All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

رائے ونڈ میں سالانہ عالمی تبلیغی اجتماع

زبان پر ذکر الٰہی ، آنکھوں میں شب بیداری کے آثار، پیشانیوں پر سجدوں کے
نشان، کاندھوں پر بستر، ایک ہاتھ میں ضروری سامان اور دوسرے ہاتھ میں تسبیح لیے بے شمار قافلے اپنے مخصوص انداز اور ترتیب سے آج پوری دنیا میں ملک ملک شہر شہر، نگرنگر اور قریہ قریہ اپنے قدموں کو دینِ اسلام کی ترویج و اشاعت کیلئے اللہ کے راستہ میں بڑی دلسوزی کے ساتھ گرد آلود کرتے ہوئے امت کے ایک ایک فرد کے دروازے پردستک دیتے ہوئے نظر آئیں گے، ان قافلوں کو عرف عام میں ’’تبلیغی جماعت‘‘ کہا جاتا ہے چوبیس گھنٹوں میں کوئی ایسا وقت اور لمحہ نہیں گزرتا جس میں تبلیغی جماعت کی نقل وحرکت پوری دنیا میں کہیں نہ کہیں جا ری نہ ہو، رائونڈ میں منعقد ہونے والا اجتماع حج کے بعد مسلمانوں کا دوسرا بڑا اجتماع ہے جس میں پوری دنیا سے لاکھوں مسلمان شرکت کر رہے ہیں. 

حسبِ سابق اس مرتبہ بھی تبلیغی اجتماع کے دو سیشن ہونگے پہلا سیشن 3 نومبر2016 کی شام سے شروع ہوگا اور 8 نومبر بروز اتوار پہلا سیشن اجتماعی دُعا کے ساتھ اختتام پذیر ہوگا اور تبلغی اجتماع کا دوسرا سیشن 10 نومبرکی شام سے 13 نومبربروز اتوار تک ہو گا اوریہ سیشن بھی اجتماعی دعا کے ساتھ اختتام پذیر ہوگا۔ اس عالمی اجتماع میں پاکستان سمیت پوری دنیا سے لاکھوں مسلمان شریک ہوں گے اور آخری روز ’’اجتماعی دعا‘‘ میں یہ تعداد مزید بڑھ جاتی ہے۔ آج جس تبلیغی تحریک کی سارے عالم میں صدائے باز گشت ہے اس کے بانی حضرت مولانا محمد الیاسؒ ہیں جن کے مجاہدوں، ریاضتوں اور روحانیت واخلاص سے اس تحریک کی ابتداء ہوئی۔ 
بانی تبلیغی جماعت حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ کا گھرانہ ان خوش قسمت خاندانوں میں سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے مقبولیت و محبوبیت سے خوب نوازا تھا۔ اس خاندان کی بنیاد کچھ ایسے صدق و اخلاص پر پڑی تھی کہ صدیوں تک یکے بعد دیگرے نسل درنسل اس خاندان میں علماء وفضلاء، اہل کمال، مقبولین اور اللہ والے لوگ پیدا ہوتے رہے۔ جہاں اس خاندان کے مردوں میں جذبہ جہاد، تقویٰ ونیکی، دین کی اشاعت و ترویج کا عام رواج تھا وہاں ان کی عورتیں بھی دینداری، عبادت گزاری، شب بیداری اور ذکر و تلاوت میں پیچھے نہ تھیں بلکہ اس خاندان کی عورتوں میں بھی قرآن مجید کا ترجمہ و تفسیر اور احادیث کے مطالعہ کی عام عادت تھی۔ آپؒ کے والد مولانا محمد اسماعیلؒ ولی کامل اور والدہ محترمہ بھی ’’رابعہ سیرت‘‘ خاتون تھیں جنہو ں نے آپؒ کی پرورش و تربیت میں کوئی کمی نہ چھوڑی، چھوٹی عمر میں ہی قرآن مجید اور دینی علوم کی تعلیم احسن طریقہ سے امتیازی شان اور نمایاں اندازمیں مکمل کر لی تھی، نیکی و تقوی کی صفات بچپن میں ہی آپؒ کے اندر نمایاں اور خاندان میں آپؒ کی شہرت ولی کامل کی تھی۔ آپؒ نے جہاں شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ جیسے مجاہد عالم دین سے علم حاصل کیا وہاں دوسری طرف آپ ؒ نے اپنے وقت کے قطب الاقطاب حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہوئے تصوف و سلوک کی منازل تیزی سے طے کیں۔

ایک مرتبہ آپؒ نے اپنے پیر و مرشد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ سے عرض کیا کہ حضرت ذکر کرتے ہوئے میرے دل پر بوجھ محسوس ہوتا ہے حضرت گنگوہیؒ یہ سن کر متفکر ہوئے اور فرمایا کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ نے اپنے مرشد حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ سے اس قسم کی شکایت کی تھی توحاجی امداد اللہ صاحبؒ نے جواب فرمایا کہ’’اللہ تعالیٰ آپؒ سے کام لیں گے‘‘۔ بانی تبلیغی جماعت حضرت مولانا محمد الیاسؒ نے جب اپنے گردوپیش کا جائز ہ لیا تو ہر طرف دین سے دوری عقائد کی خرابی اور اعمال و عقائد کا بگاڑ دیکھا کہ لوگ شرک و بدعت، جہالت اور ضلالت و گمراہی کے ’’بحرظلمات‘‘ میں ڈوبے ہوئے ہیں تو ان کے دل پر چوٹ لگی اور وہ امت محمدیہ ﷺ کی اصلاح کے سلسلہ میں متفکر و پریشان دیکھائی دینے لگے.

آپؒ نے محسوس کیا کہ عام دینداری جو پہلے موجود تھی اب ختم ہوتی اور سمٹتی چلی جا رہی ہے، پہلے یہ دین داری خواص تک اور مسلمانوں کی ایک خاص تعداد میں رہ گئی تھی پھر اس کا دائرہ اس سے بھی تنگ ہوا اور ’’اخص الخواص‘‘ میں یہ دینداری باقی رہ گئی ہے پہلے جو خاندان اور قصبات و علاقے اور شہر ’’رشد و ہدایت‘‘ کے مراکز سمجھے جاتے تھے ان میں بھی اس قدر تیزی کے ساتھ انحطاط و زوال ہوا کہ اب ان کی ’’مرکزیت‘‘ ختم ہوتی جارہی ہے جہاں پہلے علم و عمل کی قندیلیں روشن رہتی تھیں اب وہ بے نور ہیں، دوسری بات انہوں نے یہ محسوس کی کہ علم چونکہ ایک خاص طبقہ تک محدود رہ گیا ہے اس لیے آپؒ یہ چاہتے تھے کہ عوام الناس میں پھر سے دینداری پیدا ہو، خواص کی طرح عوام میں بھی دین کی تڑپ اور طلب پیدا ہو، ان میں دین سیکھنے سکھانے کا شوق و جذبہ انگڑائیاں لے، اس کے لیے وہ ضروری سمجھتے تھے کہ ہر ایک دین سیکھے، کھانے، پینے اور دیگر ضروریات زندگی کی طرح دین سیکھنے او اس پر عمل کرنے کو بھی اپنی زندگی میں شامل کریں.

اور یہ سب کچھ صرف مدارس و مکاتب اور خانقاہی نظام سے نہیں ہوگا کیونکہ ان سے وہی فیضیاب ہو سکتے ہیں جن میں پہلے سے دین کی طلب ہواور وہ اس کا طالب بن کر خود مدارس و مکاتب اور خانقاہوں میں آئیں، مگر ظاہر ہے کہ یہ بہت ہی محدود لوگ ہوتے ہیں اس لیے مولانا الیاس کاندھلویؒ ضروری سمجھتے تھے کہ اس ’’دعوت و تبلیغ‘‘ کے ذریعہ ایک ایک دروزاہ پر جا کر اخلاص و للہیت کے ساتھ منت و سماجت اور خوشامد کر کے ان میں دین کے ’’احیاء‘ کی طلب پیدا کی جائے کہ وہ اپنے گھروں اور ماحول سے نکل کر تھوڑا سا وقت علمی و دینی ماحول میں گزاریں تا کہ ان کے دل میں بھی سچی لگن اور دین سیکھنے کی تڑپ پیدا ہوا اور یہ کام اسی دعوت والے طریقہ سے ہو گا جو طریقہ اور راستہ انبیاء کرام علیہم السلام کا تھا اور جس پر چلتے ہوئے صحابہ کرامؓ جیسی مقدس اور فرشتہ صفت جماعت پوری دنیا پر اسلام کو غالب کرنے میں کامیاب ہوئی اور پھر جب اس دعوت و تبلیغ سے عام فضاء دینی بنے گی تو لوگوں میں دین کی رغبت اور اس کی طلب پیدا ہوگی تو مدارس و خانقاہی نظام اس سے کہیں زیادہ ہو گا بلکہ ہر شخص مجسمِ دعوت اور مدرسہ و خانقاہ بن جائے گا۔

حضرت مولانا محمد الیاسؒ کی دین کے لیے تڑپ و بے چینی اور درد و بے قراری دیکھنے میں نہیں آتی تھی ، مسلمانوں کی دین سے دوری پر آپؒ انتہائی غمگین و پریشان اوراس فکر میں ڈوبے رہتے تھے کہ مسلمانوں کے اندر کسی طرح دین دوبارہ زندہ ہو جائے۔ بعض اوقات اسی فکر میں آپؒ ’’ماہی بے آب‘‘ کی طرح تڑپتے آہیں بھرتے اور فرماتے تھے میرے اللہ میں کیا کروں کچھ ہوتا ہی نہیں۔کبھی دین کے اس درد وفکر میں بستر پر کروٹیں بدلتے اور جب بے چینی بڑھتی تو راتوں کو فکر سے اٹھ کر ٹہلنے لگتے۔۔۔ ایک رات اہلیہ محترمہؒ نے آپ ؒ سے پوچھا کہ کیا بات ہے نیند نہیں آتی؟۔۔۔ کئی راتوں سے میں آپؒ کی یہی حالت دیکھ رہی ہوں۔۔۔، جواب میں آپؒ نے فرمایا کہ! کیا بتلاؤں اگر تم کو وہ بات معلوم ہو جائے تو جاگنے والا ایک نہ رہے دو ہو جائیں۔۔۔ 

صرف آپؒ کی اہلیہ محترمہؒ ہی نہیں بلکہ آپؒ کے سوز و درد کا اندازہ ہر وہ شخص آسانی کے ساتھ لگا سکتا تھا جو آپؒ کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا اور باتیں سنتا تھا، آپؒ کا بس نہیں چلتا تھا کہ سب لوگوں کے دلوں میں وہی آگ پھونک دیں جس میں وہ عرصہ سے جل رہے تھے۔۔۔ سب اس غم میں تڑپنے لگیں جس میں وہ خود تڑپ رہے تھے، سب میں وہی سوز و گداز پیدا ہو جائے جس کی لطیف لمس سے آپؒ کی روح جھوم اٹھتی تھی جب ایک جاننے والے نے خط کے ذریعہ آپ سے خیریت دریافت کی تو آپؒ نے سوز ودرد میں ڈوبے ہوئے قلم کے ساتھ جواب دیتے ہوئے تحریر فرمایا کہ ’’طبیعت میں سوائے تبلیغی درد کے اور خیریت ہے‘‘۔ اور پھر مولانا محمد الیاسؒ خود سراپا دعوت بن کر ’’دعوت و تبلیغ ‘‘ والے کام کو لے کر بڑی دلسوزی کے ساتھ دیوانہ وار ’’میوات‘‘ کے ہر علاقہ میں پھرے ہر ایک کے دامن کو تھاما، ایک ایک گھر کے دروازہ پر دستک دی کئی کئی وقت فاقے کیے، گرمی و سردی سے بے پرواہ ہو کر تبلیغی گشت کیے۔

اور جب لوگوں نے آپؒ کی حسب خواہش آپؒ کی آواز پر ’’لبیک‘‘ نہ کہا تو آپؒ بے چین و بے قرار ہو کر راتوں کو خدا کے حضور روتے گڑگڑاتے اور پوری امت کی اصلاح کے لیے دعا کرتے۔۔۔ اور پھر اپنی ہمت و طاقت ، مال و دولت سب کچھ ان میواتیوں پر اور ان کے ذریعہ اس تبلیغی کام پر لگا دیا۔۔۔ اس دوران اپنے رفقاء اور ساتھیوں کو ایک خط میں آپؒ تحریر فرماتے ہیں کہ! تم غور کرو، دنیائے فانی میں کام کیلئے تو گھر کے سارے افراد ہوں او ر اس دعوت و تبلیغ کے کام کے لیے صرف ایک آدمی کو کہا جائے اور اس پر بھی نباہ نہ ہو تو آخرت کو دنیا سے گھٹایا ،یا نہیں گھٹایا؟۔ حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ اپنے ایک مکتوب میں میواتی حضرات کو تحریر فرماتے ہیں کہ ’’میں اپنی قوت و ہمت کو تم میواتیوں پر خرچ کر چکا ، میرے پاس بجز اس کے کہ تم لوگوں کو قربان کردوں کوئی اور پونجی نہیں ہے۔۔۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ میواتی حضرات نے اپنے جان و مال اور زندگیوں کو اس کام پر قربان کر دیا۔۔۔ اور پھر ایک ایک گھر سے ایک ہی وقت میں کئی کئی افراد دین کے کام کے لیے باہر نکلنے لگے۔

اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ ابتداء میں یہی میواتی لوگ جن کو اپنے گھر اور گاؤں سے نکلنا مشکل تھا اب وہ مولانا الیاسؒ کی محنت سے اس دعوت و تبلیغ کی فکر لے کر ملک ملک، شہر شہر دین کی خاطر پھرنے لگے۔۔۔ مولانا الیاسؒ کی یہ عالمگیر’’احیائے اسلام کی تحریک‘‘ جسے ظاہر میں لوگ صرف کلمہ و نماز کی تحریک کہہ کر اس کی اہمیت کو کم کرنے کی کوش کرتے ہیں یہ کوئی معمولی کام اور تحریک نہیں بلکہ یہ پورے دین کو عملی طور پر زندگی میں نفاذ کی تحریک ہے۔۔۔ اس تحریک اور جماعت کے بانی حضرت مولانا الیاس ؒ خود اپنی اس تحریک کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’میرا مدعا کوئی پاتا نہیں‘‘ لوگ سمجھتے ہیںیہ’’تحریکِ صلوٰۃ‘‘ ہے میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ ہر گز تحریکِ صلوٰۃ نہیں ہے بلکہ ہماری جماعت اور تحریک کا ایک خاص مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو حضورﷺ کا لایا ہوا دین پورا کا پوراسکھا دیں، یہ تو ہے ہماری تحریک کا مقصد، رہی تبلیغی قافلوں کی چلت پھرت، تو یہ اس مقصد کے لیے ابتدائی ذریعہ ہے اور کلمہ و نماز کی تلقین گویا ہمارے پورے نصاب کی الف، ب، ت ہے۔ 

مولانا مجیب الرحمن انقلابی


Post a Comment

0 Comments