All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

سال 2017ء میں عرب دنیا

2016ء عرب دنیا کے لیے ایک خونیں سال رہا ہے۔ عرب دنیا کے بیشتر حصوں پر جنگوں ،خانہ جنگیوں ،اقتصادی ابتری اور ناامیدی کے طویل اور گہرے سائے چھائے رہے ہیں۔ عرب بہار سے مطلق العنان حکمرانوں کے جبر واستبداد کی راہ ہموار ہوئی اور اس نے عرب جہاز کو ایک ایسے طوفان کے بھنور میں پھنسا دیا ہے کہ اگر اس کو فوری طور پر نہ نکالا گیا تو اس سے ہمارے مزید انتشار اور توڑ پھوڑ کی راہ ہموار ہو گی کہ جس کا ازالہ بھی نہیں ہو سکے گا۔ برسوں سماجی ترقی کے عمل کو نظرانداز کرنے ،آمریت ، فوجی حکمرانی اور مہم جوئی وغیرہ سب نے ہمیں اس جہنم زار میں لا کھڑا کیا ہے۔

بہت سے عرب ممالک اپنی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ وہ یہ جنگ غیرملکی قوتوں کے خلاف نہیں بلکہ ان عفریتوں کے خلاف لڑرہے ہیں جو عدم تفہیم اور اپنے ہی عوام کی خواہشات کو دبانے والے مطلق العنان حکمرانی کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ مقبوضہ فلسطین میں جبرو استبداد اور سنگ دل صہیونی حکومت نے سیکڑوں بے گناہ بچوں اور خواتین کو قتل کر دیا ہے لیکن اس کو دنیا نے نظر انداز کر دیا اور وہ امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹویٹس کے ساتھ الجھی رہی ہے کہ وہ فلسطینی عوام کو غائب ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم عرب از خود اس صورت حال سے نکل سکتے ہیں اور 2017ء میں صورت حال کی تبدیلی کے لیے ایک قابل عمل خاکا وضع کر سکتے ہیں۔
اور یہ خاکا کیسا ہونا چاہیے؟ اس میں پہلے نمبر پر پائیدار اقتصادی ترقی ہے اور یہ تنازعے کی عدم موجودگی سے ہی ممکن ہے۔ ہمیں ایک فعال معاشرہ ، ترقی کرتی معیشت اور ترقی پسند قوم کی تشکیل کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں اتفاق رائے ہونا چاہیے اور درپیش بڑے خطروں پر نظر ہونی چاہیے۔ عرب لیگ کی تشکیل نو ہونی چاہیے۔ اس کو نیا مشن بیان وضع کرنے کے لیے با اختیار بنایا جانا چاہیے اور سربراہ اجلاسوں اور کانفرنسوں پر کوئی وقت ضائع نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس وقت حقیقی چیلنج یہ ہے کہ ہمیں جو بڑے مسائل درپیش ہیں ،ان پر توجہ مرکوز کی جائے۔ یہ سوچنا بالکل غیر حقیقت پسندانہ ہوگا کہ یہ کوئی آسان کام ہے۔

عرب ریاستوں کو ایک جدید معاشرے کے طور پر آگے بڑھنے کے لیے مشترکہ اقدار تلاش کرنی چاہییں۔ تبدیلی کے بغیر ترقی ناممکن ہے اور عرب لیڈروں کو یہ بات جان لینی چاہیے کہ جو لوگ اپنے ذہن تبدیل نہیں کریں گے، وہ کچھ بھی تبدیل نہیں کرسکتے ہیں۔ انھیں معاشرے کے تمام طبقات اور تمام متعلقہ فریقوں کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا اور ان سب کو قومی تعمیر نو کے عمل میں اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کرنا چاہیے اور بنیادی ایشوز سے متعلق ایک بین الاقوامی تفہیم پیدا کرنی چاہیے۔ یہی بات ہماری بقا کے لیے بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔

ہمارے پاس ایسے لاکھوں نوجوان ہیں جو دہشت گردوں اور پسماندگی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ انھیں اپنی توانائیوں کو بروئے کار لانے کے لیے رہ نمائی اور کوشش کی ضرورت ہے۔ وہ افسر شاہی کے موجودہ مزاج کے ساتھ کچھ بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ انھیں ہماری زندگیوں کو کنٹرول کرنے کا حق کس نے دیا ہے؟
نئی نسل کو ہمیشہ درمیانے درجے کی ذہنیت کے حامل لوگوں کی جانب سے متشدد مزاحمت کا سامنا رہا ہے جو لوگ اقتدار میں ہیں، انھیں نئی نسل کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہمیں اس نسل پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی اور انھیں اظہار رائے کی آزادی اور اپنی مدد آپ کے تحت آگے بڑھنے کا حق دینا ہو گا۔ انھیں نظرانداز کرنا ہمارے لیے بہت خطرناک ثابت ہوگا۔ اگر وہ انتہا پسند گروپوں کے ہتھے چڑھ گئے تو اس کا یہ مطلب یہ ہوگا کہ 2017ء بھی گذرے سال سے کوئی مختلف نہیں ہوگا۔

حرف آخر یہ کہ ہمیں ایک تعلیمی ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہو گی، مختلف نقطہ نظر اور رواداری کو قبول کرنا ہو گا تا کہ ہم بیشتر عرب معاشروں میں موجود عدم رواداری اور تعصبات کو چیلنج کرسکیں۔ ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ نظریات سے تحریک پانے والے لوگوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ان کا نظریہ ان سمتوں کی جانب بھی رُخ موڑ سکتا ہے جو ایک جدید اور ترقی کرتی ریاست کے لیے شاید ناقابل قبول ہو کیونکہ اس ریاست میں درحقیقت تمام لوگوں کے لیے اظہار رائے کی آزادی اور انسانی حقوق کا احترام کیا جاتا ہے۔

خالد المعینا

Post a Comment

0 Comments