All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

ایم اے کر لیا ، اب میٹرک بھی کر لو : وسعت اللہ خان

گذشتہ کالم میں یہ رونا رویا گیا کہ عالمی تعلیمی ریڈار پر پاکستان کی پسماندگی کس شاندار طریقے سے چمک رہی ہے اور بلوچستان کے تعلیمی بلیک ہول میں اربوں روپے جھونکنے کے باوجود سو میں سے ستر بچے جنھیں اسکول میں ہونا چاہیے اسکول سے باہر ہیں۔ مگر بلوچستان سے متصل صوبہ سندھ تو غریب یا نیم گنجان صوبہ نہیں۔ یہاں سرکاری کاغذات کو دیکھا جائے تو تھر جیسا پسماندہ ضلع بھی آ کسفورڈ اور کیمبرج کو مات کر رہا ہے۔ یقین نہیں آتا تو مارچ دو ہزار تیرہ میں بی بی سی کی ویب سائٹ پر شایع ہونے والی نامہ نگار ریاض سہیل کی رپورٹ پڑھ لیجیے۔ اس کے مطابق صوبائی محکمہ تعلیم کے ریکارڈ میں تھر کے ایک گاؤں واہوی دھورا میں لڑکوں اور لڑکیوں کے کل ملا کے تریسٹھ اسکول ہیں۔ نامہ نگار نے واہوی دھورا میں ایک کمرے پر مشتمل بند اسکول سے متصل گھر کے بچے سے پوچھا کہ اسکول بند کیوں ہے تو اس بچے نے جواب دیا کہ کون سا اسکول ؟ وہ تو ساتھ والے گاؤں کے اسکول میں پڑھنے جاتا ہے۔

اگر محکمہ فروغ جہالت کے دعوؤں کو ایک جانب رکھ دیا جائے تو درحقیقت سندھ جو وفاق پاکستان کی آدھی آمدنی اور مالیاتی وسائل فراہم کرتا ہے وہاں ملکی و بین الاقوامی اداروں کے سروے کے سبب تصویر یوں ہے کہ معیارِ تعلیم کے اعتبار سے سندھ سے نیچے صرف فاٹا اور بلوچستان ہیں۔ جس سندھ دھرتی کے تحفظ کے لیے ہر کوئی کٹ مرنے اور خون کا آخری قطرہ بہانے کو تیار ہے ( پہلا قطرہ بہانے کو کوئی تیار نہیں ) اسی سندھ دھرتی کے چھپن فیصد بچے پرائمری اسکول جاتے ہی نہیں اور جو جاتے ہیں ان میں سے بھی صرف آدھے پانچویں جماعت تک پہنچ پاتے ہیں اور ان بچوں کو کیا پڑھایا جاتا ہے؟ اس بارے میں الف اعلان اور ایس ڈی پی آئی کی رپورٹ کے مطابق پرائمری کے چھہتر فیصد بچے انگریزی کا ایک جملہ نہیں لکھ سکتے۔ پچپن فیصد بچے اردو کی کوئی ایک مختصر سی نصابی کہانی بھی پوری نہیں پڑھ سکتے۔ پینسٹھ فیصد بچے یہ نہیں بتا سکتے کہ دو جمع دو کتنے ہوتے ہیں یا دو میں سے دو نکالو تو کتنے بچتے ہیں۔
کہنے کو سندھ میں چھیالیس ہزار سے زائد پرائمری اسکولوں میں ایک لاکھ چوالیس ہزار اساتذہ نئی نسل کو ’’ تے لیم ’’ دینے پر مامور ہیں۔ ان میں سے ساڑھے انیس ہزار اسکول ایک استاد کے بل پر چل رہے ہیں۔ سو میں سے ستائیس اسکولوں میں چار بنیادی سہولتیں یعنی چار دیواری ، پینے کا صاف پانی، بجلی اور بیت الخلا میسر ہے۔ سو میں سے ستتر اسکول لڑکوں کے لیے اور تئیس لڑکیوں کے لیے ہیں حالانکہ لڑکے اور لڑکیوں کی آبادی آدھوں آدھ ہے۔ تعلیمی ترقی کے لیے اپنے اپنے اضلاع میں سیاستدانوں کی کوششوں کے اعتبار سے الف اعلان کی ضلع وار فہرست پر نگاہ دوڑائی جائے تو سات بار اسمبلی کے لیے منتخب ہونے اور تین بار وزیرِ اعلی رہنے کے باوجود سائیں قائم علی شاہ کا آبائی ضلع خیرپور تعلیمی ترقی کے اعتبار سے پاکستان کے ایک سو بیس اضلاع میں سے اکہترویں نمبر پر ہے۔ جہاں تک بھوت اسکولوں کا معاملہ ہے تو آج کا تو معلوم نہیں البتہ دو ہزار چودہ تک سب سے زیادہ بھوت اسکول آصف زرداری کے آبائی ضلع نواب شاہ عرف بے نظیر آباد میں پائے جاتے تھے کہ جن کے اساتذہ صرف پہلی تاریخ کو اپنی تنخواہ کا حال معلوم کرنے کے لیے نمودار ہوتے تھے۔ 

اگر کوئی پالیسی واقعی کامیاب ہوئی ہے تو وہ یہ ہے کہ جسے کچھ نہیں آتا یا جو کسی کام کا نہیں اسے پرائمری ٹیچر بنا دو۔ اس پالیسی کے نتیجے میں جو واقعی دل و جان سے ٹیچر ہیں وہ مایوسی و ڈپریشن کی کلاس میں داخلہ لے چکے ہیں۔
مگر سارا قصور صرف حکومت یا ’’ محکمہ تے لیم ’’ کا نہیں۔ اگر تھر کی مثال لے لیں جہاں کے ایک گاؤں واہوی دھورا میں تریسٹھ اسکول پائے جانے کا عالمی ریکارڈ موجود ہے۔ اسی تھر اور پھر دیگر اضلاع کے لوگوں نے جب سرکاری بازی گری دیکھی تو اپنی سادہ لوحی ترک کرکے خود بھی چمتکاری ہوگئے۔ کئی جگہ ایسا بھی ہوا کہ محکمہ تعلیم کو خبر تک نہیں اور مقامی ایم پی اے یا ایم این اے نے سیاسی رشوت کے طور پر لوگوں کی واہ واہ سمیٹنے کے لیے اپنے ترقیاتی فنڈ سے ایک بلڈنگ بنوا کر اسے اسکول کا نام دے دیا اور پھر اس اسکول کو چلانے کی ٹوپی محکمہ تعلیم کو پہنا دی۔

ورلڈ فوڈ پروگرام نے انتہائی پسماندہ اضلاع میں جب بچوں کا انرولمنٹ بڑھانے کے لیے پرائمری کے بچوں کو گندم اور خوردنی تیل کا راشن دینا شروع کیا تو اسکول والوں نے زیادہ سے زیادہ راشن ہتھیانے کے لیے بچوں کا جعلی انرولمنٹ شروع کردیا۔ کئی جگہ یہ بھی ہوا کہ گاؤں والوں نے محکمہ تعلیم کو یقین دلایا کہ اگر ہمیں ایک عمارت بنا دو تو استاد کی تنخواہ ہم اپنے پلے سے دیا کریں گے مگر تعلیمی اوطاق بننے کے چند ماہ بعد گاؤں والوں کو بھی اپنا وعدہ بھول گیا ، ٹیچر نے بھی کہیں اور نوکری پکڑ لی اور خالی اوطاق تین پتی کا جوا کھیلنے یا چرس نوشی کے لیے استعمال ہونے لگا۔

کئی جگہ یہ بھی ہوا کہ اسکول کا انتظام تسلی بخش نہ ہونے پر محکمہ تعلیم نے اسکول کی دیکھ بھال کے لیے مقامی معززین پر مشتمل ایک مینجمنٹ کمیٹی بنا دی اور اسکول کی معمولی مرمت و بنیادی دیکھ بھال اور صفائی کے لیے بیس ہزار روپے سالانہ کا بجٹ بھی مینجمنٹ کمیٹی کے حوالے کر دیا۔ جب یہ بجٹ آپس میں بٹ بٹا گیا تو مینجمنٹ کمیٹی بھی فوت ہوگئی مگر اسی ماحول میں کچھ انفرادی دیوانے اور مقامی این جی اوز اپنے اپنے طور پر بچوں کو تعلیم دینے کے لیے ہمت ہارے بغیر کوشاں ہیں تاہم مجموعی حالت یہ ہے کہ جس کے پاس فیس کے پیسے ہیں اس کا بچہ تو کسی قدرے بہتر جگہ پڑھنے چلا گیا اور جو کنگلا ہے اس کی اگلی نسلوں کے لیے نظام تعلیم کے سرکاری ڈھانچے نے بھی کنگلائی برقرار رکھنے کا تسلی بخش انتظام کر رکھا ہے۔

یہ محض سندھ کے دیہی علاقوں کی کہانی نہیں۔ شہری علاقوں کا حال دیکھنا ہو تو کراچی دیکھ لیں۔ گذشتہ دور میں کئی سرکاری اسکول لینڈ مافیا اور چائنا کٹنگ کی نذر ہو گئے۔ بہت سال ہوئے جب سنا گیا ہو کہ فلاں علاقے میں حکومت ایک نیا اسکول کھول رہی ہے جس میں تمام بنیادی سہولتیں اور تربیت یافتہ عملہ ہو گا البتہ ایسی بلڈنگیں ضرور ملیں گی جن میں تین تین سرکاری اسکول ٹھنسے ہوئے ہوں گے یعنی ان اسکولوں کے اساتذہ اور انتظامیہ نے اپنی مرضی سے لمبے فاصلوں پر قائم اسکولوں کو ایک ہی بلڈنگ میں طلب کر لیا۔ جیسے کراچی کی ساحلی پٹی پر واقع مبارک ولیج اور ہاکس بے کا ایک اسکول دراصل پندرہ سے بیس کلو میٹر کے فاصلے پر ماری پور میں شفٹ کر دیا گیا یعنی اسکول کمیونٹی کے قریب لانے کے بجائے کمیونٹی کو اسکول کا تعاقب کرنے پر لگا دیا گیا۔
پنجاب اور خیبرپختونخوا میں حالات قدرے غنیمت ہیں۔ خیبرپختونخوا میں اگرچہ لگ بھگ ساڑھے پانچ ہزار اسکول ایک کمرے اور ایک استاد پر مشتمل ہیں لیکن صوبائی حکومت نے ان کی انسپکشن کے لیے عملے کو اسمارٹ فونز فراہم کرنے کی اسکیم وضع کی ہے تاکہ وہ موقع پر تصویر کھینچ سکیں کہ استاد ہے یا نہیں۔ ہے تو کیا کر رہا ہے اور بچے پڑھ رہے ہیں کہ نہیں۔ پنجاب میں سرکار کا دعویٰ ہے کہ اسی فیصد پرائمری اسکولوں کو چار بنیادی سہولتیں یعنی چار دیواری، صاف پانی، بجلی اور بیت الخلا کی سہولتیں فراہم کی جاچکی ہیں۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی صوبائی حکومت تعلیم اور صحت جیسے غیرسیاسی بے ضرر شعبوں میں گڈگورننس کا اصول لاگو کرنا چاہے تو اسے کس نے روک رکھا ہے؟ فوج نے؟ آئی ایس آئی نے؟ را نے؟ امریکا نے؟ پنجابی سامراج نے یا پھر بے حس بدنیتی نے؟ سندھ کے سابق وزیرِ تعلیم پیر مظہر الحق نے اپنے دور میں اسکولوں میں چینی زبان کی تعلیم متعارف کرانے کا اعلان کیا تھا۔ کاش کوئی حکومت چینی زبان سے پہلے اپنے نو نہالوں کی اگر انگریزی نہیں تو اردو اور سندھی ہی ٹھیک کروا دے۔ چینی وہ خود سیکھ لیں گے۔ جب میں نے اپنے والد کو انتہائی پرجوش انداز میں خبر سنائی کہ آج میں نے ایم اے کر لیا ہے تو والد صاحب نے کہا۔ چلو اچھا ہوا۔ اب لگے ہاتھوں میٹرک بھی کر ہی لو…

وسعت اللہ خان

Post a Comment

0 Comments