All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

انارکلی کا مقبرہ

مغلوں نے 1526ء سے 1700ء تک ہندوستان میں حکومت قائم رکھی۔ جب برطانیہ
نے یہاں قبضہ جمایا تو مغلوں کے بارے بہت سے واقعات رپورٹ کیے گئے۔ جن میں سے بیشتر حالات مغل بادشاوں نے اپنے قلم سے نوشتہ ہیں۔ مغلوں نے اپنے راج میں آئے دن تہذیب و ثقافت، فن تعمیر ادب و موسیقی کی صورت میں اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ان میں بدقسمت محبت کا افسانہ انارکلی بھی منسوب ہے جس نے آج بھی لوگوں کے دل و دماغ کو گرفتہ کر رکھا ہے۔ بعض مورخین تو واشگاف الفاظ میں انارکلی کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کرتے اور جو کرتے ہیں وہ بھی انار کلی کی موت کے بارے میں خاموش ہیں۔ سلیم جو بعد میں جہانگیر کے نام سے حکمران بنا انار کلی کی محبت میں گرفتار ہو گیا۔ اکبر نے شیشے میں دیکھا کہ انارکلی شہزادہ سلیم کو مسکراتے ہوئے دیکھ رہی ہے اسے شک ہوا کہ جہانگیر کے ساتھ سازباز میں انارکلی شریک ہے لہٰذا اس نے سزا کے طور پر اسے زندہ دیوار میں چنوانے کا حکم دیا۔ سلیم کو اس کی موت کا افسوس ہوا تو اس نے اس جگہ ایک عالیشان مقبرہ تعمیر کرایا۔
سید لطیف لکھتا ہے! یہاں عظیم الیشان سفید مثمن ہشت پہلو مقبرہ تعمیر کرایا گیا. جو آج بھی اپنے برجوں کے ساتھ آج بھی پنجاب کے سول سیکرٹریٹ میں موجود ہے۔ آج مقبرہ کے وسط کی بجائے یہ قبر کا تعویذ ایک سمت پڑا ہے جس پر دو تاریخیں ابھرواں انداز میں یوں درج ہیں۔ 1599ء اور 1615ء اغلباً انارکلی کے مرنے کی تاریخ 1599ء جبکہ 1615ء مقبرہ کی تعمیر کی تاریخ ہو سکتی ہے جہانگیر نے بادشاہ بننے کے دس سال بعد یعنی 1615ء میں اس کی تعمیر کرائی ہو گی۔ سکھوں نے اپنے عہد میں اس مقبرے کو خاصا نقصان پہنچایا۔ مقبرے کی بنیادیں خشتی اور چبوترہ سنگ مرمر کا تھا جو راجہ رنجیت سنگھ نے اکھاڑ دیا۔ قبر کے تعویذ پر 99 اسماء الٰہی اور اشعار درج ہیں۔ انگریزی دور میں اس عمارت کو گرجا میں تبدیل کر دیا گیا اور اس کا نام سینٹ جین چرچ رکھ دیا گیا۔ اب اس عمارت کو ریکارڈ آفس کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر عبداللہ چغتائی کے مطابق یہ مقبرہ جہانگیر کی بیوی صاحب جمال کا ہے۔

قبر کے تعویذ پر مندرجہ ذیل عبارت درج ہے: آہ گرھن بازینم روی یار خویش را تاقیامت شکر گویم کردگار خویش را مجنوں سلیم اکبر 1008ء ہزار دہشت کتبات قبور کے لحاظ سے لاہور میں یہ خوبصورت نستعلیق کی ابھروں انداز میں بہترین مثال ہے اس میں الفاظ سنگ مرمر کے ایک ہی ٹکڑے پر انتہائی چابکدستی میں کتابت کئے گئے ہیں اور اللہ اکبر لکھا گیا ہے۔ 1642ء میں داراشکوہ نے سفتیہ الاولیاء اولین تصنیف کی جس میں انارکلی کے مقبرہ اور باغ کے بارے میں لکھا مگر اس نے یہ نہیں بتایا کہ اس مقبرے میں کون دفن ہے۔ ڈاکٹر عبداللہ چغتائی کا بیان اس ضمن میں درست لگتا ہے کہ یہ مقبرہ جہانگیر کی چوتھی بیوی صاحب جمال کا ہے جو1599ء میں لاہور میں فوت ہوئی جو مزار پر کندہ ہے مگر جہانگیر نے اس مقبرے کے بارے میں کوئی بھنک نہیں ڈالی۔

شیخ نوید اسلم
 (پاکستان کے آثارِ قدیمہ)
 

Post a Comment

0 Comments