All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

فوج‘ نواز شریف اور دائروں میں سفر

جناب نواز شریف کا دائروں میں سفر جاری ہے تاریخ مسلسل اپنے آپ کو دہرائے
جا رہی ہے المیہ یہ ہے کہ عالم فاضل مشیروں کے ہوتے ہوئے بھی کوئی مائی کا لعل جناب نواز شریف کو کسی قسم کا کوئی صائب مشورہ نہیں دے سکتا چند ماہ ہی میں وہ ایک بار پھر فوج کے مقابل کھڑے ہیں بھارتی فوج نہیں جناب پاکستان کی مسلح افواج ان کا ہدف ہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سب جرنیل غلط، چیف جسٹس باطل 'دو صدور واجب القتل اور ہمیشہ نواز شریف حق پر ہوں یہ کیسے ہو سکتا ہے۔

1993 میں نواز شریف پارلیمان کی حرمت کا علم لے کر بوڑھے غلام اسحق کے خلاف میدان میں نکلے تھے اور مزاحمت کا نشان بن کر ابھرے اس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ان کے حریفان سیاست کہتے ہیں کہ دھن 'دھونس اور دھاندلی کے مرکب سے تیار ہونے والی شمشیرِ خار شگاف کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکا غلام اسحق کے بعد چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی ماورائے آئین برطرفی، فاروق لغاری کا ایوان صدر سے افسوسناک اخراج پارلیمان کی بالادستی کے نام پر ہوا تھا جنرل آصف نواز کے ساتھ جناب نواز شریف پنجہ آزمائی شروع کر چکے تھے لیکن ان کی ناگہانی موت نے انہیں اپنی پسند کا آرمی چیف مقرر کرنے کا موقع فراہم کر دیا باوقار اور شاندار جنرل وحید کاکڑ ان کا انتخاب تھے جنہیں بعدازاں غلام اسحق خان کے ساتھ جاری محاذ آرائی کے دوران جناب نواز شریف سے مجبوراً استعفیٰ طلب کرنا پڑا تھا.
جنرل کاکڑ کے بعد شریف النفس جہانگیر کرامت آئے اور وہ مستقبل میں کسی حادثے سے بچنے کے لئے قومی سلامتی کمیٹی تشکیل دینے کا بے ضرر مشورہ دینے کا جرم کر بیٹھے وہ ضرورت سے زیادہ شریف آدمی تھے جمہوریت کے تسلسل کے لئے مستعفی ہو گئے پھر جنرل مشرف آئے جو کچھ ہوا وہ ہماری تاریخ کا المناک باب ہے قید اور جلاوطنی سے جناب نواز شریف نے یہ سیکھا کہ امریکہ اس دنیا کا خدا ہے اور آل سعود کا ساتھ ہو تو کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ برادرم روف طاہر کی وجہ سے اس کالم نگار کو بھی سرور محل کے ایک عشائیے میں مہمانِ خصوصی بننے کا شرف حاصل ہوا تھا وہاں ہونے والی گفتگو اور اس کا معیار دیکھ کر شدید دکھ ہوا تھا اچھی طرح یاد ہے کہ شہباز شریف اور سہیل ضیا بٹ حیران کن حد تک نہایت معقول باتیں کر رہے تھے۔ اس جلاوطنی کے سفر میں انہیں ازلی دشمن بھارت کے شان و شکوہ نے بھی بری طرح متاثر کیا ہے جس کے نتائج آج ہم بھگت رہے ہیں۔

جناب نواز شریف اس وقت سب سے تجربہ کار سیاستدان ہیں انہیں تیسری بار وزیراعظم بننے کا شرف حاصل ہے اسی طرح انہیں چار فوجی سربراہ مقرر کرنے کا غیر معمولی اعزاز بھی حاصل ہو چکا ہے۔ لیکن حیرتوں کی حیرت یہ ہے کہ وہ یہ سادہ سی حقیقت سمجھ نہیں پائے کہ فوج کا سربراہ فرد واحد نہیں ہوتا وہ سب سے طاقتور ادارے کا نمائندہ ہوتا ہے کار سرکار میں اس کی ذاتی پسند و ناپسند کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی جنرل قمر جاوید باجوہ کا تقرر بڑی چھان بین کے بعد کیا گیا تھا کہ کسی قسم کے سیاسی عزائم کا شائبہ تک نہ مل سکا تھا لیکن آرمی چیف حسن نواز کو بھی بنا دیا جائے تو جناب نواز شریف شاید اس کے ساتھ بھی نباہ نہیں کر سکیں گے کہ وہ بھی ادارہ جاتی معاملات میں فوج کی حکمت عملی پر عمل درآمد کا پابند ہو گا.

جنرل باجوہ پر تو تقرر سے پہلے دباو میں لانے کی حکمت عملی کے تحت مولوی ساجد میر کے ذریعے انتہائی رکیک حملہ کروایا گیا جو گذشتہ برسوں سے جناب نواز شریف کی عنایات کی وجہ سے سینٹ ایوان بالا میں قوم کی رہنمائی فرما رہے ہیں وہ تو بھلا ہو بابا جی انور باجوہ اور افضل بٹ کا کہ انہوں بروقت مداخلت کر کے یہ گھناونی سازش ناکام بنا دی اور آج ساری قوم ڈان لیکس تنازعے کی وجہ سے سولی پر لٹکی ہوئی ہے ایک بقراط جس کے سر پر لاکھوں افغانوں کا خون ناحق 50 ہزار پاکستانیوں اور 10 ہزار فوجی جوانوں کی شہادت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے بڑے دھڑلے سے مشورے دے رہا ہے جنرل باجوہ انا چھوڑ کر نواز شریف کے ساتھ بیٹھ کر ڈان لیکس تنازعہ حل کر لیں.

ڈان لیکس انکوائری کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن کو فوج مسترد نہ کر تی تو کیا حل تھا۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار اس کی وضاحتیں دیتے پھر رہے ہیں کہ اصلی نوٹیفیکشن ابھی جاری کیا جانا باقی ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں بتا رہے کہ "فواد حسن فواد کے جعلی نوٹیفکیشن کا ذمہ دار کون ہے. ڈان لیکس‘: سفارشات کو عوام کے سامنے رکھا جائے گا اور یہ کہ ’اداروں کے درمیان ٹویٹس پر بات نہیں ہوتی‘ موصوف ذرا شرمائے بغیر تمام تر ذمہ داری میڈیا پر ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں "میڈیا نے ایک طوفان کھڑا کر دیا ہے". وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کے دستخط سے جاری نوٹیفیکیشن کو چوہدری نثار علی نے کہا کہ یہ وزارتِ داخلہ کو ریفرنس تھا اور اس معاملے پر اصل نوٹیفکیشن جاری کرنا تو وزارتِ داخلہ کی ذمہ داری ہے۔

لیکن چوہدری نثار اس نوٹیفکیشن جاری کرنے کے ذمہ داران کے بارے خاموش ہیں۔ وزیر اعظم کے نوٹیفیکیشن میں خارجہ امور کے مشیر طارق فاطمی سے ان کا عہدہ واپس لیے جانے کے علاوہ تین اور احکامات جاری کیے گئے تھے۔ یاد رہے کہ مشیر خارجہ کے عہدے سے کسی کو علیحدہ کیا جانا وزارتِ داخلہ کے اختیارات میں نہیں آتا لیکن چوہدری نثار اپنی ڈفلی بجائے جا رہے ہیں انکوائری کمیٹی کی سفارشات کو چھپائے جا رہے ہیں۔ طارق فاطمی خاصے کی چیز ہیں اپنی بیگم کو بھی رکن قومی اسمبلی بنوا چکے ہیں۔ فن خوشامد کے ایسے بادشاہ ہیں کہ صاحبزادہ یعقوب کو باور کراتے رہے کہ ہنری کسنجر سے بڑے سفارتکار ہیں۔ وہ طرح دار جرنیل اس کی یاوہ گوئی سے منع کرنے میں ناکام رہا فاطمی 70 کی دہائی میں ان کے معاون خصوصی ہوتے تھے۔

میجر جنرل آصف غفور نے وزیر اعظم ہاوس کے ڈان لیکس کے حوالے سے جاری کیے گئے اعلامیہ کو مسترد کر تے ہوئے کہا: 'ڈان لیکس کے حوالے سے جاری کیا گیا اعلان انکوائری بورڈ کی سفارشات کے مطابق نہیں ہے۔ یہ نوٹیفکیشن مسترد کیا جاتا ہے۔ ' وزیر اعظم ہاوس سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ وزیراعظم نے انکوائری کمیٹی کے 18ویں پیرے کی منظوری دی ہے۔ وزارت اطلاعات و نشریات کے پرنسپل انفارمیشن آفیسر راو تحسین کے خلاف 1973 کے آئین کے ایفیشنسی اینڈ ڈسپلن (ای اینڈ ڈی) رولز کے تحت کارروائی کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک دوسرے نوٹیفیکیشن میں پرنسپل انفارمیشن آفیسر راو تحسین کو اسٹیبلشمنٹ ڈویڑن میں رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا۔ 

روزنامہ ڈان اس کے مدیر ظفر عباس اور سرل المائڈہ کا معاملہ آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) کے سپرد کرنیکی سفارش کرتے ہوئے اے پی این ایس سے کہا گیا ہے کہ وہ پرنٹ میڈیا کے حوالے سے ضابطہ اخلاق تشکیل دے۔ یہ ضابطہ اخلاق خاص طور پر پرنٹ میڈیا کے لیے ملکی سلامتی کے معاملات پر رپورٹنگ کے حوالے سے قواعد و ضوابط کا تعین کرے گی اور ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ قومی اہمیت اور سکیورٹی سے متعلق معاملات پر خبریں صحافت کے بنیادی اور ادارتی اصولوں کے خلاف شائع نہ ہوں۔

اے پی این ایس اپنے رکن اخبارات کےلئے کلیئرنگ ہاوس کا کام کرتی ہے جس کا کوئی لینا دینا ضابطہ اخلاق ادارتی یا رپورٹنگ معاملات سے نہیں ہے اس کےلئے مدیران کی نمائندہ تنظیم CPNE یا پھر کارکن صحافیوں کی تنظیم PFUJ بہتر انداز میں نمٹا سکتی ہے لیکن یہاں معاملات سلجھانے کی بجائے الجھانے پر ساری قوتیں صرف ہورہی ہیں گرمی حالات واقعات میں پاناما لیکس کو اور اپنے "پیارے" کل بھوشن یادو کو فراموش نہیں کرنا اور ہاں شکیل آفریدی پر بھی پہرہ دینا ہے جس کو خاموشی سے رہا کرنا حکمران ٹولے کی پہلی ترجیح بن چکی ہے۔

اسلم خان


Post a Comment

0 Comments