All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

نائن الیون نے کیا دیا ؟

15 برس پہلے 11 ستمبر کو کراچی پریس کلب کے لان میں آج جیسی ہی ایک شام تھی۔ ہوا بھی کم و بیش اسی رفتار سے چل رہی تھی۔ محمد حنیف لندن سے آئے ہوئے تھے۔ کلب میں چند پرانے دوستوں سے ملنا چاہتے تھے۔ کسی نے کہا جلدی اندر آؤ دیکھو ٹی وی پر کیا چل رہا ہے۔ ہم نے دیکھا سی این این پر ہالی وڈ کی کوئی ایکشن مووی چل رہی تھی جس میں کوئی طیارہ کسی عمارت سے ٹکراتا ہے۔ لیکن جب یہ منظر بار بار دہرایا جانے لگا تب لگا کہ یہ فلم نہیں ہو سکتی۔
حنیف اور میں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ کچھ کہنےکی ضرورت ہی کیا تھی۔ برے دن آ چکے تھے۔ اور پھر ہمارے روزمرہ میں نئے الفاظ گھستے چلے گئے۔ وار آن ٹیرر، شاک این آ، کولیٹرل ڈیمیج، ڈیزی کٹر، ویپنز آف ماس ڈسٹرکشن (ڈبلیو ایم ڈی)، ابو غریب، ڈرونز، گوانتانامو، سرجیکل سٹرائکس، آئی ڈی پیز، آئی ای ڈیز، ڈو مور، کولیشن سپورٹ فنڈ، خود کش بمبار، ٹارگٹ کلر، سہولت کار، ہوم لینڈ سیکورٹی، پوپا ( پروٹیکشن آف پاکستان آرڈینینس )، نیشنل ایکشن پلان، داعش، کومبنگ آپریشن وغیرہ وغیرہ۔

 پہلی جنگِ عظیم چار سال تک جبکہ دوسری چھ سال تک جاری رہی جنگِ عظیم اول امریکی صدر وڈرو ولسن کے دور میں شروع ہوئی اور چار سال میں ختم ہوگئی۔ جنگِ عظیم دوم دو امریکی صدور روزویلٹ اور ٹرومین کا بیشتر وقت لے گئی مگر چھ سال بعد تھم گئی۔ جنگِ ویتنام تین امریکی صدور جانسن، نکسن اور فورڈ کے دس برس کھا گئی۔ مگر دہشت گردی کے خلاف جنگ بش اور اوباما کی دو دو صدارتی مدتیں ہضم کرنے کے بعد اب اگلے یا اگلی امریکی صدر کو منتقل ہونے والی ہے۔
کچھ بعید نہ ہوگا اگر نائن الیون کو شروع ہونے والی جنگ برطانیہ اور فرانس کے مابین لڑی جانے والی 100 سالہ جنگ کے بعد کی سب سے طویل لڑائی لکھی جائے۔ فرق بس یہ ہے کہ اس جنگ میں دشمن ہمسایہ نہیں سایہ ہے اور سائے کا تعاقب تو قیامت تک ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی امریکہ نے اب تک یہ جنگ کچھ ایسے سلیقے سے لڑی ہے کہ ایک دہشت گرد کو مارنے کی کارروائی نے دس اور دہشت گرد پیدا کر دیے۔ دہشت گردوں کی تلاش میں پوری دنیا کا نظام ایسے تلپٹ کیا گیا جیسے پنجاب پولیس مجرم کی تلاش میں دیوار پھاند کر گھر کی رضائیاں تک پھاڑ دیتی ہے اور چاچی اور دادا کو بھی تھانے میں بٹھا لیتی ہے۔

نتیجہ یہ نکلا کہ عراق، افغانستان اور لیبیا کے بعد اب شام ادھڑ رہا ہے اور داعشی رائتہ نائجیریا سے انڈونیشیا تک پھیل چکا ہے اور عالمی اعتماد کے جسم میں انتہائی خود غرض بد اعتمادی کا زہر پھیل چکا ہے۔ اگر یہ جنگ آج رک بھی جائے تب بھی جسم سے زہر نکالنے میں کئی عشرے لگ جائیں گے۔ اگر اس بدتری میں سے کوئی بہتری برآمد ہوئی ہے تو بس یہ کہ یہ دنیا مختصر عرصے کے لیے واحد سپر پاور کے رحم و کرم پر رہنے کے دور سے نکل کر ایک بار پھر کثیر طاقتی دور میں داخل ہو گئی ہے۔ ہم جیسے ممالک کو درے تو اب بھی پڑیں گے مگر پہلے کے مقابلے میں سانس لینے کا موقع ذرا زیادہ مل جائے گا۔ البتہ کام وہی پرانا ہی رہے گا۔ یعنی بڑی طاقتوں کی قے صاف کرنے اور پھر پنجے دبانے اور پھر قے صاف کرنے کی ملازمت۔

وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

Post a Comment

0 Comments