All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

ہلیری کی شکست، آخر ہوا کیا ؟

حالیہ انتخاب بلاشبہ امریکی تاریخ کا سب سے غیر معمولی انتخاب ہے اور یہ سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک بغاوت بھی ہے۔ اور کچھ لوگ ان انتخابات کو سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے ناکامی کے طور پر دیکھتے اور اس ناکامی کی شبیہ انھیں ہلیری کلنٹن میں دکھائی دیتی ہے۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران کروڑوں ناراض ووٹرز کے لیے وہ امریکہ کی ٹوٹی پھوٹی سیاست کا چہرہ بن گئی تھیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اتنی ریاستوں میں اتنے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے کہ وہ یہ مسئلہ حل کر سکتے ہیں۔ وہ ایک احتجاجی امیدوار تھے۔ ہلیری سٹیٹس کو کی نمائندگی کرتی تھیں۔ ہلیری کلنٹن نے مسلسل دعویٰ کیا تھا کہ وہ سب سے زیادہ قابل امیدوار ہیں۔ انھوں نے مسلسل اپنے تجربہ کار ہونے کا ذکر کیا، بطور خاتون اول، نیویارک کی سینیٹر اور سیکریٹری خارجہ کا تجربہ۔

لیکن اس ہنگامہ خیر انتخاب میں، جہاں بہت زیادہ غصہ اور بے اطمینانی تھی، ڈونلڈ ٹرمپ کے حمایتیوں نے تجربے اور قابلیت کو بہت بڑی منفی صفت کے طور لیا۔ انتخابی مہم کے دوران میں نے بہت سے لوگوں سے بات کی، خاص طور پر رسٹ بیلٹ کے علاقوں میں جہاں ایک عرصے سے بند پڑی بڑی بڑی فیکٹریاں زنگ آلود ہو چکی ہیں۔ ان علاقوں کے لوگ وائٹ ہاؤس میں ایک سیاستدان کے بجائے کاروباری شخص کو دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کی واشنگٹن کے لیے نفرت واضح تھی۔ چنانچہ ہلیری کلنٹن کے لیے بھی نفرت تھی۔ یہ جیسے الہامی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ٹینیسی میں ایک درمیانی عمر کی خاتون سے بات کرتے ہوئے، ان کا جنوب سے تعلق خوشگوار انداز میں ٹپک رہا تھا، وہ اس سے زیادہ نرم گو نہیں ہو سکتی تھیں۔ لیکن جب ہلیری کلنٹن کا موضوع آیا تو وہ بالکل مختلف تھیں۔
ہلیری کلنٹن کا طویل عرصے سے اعتبار کا مسئلہ رہا ہے، یہی وجہ تھی کہ ان کا ای میل سکینڈل اتنا زیادہ بڑھا۔ ان میں کھرے پن کے حوالے سے مسئلہ ہے۔ انھیں امریکہ کے مشرقی ساحل کی اشرافیہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو مزدور طبقے کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔

وہ امیر لوگ جو کلنٹنز کے وائٹ ہاؤس سے جانے کے بعد سے ان کے ساتھ تھے ان کے مددگار ثابت نہیں ہوئے۔ اس جوڑے کو صرف’لیموزین لبرلز‘ یا بڑی بڑی کاروں میں سفر کرنے والے اعتدال پسند کے طور پر نہیں بلکہ لیئرجیٹ لبرلز یا نجی طیاروں میں سفر کرنے والے لبرل اشرافیہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اسی لیے ان کی دولت مزدور طبقے کے ووٹوں کے درمیان حائل ہو گئی اگرچہ اسی طبقے نے بخوشی پراپرٹی کے بڑے کاروباری کو ووٹ دے دیا۔ ایک ایسے ملک میں جہاں مردوں کے مقابلے میں کروڑوں خواتین ووٹ ڈالتی ہیں، یہ سمجھا جارہا تھا کہ اس سے ہلیری کلنٹن کو بڑا فائدہ حاصل ہوگا۔ لیکن اپنے حریف برنی سینڈرز کے خلاف پرائمریز کے تنائج سے واضح ہو گیا تھا کہ وہ نوجوان خواتین کو مائل کرنے میں کس قدر ناکام رہی ہیں، خاص طور پر ملک کی پہلی خاتون صدر بننے کے حوالے سے۔

ہلیری بہت ساری خواتین کا دل کبھی بھی نہیں جیت سکیں۔ کچھ کو ابھی بھی یاد ہے کہ ان کے بطور خاتون اول گھر میں رہ کر کوکیز نہ پکانے کے بیان کی تشریح تحقیرآمیز طور پر کی گئی تھی۔ جب ڈونلڈ ٹرمپ نے ان پر اپنے شوہر کے معاملات میں دخل اندازی اور بل کلنٹن پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کرنے والی خواتین پر حملے کرنے کے الزامات عائد کیے تو بہت ساری خواتین نے اثبات میں سر ہلائے تھے۔  اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ صنفی امتیاز نے بھی اپنا کردار ادا کیا کہ بہت سارے مرد ووٹرز ایک خاتون کو صدر کے طور پر دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔
ایک ایسے وقت میں جب بہت سارے امریکی تبدیلی چاہتے تھے، انھوں نے پھر وہی پرانی باتیں دہرائی۔ کسی بھی پارٹی کے لیے وائٹ ہاؤس تک مسلسل تیسری بار فتح حاصل کرنا ایک مشکل کام ہے۔ ڈیموکریٹس 1940 کی دہائی سے اب تک ایسا نہیں کر سکے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بہت سارے ووٹرز کلنٹن خاندان سے بیزار ہوچکے تھے۔

ہلیری کلنٹن فطری طور پر ایک مہم کار نہیں ہیں۔ ان کی تقریریں عموما سپاٹ اور کسی حد تک روبوٹک ہوتی ہیں۔ ان کی آواز کچھ کانوں کو ناقابل بھروسہ محسوس ہوتی ہیں۔ ای میل سکینڈل کا دوبارہ سامنے آنا ایک بہت بڑا مسئلہ رہا اور انھوں نے اپنی انتخابی مہم کا اختتام ایک منفی نکتے پر کیا۔ انتخابی مہم کے دوران بھی انھوں نے کئی غلطیاں کیں۔ انھوں نے اپنے وسائل اور وقت ایسی ریاستوں میں ضائع کیے جہاں انھیں جیتنے کی ضرورت نہیں تھی، جیسا کہ شمالی کیرولینا اور اوہائیو۔ اس کے بجائے انھوں نے ان 18 ریاستوں پر توجہ نہیں دی جہاں سے ڈیموکریٹ گذشتہ چھ انتخابات سے جیت رہے تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے سفید فام مزدور طبقے کے ووٹروں کے ساتھ پینسلوینیا اور وسکونسن سے بھی فتح حاصل کی جہاں سے سنہ 1984 کے بعد سے رپبلکن نہیں جیت سکے تھے۔ یہ صرف ہلیری کلنٹن کو مسترد کرنا نہیں بلکہ نصف سے زائد ملک کا براک اوباما کے امریکہ کو مسترد کرنا ہے۔

نک برینٹ
بی‌بی‌سی نامہ نگار، نیویارک


Post a Comment

0 Comments