All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

بس کچھ ایمبولینسیں بڑھا دیں...وسعت اللہ خان

عزت ماآب عالی جاہانِ پاکستان!

آج ( 13نومبر ) ایک تاریخی دن ہے۔ یہ دن آنے والی نسلیں اس لیے یاد رکھیں گی کہ پاک چائنا اکنامک کاریڈور کا خواب شرمندہِ تعبیر ہوا اور پہلی بار دو بحری جہاز چین اور پاکستان کا مشترکہ مال لے کر گوادر سے عالمی منڈیوں کی جانب روانہ ہوئے۔ یوں خوشحالی کے طویل سفر کی جانب پہلا قدم اٹھا دیا گیا۔ دشمنوں نے اس کاریڈور کو ناکام بنانے کی بہت کوشش کی۔ مگر آپ کی ثابت قدم قیادت میں تمام سازشوں کا مقابلہ کیا گیا۔ گوادر کی بندرگاہ سے پھوٹنے والے خوشحالی کے سورج کی کرنیں روکنے کے لئے دشمنوں نے آخری کوشش کے طور پر بلوچستان کے ویرانے میں روحانیت کے مرکز شاہ نورانی پر دھمال کھیلنے والے بے گناہ زائرین کو بھی نشانہ بنایا۔

اگر دشمن سمجھتا تھا کہ گوادر بندرگاہ بین الاقوامی تجارت کے لئے کھولنے سے صرف ایک دن پہلے 54 بے گناہوں کو مار کر وہ پاکستان کی پرعزم قیادت کو گوادر کی افتتاحی تقریب سوگ کے نام پر ایک آدھ دن آگے بڑھانے پر مجبور کر سکتا ہے تو دشمن کو سخت ناکامی ہوئی۔ عزمِ مصمم کے اس اظہار سے یقیناً دشمن کے حوصلے پست ہوئے ہوں گے۔ چنانچہ مجھ جیسوں کی استدعا ہے کہ واجب الاحترام سرکار اسی حوصلہ مندی کا مظاہرہ کرتی رہے جس کا اظہار وہ گذشتہ تین ماہ کے دوران کوئٹہ سول اسپتال میں 70 سے زائد، کوئٹہ پولیس ٹریننگ اکیڈمی میں 61 اور شاہ نورانی کے مزار پر54 ہلاکتوں کے بعد سے کر رہی ہے۔
ہم افتادگانِ خاک کو احساس ہے کہ ان بے قصور ہلاکتوں کے سبب سرکار اور اس کے اداروں کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے مگر دل کی حالت چہرے سے ہرگز ہرگز عیاں نہیں ہونی چاہیے۔ معمولاتِ زندگی، کارِ سرکار اور عظیم منصوبوں کی تیز رفتار تکمیل کے ہدف میں کوئی تساہل نہیں آنا چاہیے۔ کہیں دشمن ہمارے دکھ کو بھی ہماری کمزوری نہ سمجھ لے۔ آزمائش کی اس طویل گھڑی میں ہر سانحے کے بعد چہرہ سپاٹ رکھنا بھی قومی خدمت ہے۔  سنیچر کی شام درگاہ شاہ نورانی میں بم دھماکے کے نتیجے میں زخمی ہونے والوں کو کراچی منتقل کیا گیا.

حضورِ والان! آپ کو ایسے مٹھی بھر لوگوں کی بات پر بھی کان دھرنے کی ضرورت نہیں جو اس طرح کے سوالات اٹھا کر قومی مورال برباد کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جی پاکستان پچھلے 16 برس میں دہشت گردی کی ان گنت وارداتوں کا نشانہ بننے کے باوجود اب تک کسی موثر نیشنل ایکشن پلان پر کیوں عمل نہیں کر پا رہا، انٹیلیجنس نیٹ ورک کیوں بہتر اور جدید نہ بن سکا، مختلف ایجنسیوں کے درمیان موثر رابطہ کاری کا نظام کیوں وضع نہیں ہو پایا، عدالتی اصلاحات کیوں مسلسل ملتوی ہو رہی ہیں، پولیس اصلاحات میں اور کتنی دیر لگے گی، انسدادِ دہشت گردی کے سلسلے میں صوبوں اور وفاق کے درمیان پالیسی اور نیت کے فرق کو دور کر کے کون انھیں ایک چھتری تلے لائے گا وغیرہ وغیرہ۔
ایسے مفت کے مشوروں پر کان دھرنا بھی دراصل دشمن کے حوصلے بڑھانے کے برابر ہے۔ لہذا آئندہ بھی یہ یہی ظاہر کرنے کی پالیسی برقرار رہنی چاہیے کہ جیسے کچھ دیکھا ہی نہیں، کوئی چیخ سنی ہی نہیں، کوئی پلان سوچا ہی نہیں، دشمن کو سمجھا ہی نہیں۔

یہی وہ کیمو فلاج حکمتِ عملی ہے جس کے سبب ہمارے دشمن ایک نہ ایک دن ضرور اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ایسی قوم پر توانائی ضائع کرنے سے کیا فائدہ جو کسی بڑے سے بڑے سانحے پر بھی جنبش تک نہیں کرتی۔ یوں ایک دن دشمن مکمل مایوس ہو جائے گا اور دہشت گردی ختم ہو جائے گی۔ عالی جاہان! آپ تمام منصوبوں کو مکمل یکسوئی سے جامہ پہنائیے ۔ قوم کو آپ کی فراست اور کمٹمنٹ پر پورا اعتماد ہے۔ قوم نے ہمیشہ قربانیاں دی ہیں اور آئندہ بھی دیتی رہے گی تاکہ آپ ’سرخ رو‘ رہیں۔ آپ کی سرخروئی ہی دراصل ہمارے چہرے کی تمتاہٹ ہے۔

بس اتنی سی بنتی ہے کہ اگر کبھی اسے اہم سمجھیں اور وسائل بھی اجازت دیں تو ایمبولینسوں کی تعداد تھوڑی سی بڑھا دیجئے گا۔ نجی بسوں اور ویگنوں کی چھتوں پرسامان کی طرح کھلے عام لاشیں لے جانے اور زخمیوں کو دور دراز ہسپتالوں تک پہنچانے کے لئے راہ گیروں کی خوشامد کرتے اچھا نہیں لگتا۔
ہم نہیں چاہتے کہ دشمن ایسے مناظر دیکھ کر ٹھٹھول کریں اور انھیں ہماری قومی کردار کشی کے لیے استعمال کریں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہ نکالیے گا کہ خدانخواستہ کہیں ہم مرنے سے ڈرتے ہیں۔ آخر 18 کروڑ اور کس کام کے لیے ہیں؟

وسعت اللہ خان
تجزیہ کار

Post a Comment

0 Comments