All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

پاکستان کی مشہور بندرگاہیں

سون میانی
یہ بندرگاہ ضلع لسبیلہ کے ساحل پر واقع ہے، جو کراچی سے بذریعہ خشکی 45 میل کے فاصلے پر ہے۔ انگریزوں سے پہلے پورے وسط ایشیاء میں اس کا شہرہ تھا۔ یہاں سے بڑی بڑی بادبانی کشتیاں جن کو بلوچی میں ’’بوجھی‘‘ کہتے ہیں، ہندوستان، عرب، افریقا اور خلیج فارس کی بندرگاہوں تک جاتی آتی تھیں۔ راجہ داہر کے خلاف کارروائی کے لیے عربوں نے اسی بندرگاہ پر اپنا لشکر اتارا تھا۔ 19ویں صدی کے آغاز تک بلخ و بخارا افغانستان و ایران کا تجارتی مال کا رواں کے ذریعے اس بندرگاہ میں آتا اور یہاں سے ترکمان اور بلوچی گھوڑے بردباری اور اونٹ سبھی سونمیانی سے باہر بھیجے جاتے۔ اُن دنوں، بولان اور مولہ کے راستے غیر محفوظ خیال کیے جاتے تھے۔ 1805ء میں پرتگالی بحری قزاقوں نے یہ بندرگاہ لوٹ کر اسے آگ لگا دی۔ گل جنید نے جو کلمتی ہوت بلوچوں کا سردار اور ماہر جہاز ران تھا، ان بحری قزاقوں سے یہاں کئی لڑائیاں لڑی۔ برطانوی تسلط کے بعد اس بندرگاہ کی اہمیت ختم ہوگئی۔ انگریزوں نے کراچی کی بندرگاہ کو جدید بنیادوں پر ترقی دی اور ریل کے ذریعے اسے اندرون ملک بڑے بڑے شہروں سے ملا دیا۔ اس کے علاوہ ہندوستان کی سرحدوں کا تعین ہوا، جس سے کارواں کی آمدروفت رک گئی، جس کے نتیجے میں بندرگاہ آہستہ آہستہ اُجڑ گئی ۔آج کل سون میانی ماہی گیری کے لیے مشہور ہے۔ یہاں بڑے بحری جہاز لنگر انداز نہیں ہوسکتے کیونکہ ساحل کے نزدیک پانی کی گہرائی کم ہے۔ 
اورماڑا
یہ بندرگاہ پہلے ریاست لسبیلہ میں شامل رہی ہے، مگر آج کل مکران ڈویژن کا حصہ ہے۔ 1938ء تک برٹش انڈیا سٹیم نیو یگشین کمپنی کے جہاز ہر پندرھواڑ لے یہاں ساحل سے قریباً تین میل کے فاصلے پر لنگر انداز ہوتے تھے۔ بیرون ممالک خصوصاً سری لنکا اور جاپان سے تجارتی سامان آتا اور یہاں سے زیادہ تر خشک مچھلی اور پیش کی چٹائیاں دساور کو جاتیں ،مگر اب وہ صورتحال باقی نہیں رہی ہے۔

پسنی 
یہ بندرگاہ کراچی سے براستہ خشکی دو سو میل کے فاصلے پر ہے، پہلے یہ ماہی گیروں کی ایک چھوٹی سی بستی تھی، لیکن 1931ء میں خان قلات میر محمود خان دوم کی وفات کے بعد ان کے جانشین میر احمد یار خان کو اپنے اختیارات کا علم ہوا، تو انہوں نے بیرون ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کا آغاز کیا۔ اس مقصد کے لیے پسنی کی بندرگاہ قلات کی دوسری بندرگاہوں کے مقابلے میں زیادہ کار آمد ثابت ہوئی چنانچہ سندھ اور بلوچستان کے تاجروں جن میں اکثریت ہندوؤں کی تھی، یہاں سے تجارتی مال درآمدو برآمد کرنے کی طرف توجہ دی اور دیکھتے ہی دیکھتے ماہی گیروں کی یہ چھوٹی سی گمنام بستی وسط ایشیاء میں شہرت حاصل کر گئی۔ جاپان سے ریشمی سوتی اور اونی کپڑے اور کیوبا سے چینی بڑی مقدار میں درآمد ہونے لگی اور یہاں سے خشک مچھلی اور پیش کی چٹائیاں وغیرہ ہندوستان کی بندرگاہ اور کولمبو کو برآمد کی جانے لگی۔ اس درآمد و برآمد سے ریاست قلات کی آمدنی میں چار پانچ لاکھ روپے سالانہ کا اضافہ ہوگیا۔ اس کے علاوہ پسنی سے درآمد شدہ مال مکران، ساراوان، جھالاوان اور کچھی کے علاقوں میں راہداری اور سنگ بھی وصول کیا جانے لگا ،جس کی مجموعی آمدنی پندرہ بیس لاکھ روپے سالانہ سے کم نہ تھی۔ ان دنوں 1939ء میں پسنی کی آبادی دس ہزا ر نفوس پر مشتمل تھی، جن میں اکثریت ’’میلا‘‘ شاہی بلوچوں کی تھی۔ 

1898ء میں مکران کی بغاوت فرو کرنے کے لیے انگریزی فوج کرنل مین کے زیر کمان اس بندرگاہ میں اتری تھی۔ یہ فوج ذحانی جہاز میں کراچی سے روانہ ہو کر پسنی پہنچی اور پھر یہاں سے کوچ کر کے 30جنوری 1898ء کو کپروش کے مقام پر بلوچ مجاہدوں سے جا ٹکرائی۔ اس لڑائی میں میر بلوچ خان نو شیروانی اور کئی دوسرے نامی گرامی بلوچ شہید ہوئے۔ 1942ء میں پسنی میں ایک شدید زلزلہ آیا۔ سمندری موجوں نے تمام شہر تہہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ قیام پاکستان کے بعد ون یونٹ قائم ہوا، تو پسنی بھی دوسری بندرگاہوں کی طرح مرکزی حکومت کی تحویل میں چلی گئی۔ 

جیونی 
یہ بندرگاہ خلیج گوادر کے دائیں کنارے واقع ہے۔ دشت ندی یہاں سمندر میں گرتی ہے۔ اس کے بیس میل شمال مغرب سے ایرانی بلوچستان کی سرحد شروع ہوتی ہے۔ جیونی، بلوچستان کی موزوں ترین بندرگاہ ہے۔ اس بندرگاہ پر چودھویں صدی عیسوی تک جدگالوں کا قبضہ رہا ہے۔ اس کے شمال مغرب میں ایرانی بلوچستان کا علاقہ دشتواری ہے،جہاں جدگال قبائل آباد ہیں۔ سردار جیون خان جدگال کا صدر مقام ہونے کی مناسبت سے ان کا نام جیونی پڑگیا۔ کلمت بندر پسنی اور اورماڑا کے درمیان یہ بندرگاہ یعنی خلیج کے سرے پر واقع ہے اور ماکولہ کی شمالی پہاڑیوں کے ذریعے طوفانی ہواؤں سے محفوظ ہے۔ بڑے بڑے جہاز یہاں لنگر انداز نہیں ہوسکتے، لیکن ماہی گیر کشتیوں کے لیے ساحل بلوچستان پر یہ محفوظ ترین ٹھکانہ ہے۔ شکار کے خاص موسم، آڑنگا میں کراچی اور خلیج فارس کی دوسری بندرگاہوں سے ماہی گیر یہاں آکر کھر ماہی یعنی کاڈ کا شکار کرتے ہیں۔ کلمت بندر کے مغرب میں گزدان کی مشہور چراگاہ ہے، جہاں ایک خاص قسم کی گھاس بکثرت اُگتی ہے اور مقامی آڑنگا کے دنوں میں خشکی سے آنے والی شمالی ہوائیں اس گھاس کا بیج سمندر میں پھیلا دیتی ہیں جو کچھ مچھلیوں کی من بھاتی خوراک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مچھلیاں غول در غول سمندر کے اس حصے میں آپہنچتی ہیں اور انہیں شکار کرنے کے لیے ماہی گیروں کے جتھے ادھر اُمنڈ آتے ہیں۔ سُر بندر بلوچستان کی جنوبی پٹی پر ساحل مکران، بحیرہ عرب کے ساتھ 754 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔

گو ساحلی آبادیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کرنے کے لیے کوئی پختہ سڑک موجود نہیں ،لیکن روزانہ کی پروازوں کی بدولت ان دیہاتوں اورڈیروں کا آپس میں رابطہ قائم رہتا ہے۔ بحیرۂ عرب کا نیلگوں پانی جب گوادر، پسنی اور ارماوا کے چمکتے ریتلے ساحلوں سے ٹکراتا ہے، تو یہ منظر بے حد خوبصورت ہوتا ہے ۔ اس ساحلی پٹی پر الگ تھلگ ساحلی علاقے میلوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ علاقے اپنی خوبصورتی اور قدیم روایات کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ جب کوئی سیاح ان علاقوں میں آنکلتا ہے تو وہ ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ آوارہ پھرتے ہوئے اونٹ کھجور کے درختوں کے خوبصورت جھنڈ، چھوٹی چھوٹی ندیاں اور ٹھنڈی گدگداتی اور آلودگی سے پاک ہوا یوں محسوس ہوتا ہے کہ انسان صدیوں پہلے کی کسی الف لیلیٰ کی داستان کا حصہ ہے۔ 

اس علاقے کو قدرت کے کئی قسم کے امتزاج کی سر زمین کہا جا سکتا ہے۔ اس علاقے میں صحرا اور بنجر پہاڑ بھی ہیں اور ندی نالے بھی۔ یہاں کے لوگ بے حد جفاکش اور محنتی ہیں۔ یہاں ان کی قدیم تہذیبی روایات بے حد مشہور ہیں گوادرکی پر اسرار پہاڑیوں سے پرے کھجور کے درختوں کے جھرمٹ میں گھرا گرم چشموں کے قریب ایک غیر معمولی اور انوکھا قصبہ سربندر ہے، جو اپنی مثال آپ ہے۔ گوادر کی سڑک پندرہ میل دور رہ جاتی ہے اور قصبے تک پہنچنے کے لیے بلند و بالا پہاڑیوں کے پر پیچ اور خم کھانے والے راستے سے آنا پڑتا ہے، جو بے حد شکستہ اور خراب ہے ۔ جیپ بے حد آہستگی سے یہ خطرناک راستہ طے کرتی ہے۔ 

 شیخ نوید اسلم

(پاکستان کی سیر گاہیں سے مقتبس)
 

Post a Comment

0 Comments