All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

بصیر پور: ضلع اوکاڑہ اور تحصیل دیپالپور کا قصبہ

ضلع اوکاڑہ اور تحصیل دیپالپور کا قصبہ جو دیپالپور سے ۲۳ کلومیٹر دور لاہور
پاکپتن ریلوے سیکشن پر واقع ہے۔ روایت کے مطابق اسے سکھوں کے بصیر نامی شخص نے آباد کیا تھا، جو چھچھرقوم سے تعلق رکھتا تھا۔ اس قوم میں مُلّا فرید مسلمان ہوئے تھے۔ ان کا مزار آج بھی بصیر پور میں ہے۔ زمانہ قدیم میں یہاں ایک قلعہ بھی تھا۔ اس قلعہ کے چار گنبد اب بھی موجود ہیں اور یہاں زیادہ تر مہاجرین قابض ہیں۔ ماضی میں یہ علاقہ سیّدوں کے زیر اثر تھا۔ جب پنجاب میں طوائف الملوکی پھیلی اور سکھوں نے مختلف علاقوں کی طرف کارروائیاں شروع کیں، تو بصیر پور کا علاقہ بیدی صاحب سنگھ کی جاگیر میں آگیا۔ اس کی وفات کے بعد اس کا بیٹا بشن سنگھ اور پھر اس کا بیٹا عطر سنگھ جانشین بنا۔ مہاراجہ دلیپ سنگھ کے دور میں عطر سنگھ کے بیٹوں بابا سمپورن سنگھ اور کھیم سنگھ نے قبولہ اور بصیر پور کے بہت سے دیہات باہم بانٹ لیے تھے۔
ان کی یہ جاگیر انگریزوں کے پنجاب پر قبضہ تک برقرار رہی۔ اس وقت تک یہ تعلقہ قبولہ میں شامل رہا۔ ابتداء میں یہ قصبہ نوٹیفائیڈ ایریا تھا، پھر اسے ٹائون کمیٹی اور بعدازاں میونسپل کمیٹی کا درجہ حاصل ہوا۔ ۲۰۰۱ء میں نئے بلدیاتی نظام کے تحت اسے دو یونین کونسلوں میں تقسیم کیا گیا۔ یہاں صحت و تعلیم کی سہولتیں عام دستیاب ہیں۔ دو سرکاری ہسپتالوں کے علاوہ پانچ پرائیویٹ ہسپتال بھی موجود ہیں جبکہ طلباو طالبات کے د و علیحد ہ علیحدہ ڈگری کالجز، ہائی سکول اور متعدد سرکاری و غیر سرکاری مڈل اور پرائمری سکول بھی موجود ہیں۔ دفتر بلدیہ، دفتر زراعت، تھانہ اور تمام اہم بنکوں کی شاخیں بھی موجود ہیں۔ غلہ منڈی بھی موجود ہے، جہاں تمام اہم اجناس کا کاروبار ہوتا ہے۔ آلو، گندم، چاول، گنا اور مکئی علاقے کی اہم فصلیں ہیں جبکہ ڈیری پھلوں کی پیداوار میں بھی یہ علاقہ اہمیت رکھتا ہے۔ بصیر پور میں دینی تعلیم کے اہم مدرسے بھی موجود ہیں جن میں دارالعلوم حنفیہ فریدیہ، منظور اسلامک اکیڈمی اور دارالعلوم جامعہ فرید یہ نظامیہ قابلِ ذکر ہیں۔ جبکہ بابا فریدچشتی، خواجہ محمداکبر اور محمد نور اللہ نعیمی محدث اور صوفی بزرگ حامد سچیار کے مزارات بھی ہیں جن کے سالانہ عرس میلے بھی منعقد ہوتے ہیں۔ 

ان میں سے محمد نو ر اللہ نعیمی محدث بصیر پوری ۱۰جون ۱۹۱۴ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد مولانا ابوالنور محمد صدیق اور مولانا احمد دین سے حاصل کی، پھر علامہ فتح محمد بہاولنگری، مولانا سعید محمد دیدار علی شاہ اور علامہ ابو البرکات سیّد احمد قادری سے فیض حاصل کیا۔ مولانا سیّد محمد نعیم الدین مراد آبادی سے بیعت کی۔ تعلیم الکتابتہ النسا اور الادب المفرد کے عنوان سے اصلاحی رسالے لکھے۔ ۱۹۸۳ء میں وفات پائی۔ آپ کا مزار بصیر پور میں مرجع خلائق ہے۔ جہاں ہر سال ۲۷۔۲۸ جون کو ان کا عُرس ہوتا ہے۔ یہاں زیادہ تر چھچھر، ارائیں، راجپوت، وٹو اور پٹھان قبیلوں کے لوگ آباد ہیں۔ ہندوئوں اور سکھوں کی چھوڑی ہوئی عمارتوں گوردوارہ اور مندر کے آثارابھی تک موجود ہیں۔ غوث پورہ، محلہ درس، ابراہیم چک، محلہ پٹرول پمپ، محلہ افشیں، محلہ غلہ منڈی، نئی آبادی، محلہ ریلوے سٹیشن، گلی پروکیاں والی، محلہ کھتاناں والا، محلہ مراماں اور اکیڈمی محلہ وغیرہ یہاں کی رہائشی بستیاں اور مین بازار، غلہ منڈی، سبزی منڈی، حویلی روڈ، منڈی احمد آباد روڈ، ریلوے روڈ اور صرافہ بازار اہم تجارتی مراکز ہیں۔ یہاں دو کاٹن فیکٹریاں بھی ہیں۔ 

کھانے پینے میں یہاں شفیع حلوائی کی برفی مشہور ہے جبکہ دستکاری میں پُرانی اون کی جرسیاں یہاں عام تیار ہوتی ہیں۔ سیّد، چاچڑ، راجپوت، ارائیں، وٹو، پٹھان، مرزا وغیرہ قوموں کے افراد یہاں آباد ہیں۔ ادبی اعتبار سے یہاں کے شعراء رفیق نسیم، قمر آفتاب قمر، اظہر جلیل اور تنویر عباس حیدری قابلِ ذکر ہیں۔ معروف ادیب امجد علی شاکر کا تعلق بھی بصیرپور سے ہے۔ ان کی کتب اُردو کتب، ابوالکلام معاصرین کی نظر میں، اقبالیات، کھوٹے سِکّے کھری باتیں اور دستک نہ دو شائع ہوئیں۔ ماضی میں مولانا نور اللہ نعیمی بصیرپوری یہاں کے معروف عالم دین اور شاعر تھے۔ آپ ۱۹۱۴ء میں پیدا ہوئے اور ۱۹۸۳ء میں وفات پائی۔ فتاویٰ نوریہ (۶ جلدیں) حدیث الحبیب، نغمائے بخشش (نعت) اور نور نعیمی آپ کی تصانیف ہیں۔ بصیر پو رکی آبادی ۱۹۸۱ء میں ۲۴۰۳۲ اور ۱۹۹۸ء کی مردم شماری کے مطابق ۳۶۶۲۸افراد پرمشتمل تھی۔ اب اس کی آبادی ۵۰ ہزار کے لگ بھگ ہے۔

اسد سلیم شیخ
(کتاب ’’نگر نگر پنجاب:شہروں اور قصبات کا جغرافیائی، تاریخی، ثقافتی اور ادبی انسائیکلوپیڈیا‘‘ سے مقتبس)



Post a Comment

0 Comments