All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

بھارت ، جہاں ہر روز 46 کسان خودکشی کرتے ہیں

بھارتی ریاست مہاراشٹر سے تعلق رکھنے والا 42 سالہ کسان دتاترے گھدواج
چیخا کہ آسمان نے اسے دھوکہ دیدیا اور پھر اگلے ہی روز اس نے اپنے انگور کے باغ میں زہریلی دوائی  پی کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ اس نے  بنک سے ساڑھے 27 لاکھ روپوں کا قرضہ لے رکھا تھا، قرض لیتے ہوئے وہ انگوروں کی بہترین فصل کے خواب دیکھ رہا تھا لیکن پھر اس کے خواب بکھر گئے، وہ قرض کی ادائیگی نہ کرپایا تو بنک والوں نے اسے نوٹس پہ نوٹس بھیجنا شروع کردیا، وہ ایک طویل عرصہ تک اس امید پر جدوجہد کرتا رہا کہ انگوروں کی فصل اچھی ہوجائے اور وہ قرض لوٹا دے  تاہم مسلسل بارشوں  اور طوفانوں نے اس کی ساری فصل تباہ کردی۔

گھدواج  شدید معاشی اور نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوا، یہ فصل ہی اس کی واحد امید تھی تاہم طوفانوں نے اسے کہیں کا نہ چھوڑا ۔ جب وہ اپنے انگوروں کے باغ میں مردہ پڑا ملا تو اس کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی۔ اس کے گھر والے کہتے ہیں کہ نریندرمودی حکومت نے  ایک لاکھ روپے کی امداد کا محض ایک وعدہ کیا تھا اور بس!  اگر یہ رقم مل بھی جائے تو اس سے گھر کے بلوں کی ادائیگی  بھی نہیں ہو سکتی۔ گھدواج کی بیوہ کہتی ہے کہ اب کون میری بیٹی سے شادی کرے گا؟  نوجوان کسی ایسے گھرانے میں شادی نہیں کرتے جو  بنکوں یا مقامی سود خوروں کا مقروض ہو،  وہ جانتے ہیں کہ اس گھرانے سے جہیز نہیں ملے گا جبکہ  لڑکی والے بھی کسی ایسے گھرانے میں  بیٹی کی شادی نہیں کرتے جو ان کا قرض ادا کرنے میں معاونت نہ کرے۔ گھدواج کی بیوہ کہتی ہے کہ بنک والے قرض ادا نہ کرنے کے سبب ہماری  زرعی زمین، مویشی اور یہ گھر  نیلام کردیں گے۔
مودی حکومت ہماری مدد نہیں کر رہی حالانکہ وہ چاہے تو ہمیں قرضوں کے چنگل سے نجات دلا سکتی ہے۔ کوئی وقت تھا کہ بھارتی ریاست مہاراشٹر کا علاقہ ودربھ کپاس کی کاشت یا ’سفید سونے‘ کی پیداوار کے حوالے سے خوب معروف تھا تا ہم آج یہ بھارت کے ان علاقوں میں شامل ہے جہاں سب سے زیادہ خودکشیاں ہورہی ہیں۔ ودربھ جین اندولن سمیتی،  ایک غیرسرکاری تنظیم جو گزشتہ پندرہ برس سے خودکشیوں کے واقعات پر نظر رکھے ہوئے ہے، کے مطابق ودربھ کے چھ اضلاع  امروتی، یاوتمل ، وردھ ، وشم، اکول اور بلدھن میں سن 2012ء سے اب تک 6000 کسان خودکشی کرچکے ہیں۔ قریبی علاقے  ماراٹھود میں  بھی صورت حال ایسی ہی ہے۔ محض 10ہزار روپے کا قرض بھی کسان کو زندگی ختم کرنے پر مجبور کر دیتا ہے، پھر اس کے بیوی بچے حالات کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں اور نہایت بری زندگی گزارنے لگتے ہیں۔

ایک جائزہ کے مطابق خودکشی کرنے والوں میں 18 سے 30 برس تک کی عمر کے نوجوانوں کی تعداد بھی غیرمعمولی حد تک  زیادہ ہے۔ غریب کسان سود خوروں سے انتہائی مہنگی شرح پر سودی قرضہ  لیتے ہیں لیکن پھر  واپس نہیں کر پاتے۔ وہ سودخوروں کے چُنگل میں اس قدر بری طرح پھنس جاتے ہیں کہ خودکشی ہی کو نجات کا واحد راستہ سمجھتے ہیں۔ ستم بالائے ستم کہ ان کے مرنے کے بعد خاندان کی قرض واپس کرنے پر ہی جان چھوٹ سکتی ہے، یوں خودکشی کرنے والے اپنے بیوی بچوں کو مزید مشکل زندگی میں پھنسا کرچلے جاتے ہیں، ان کی بیوائیں مزید قرض لینے پر مجبور ہوتی ہیں اور ظلم و استحصال کا یہ سفرجاری رہتا ہے۔

نریندر مودی کے ’’شائننگ انڈیا‘‘ میں گزشتہ 20برسوں سے قریباً 3 لاکھ کسان اپنی زندگیاں ختم کرچکے ہیں ۔ صرف ایک ریاست مہاراشٹر میں خودکشی کرنے والوں کی تعداد 60 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ بحیثیت مجموعی ملک میں ہر روز 46 کسان خودکشی کرتے ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں زراعت ہی روزگار کا سب سے بڑا سیکٹر ہے، ملکی جی ڈی پی میں اس کا حصہ 13.7 فیصد ہے، زراعت کے اندر سرمایہ کاری سب سے بڑا جوا ثابت ہورہا ہے۔ یہاں زیادہ تر کسان  بیج اور کھاد خریدنے، اجرت کی ادائیگی اور آب پاشی کا سازوسامان لینے کے لئے  بنک سے قرض لیتے ہیں۔

مقامی سودخور بھی ان کسانوں کی مجبوریوں کا خوب فائدہ اٹھاتے ہیں، ان کا سود سال بہ سال بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ یہ کسانوں کے لئے جال بُنتے ہیں اور پھر انھیں  اپنے دام میں پھنسا لیتے ہیں۔ کسان صرف اس امید پر قرض لیتا ہے کہ فصل اچھی ہوگی تو  قرض لوٹا دے گا تاہم طویل خشک سالی، کم پیداوار یا پھر غیر موسمی بارشیں اس کی سب امیدوں  پر پانی پھیر دیتی ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 52 فیصد کسان مقروض ہیں۔ اس ضمن میں یہاں  روزانہ 2035 کسان زراعت کا پیشہ چھوڑ کر کسی دوسرے شعبے کی طرف منتقل ہورہے ہیں۔ مجموعی طور پر 76فیصد کسان کوئی دوسرا پیشہ  اختیار کرنے کا سوچ رہے ہیں۔

لوگوں کا خیال ہے کہ زراعت اب منافع بخش شعبہ نہیں رہی۔ بھارت کی اپوزیشن پارٹیوں کا کہناہے کہ  کسانوں کو خودکشیوں کی روک تھام حکمرانوں کے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں ہے۔ وہ ابھی تک یہی سمجھ نہیں پا رہی کہ  کسان کیوں خودکشی پر مجبور ہیں، اس کے ٹاسک فورسز قائم کی جارہی ہیں، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ مودی حکومت کے اکانومک گروتھ ماڈل   میں  دیہاتی علاقوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ بھارتی کسان مودی حکومت کے بنائے ہوئے ایک قانون سے بھی سخت پریشان ہیں، اس کے مطابق حکومت کارپوریٹ سیکٹر کے لئے عام کسان کی زمین زبردستی حاصل کرسکے گی۔ ایسے میں یہاں کا کسان کیسے زراعت سے مزید جڑے رہنے کا سوچ سکتاہے، وہ  تن تنہا کھڑا ہے، مودی سرکار اسے کچھ دینے کے بجائے  اس کا سب کچھ ہتھیانے کے چکر میں ہے۔ یادرہے کہ بھارت دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اس قدر بڑی تعداد میں کسان خودکشیاں کررہے ہیں۔ آپ کو تحقیق کے نتیجے میں ایسا کوئی دوسرا ملک نہیں ملے گا جہاں کسانوں کو ایسے انجام سے دوچار ہونا پڑے۔

عبید اللہ عابد

Post a Comment

0 Comments