All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

سعودی عرب میں پھنسے پاکستانیوں کے مصائب

چھ سالہ تصمیہ رانی کبھی اپنے بابا سے نہیں ملی، باپ ان کے لیے ویڈیو چیٹ کی سکرین پر بس ایک بولتی تصویر ہے۔ بوڑھے والدین کے واحد کفیل تصمیہ کے ابا، سعودی شہر دمام میں بہتر آمدن کی امید میں محنت کرتے ہیں مگر اس سال بیٹی کے عید کے کپڑوں کی رقم تک نہیں بھیج سکیں گے۔ وہ ان پاکستانیوں میں سے ایک ہیں جو سعودی عرب میں پھنسے ہوئے ہیں اور ان کے گھر والے مفلسی کے بھنور میں۔ تصمیہ رانی ایک ٹوٹی چارپائی پر داد کی گود میں بیٹھی فون کی سکرین کو بڑے انہماک سے دیکھ رہی ہیں۔ ’ابا آپ کب آئیں گے؟ آپ کے بغیر دل نہیں لگتا۔۔۔‘

تصمیہ کے دادا محمد بشیر کو مستقبل کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ ابھی تو وہ قرضے چکانا بھی باقی ہیں جن کو مانگ کر اپنے بیٹے کو بیرون ملک بھیجا تھا، انھوں نے کہا: ’ہم نے تو سوچا تھا باہر جائے گا اس کی اور ہماری زندگی بہتر ہو جائے گی، اب بڑھاپے میں اس کی بچی بھی پال رہے ہیں اور وہ وہاں جانے کس حال میں ہے، ہمیں نہیں پتہ تھا کہ اسے بھیج کر ہماری زندگی پہلے سے بھی زیادہ دشوار ہو جائے گی۔‘ سعودی عرب میں اقتصادی کساد بازاری کی وجہ سے بیشتر تعمیری پراجیکٹ منسوخ کیے جا رہے ہیں جس کی سب سے بڑی قیمت تارکین وطن محنت کش افراد چکا رہے ہیں جن میں ہزاروں پاکستانی شامل ہیں جنھیں ایک سال سے اجرتیں نہیں ملیں۔ سعودی نظام کے تحت کئی محنت کش نہ تو کوئی دوسرا روزگار ڈھونڈ سکتے ہیں اور مہینوں کی غیر ادا شدہ امدن کے بغیر وہ کس منہ سے وطن واپس لوٹیں؟
مہینوں کی ابتر صورتحال کے بعد جب میڈیا میں یہ بات سامنے آئی تو حکومتِ پاکستان نے ان لوگوں کے لیے مالی معاونت کا اعلان کیا جو سعودی عرب میں پاکستانی سفیر کے مطابق دو سو ریال فی کس فی مہینہ مقرر کی گئی۔ یہ کتنے لوگوں کو ادا کی گئی اس کے لیے کیا معیار مقرر ہے اس بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ اس حوالے سے پاکستان دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ سعودی حکومت سے بات چیت چل رہی ہے اور سعودی انتظامیہ ان محنت کشوں کو ان کے معاملات کے حل کے لیے ہر ممکن سہولیات فراہم کر رہی ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے کہا:

’میں نہیں جانتا آپ کیا توقع کرتے ہیں کہ ایک ملک کس حد تک جائے ان لوگوں کی سہولت کے لیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک بہت مشکل صورتحال ہے اور اس میں کوئی شک نہیں، لیکن اگر وہ لوگ وہاں پر رہ رہے ہیں تو اپنی مرضی سے، ان پر کوئی مجبوری نہیں۔‘ مگر سوال یہ ہے کہ سال کے بعد بھی اس بات چیت کا نتیجہ کیا ہے؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ بی بی سی اردو کے قارئین کی دوسری بڑی تعداد جغرافیائی لحاظ سے سعودی عرب میں رہتی ہے جس کا ایک بڑا حصہ پاکستانی محنت کش اور کام کے لیے گئے کارکن ہیں تو یہ بات عجیب نہیں لگے گی کہ ہمارے قارئین نے اس جانب ہماری توجہ مبذول کرانا شروع کی۔
جب اس بارے میں ہم نے اپنے قارئین سے پوچھا تو ہمیں سینکڑوں پیغامات اور درجنوں ویڈیوز اور تصاویر موصول ہوئیں۔

ان میں جو صورتحال نظر آتی ہے اس کے بارے میں سعودی عرب میں مقیم ایک پاکستانی نے لکھا کہ ’ایسے تو جانوروں کو بھی نہیں رکھا جاتا جیسے ہم رہ رہے ہیں۔‘ ہم سے رابطہ کرنے والے ہر پاکستانی نے سعودی عرب میں سفارت خانے کے سلوک کا ذکر کیا اور سفارت خانے کے باہر جمع ہجوم کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر بہت شیئر کی گئیں۔ جن لوگوں کو سال بھر کی اجرت نہیں ملی وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ اگر ایک دو مہینے کی اجرت کا معاملہ ہو تو ہم چھوڑ بھی دیں، یہاں تو تنخواہیں بھی ہیں اور پینشن اور دوسرے مالی مسائل بھی اور حکومت اور پاکستانی سفارت خانہ ہمیں صرف تسلیاں دے رہا ہےـ

بی بی سی اردو نےایسے ہی ایک پاکستانی محنت کش سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے رابطہ کیا تاکہ وہاں کے حالات جان سکے۔ جدہ میں ایک کنسٹرکشن کمپنی کے ملازم محمد عمران فاروق نے بتایا کہ ان کی کمپنی میں کام کرنے والے درجنوں محنت کشوں کی نوبت فاقوں تک آنے کو ہے، طبی انشورنس ختم ہو چکی ہے اور لوگ ذہنی اور جسمانی طور پر بیمار پڑ رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ کمپنی نے اب بجلی کے کنکشن بھی کاٹ دیے ہیں اور اقامہ یعنی کام کرنے کے پرمٹ ایکسپائر ہونے کی وجہ سے سعودی پولیس ملازمین کو جیل میں بند کر رہی ہے۔ انھوں نے کہا: ’ہم یہاں اپنے بچوں کے لیے آئیں ہیں، ان بچوں کے لیے جن کی شکل کئی سال سے نہیں دیکھی، ہمارے سفارت کار کہتے ہیں اسلام آباد سے درخواست لے کر آؤ تب ہی کچھ ہو سکتا ہے، یہ جگہ ہمارے لیے قید خانہ بن کر رہ گئی ہے۔‘

ان کے علاوہ درجنوں افراد نے ہمیں بتایا کہ حکومت صرف بڑی کمپنیوں کے ملازمین پر توجہ دے رہی ہے لیکن ہزاروں پاکستانی چھوٹی کمپنیوں میں بے یار و مددگار موجود ہیں۔ ہر سال لاکھوں پاکستانی محنت کش ملک میں محدود معاشی مواقعے کی وجہ سے اپنوں سے دور بہتر متسقبل کے خواب لیے دیار غیر کا سفر کرتے ہیں۔ یہ مزدور نہ صرف اپنے اہل خانہ کی قسمت بدلتے ہیں بلکہ ملک کے لیے اربوں ڈالرز زر مبادلہ کی شکل میں بجھواتے ہیں جو پاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب تک سعودی حکومت ان کمپنیوں کے معاملات کو حل نہیں کرتی یا ان محنت کشوں کے مسائل کے بارے میں ٹھوس پالیسی نہیں بناتی، خدشہ ہے کہ کسمپرسی پاکستان میں ان محنت کشوں کے گھروں کو تباہ نہ کر دے۔ سوال یہ ہے کہ اب یہ بے یارومددگار پاکستانی کس سے مدد مانگیں؟ اپنے وطن سے یا پھر اس ملک سے جس کی تعمیر اور ترقی میں ان کا خون پسینہ شامل ہے؟

صبا اعتزاز، طاہر عمران
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور

Post a Comment

0 Comments