All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

منوڑہ : کراچی کا پُرامن ترین علاقہ

سمندروں میں بحری جہازوں کی رہنمائی کے لیے کئی ایک طریقے استعمال کیے جاتے ہیں، جن میں سے کئی طریقے تو صدیوں سے رائج ہیں، ان طریقوں میں سے ایک طریقہ روشنی کے ذریعے بحری جہازوں کی رہنمائی کا بھی ہے۔ اہم سمندری راستوں اور بندرگاہوں پر ’’لائٹ ہاؤسز‘‘ کی تعمیر کا سلسلہ بھی بہت پرانا ہے، جہاں سے نکلنے والی روشنی کی شعاعوں سے بحری جہاز کو اپنے راستے پر چلنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔ ’’لائٹ ہاؤسز‘‘ کی تعمیر کا مقصد بحری جہازوں کو راستے کی رکاوٹوں سے آگاہ کرنا بھی ہوتا ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ کراچی میں ہر وقت بحری جہازوں کی آمدروفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے، جن کی رہنمائی کے لیے منوڑہ میں ایک بہت بڑا لائٹ ہاؤس موجود ہے۔
یوں تو کراچی کو بندرگاہ کے طور پر اٹھارویں صدی میں ہی استعمال کرنا شروع کر دیا گیا تھا، لیکن تب یہاں آنے جانے والوں کو بے تحاشا مشکلات کا سامان کرنا پڑتا تھا آج کی کراچی کی بندرگاہ کی ابتدائی تعمیر کا سہرا ایک انگریز انجینئر جیمز واکر کے سر ہے۔ 1889ء میں منوڑہ میں بحری جہازوں کی رہنمائی کے لیے لائٹ ہاؤس بھی تعمیر کر دیا گیا اور جب 1909ء میں اس لائٹ ہاؤس کو نئی روشنیوں سے آراستہ کیا گیا، تو اسے دنیا کے سب سے طاقتور لائٹ ہائوس ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوگیا ۔اس وقت تک کراچی، برصغیر کی تین سب سے زیادہ معروف بندرگاہوں سے ایک تھی۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر پہلی جنگ عظیم کے دوران اس کے اردگرد کچھ معرکوں سے لائٹ ہاؤس کو بہت نقصان پہنچا، جس کی بعد میں مرمت کی گئی۔ پتھروں سے تعمیر کردہ یہ لائٹ ہاؤس طاقتور لینرز سے لیس ہے، جن کے ذریعے نکلنے والی شعاعیں 14 لاکھ موم بیتوں کی روشنی کے برابر ہوتی ہیں۔ اس کے کام کرنے کا طریقہ بہت آسان ہے اور اس کی دیکھ بھال بھی مشکل نہیں۔

یہ لائٹ ہاؤس بہت جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہے اور یہاں جدید آلات نصب ہیں۔ یہاں 1871ء میں بہت سے خوبصورت گھر بھی تعمیر کیے گئے تھے،جن میں بیشتر اس وقت بہت بری حالت میں ہیں۔ ان کی کھڑکیاں اور دروازے ٹوٹ چکے ہیں اور ان سے میں سے بیشتر عمارتوں کے صرف ڈھانچے ہی باقی رہ گئے ہیں البتہ اب ایک کمپنی ڈی سی ہاؤس اور پائلٹ ہاؤس ان کی بحالی کا کام کر رہی ہے۔ منوڑہ میں واقع تاریخی عمارتوں کی بحالی کا کام کرنے والی کمپنی ابتدائی طور پر یہاں واقع 21 تاریخی مکانوں کی حالت بہتر بنانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ ان عمارتوں کی بحالی کے بعد انہیں یہاں آنے والے سیاحوں کے لیے ٹورسٹ ہاؤسز کے طور پر استعمال کیا جائے گا ،اس منصوبے میں کمپنی کو کراچی پورٹ ٹرسٹ کا تعاون بھی حاصل ہے۔ منوڑہ کو ایک دلکش تفریحی مقام میں تبدیل کرنے کا کام ایک مغربی خاتون ’’جسیسی برنز‘‘ کی نگرانی میں کیا جائے گا، جو خود بھی ایک نیول آفیسر کی بیٹی ہیں۔ منوڑہ سے برنز کی کچھ دلکش یادیں وابستہ ہیں۔

بہت عرصہ پہلے وہ منوڑہ رچکی ہیں۔ ایک طویل عرصے کے بعد جب انہیں دوبارہ منوڑہ جانے کا موقعہ ملا تو انہیں یہ دیکھ کر بہت حیرانی ہوئی کہ منوڑہ کا نقشہ ہی بدل چکا تھا اور وہ عمارتیں جو کبھی اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں ،اب ان میں سے بیشتر کھنڈرات کا ڈھیر بن چکی ہیں۔ برنز نے بہت سوچ بچار کے بعد یہاں کی تاریخی عمارتوں کی بحالی کے کام کا بیڑا اٹھایا اور اب وہ اس کام میں مصروف ہیں۔ برنز کا خیال ہے کہ ایسے تاریخی پس منظر کی وجہ سے یہ مقام بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ اس کام میں برنز کو کراچی پورٹ ٹرسٹ، پاکستان نیوی اور کئی دوسرے پاکستانی اداروں کے علاوہ غیر ملکی اداروں کا تعاون بھی حاصل ہے۔

شیخ نوید اسلم

 (بحوالہ ’’پاکستان کی سیر گاہیں‘‘ ) 

Post a Comment

0 Comments