطح پر خانہ جنگی کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ پاکستان کی آزادی اور سلامتی کے دشمن اس تشویشناک صورتحال سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرینگے۔ اس نازک مرحلے پر وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں۔ وہ سکیورٹی ایجنسیوں پر تنقید کرنے کے بجائے فوری طور پر وعدے کیمطابق ڈان لیکس کی رپورٹ جاری کر دیں تا کہ سول ملٹری ٹینشن ختم ہو جائے.

انہوں نے کئی بار کہا کہ وہ پاکستان سے محبت کرتے ہیں انہیں دولت اور حکومت کی کوئی پرواہ نہیں ہے اور پاکستان کے قومی مفاد کیلئے وہ حکومتی منصب چھوڑنے سے بھی گریز نہیں کرینگے۔ حالات کے جبر کی وجہ سے چوہدری نثار علی خان کے امتحان اور آزمائش کا وقت آن پہنچا ہے۔ انکے ماضی کے شاندار کردار کی روشنی میں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے ضمیر اور خمیر کے مطابق اس امتحان میں سرخرو ہوں گے اور اپنی نیک نامی پر حرف نہیں آنے دیں گے تاکہ آنیوالی نسلیں ان کو اچھے نام سے یاد کریں۔ پاکستانی قوم کو ٹینشن سے باہر نکالنا وزیراعظم کی ذمے داری ہے۔

قیوم نظامی


Post a Comment

0 Comments