All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

خان گڑھ : ضلع مظفر گڑھ کا قصبہ

ضلع مظفر گڑھ کا قصبہ۔ شہر مظفر گڑھ سے علی پور جانے والی سڑک پر16 کلو میٹر کے فاصلے پر دریائے چناب کے کنارے واقع ہے۔ اس کے بارے میں مختلف روایات بیان کی جاتی ہیں۔ ایک روایت ہے کہ یہ علاقہ نواب مظفر خان بانی مظفر گڑھ کے والد نواب شجاع نے اپنی بیٹی خان بی بی کو عطا کیا تھا۔ خان بی بی اپنے بھائی نواب مظفر خان کی فوج میں سپہ سالار تھی اور جنگ منکیرہ میں شہید ہو گئی تھی۔ اس کا مزار ملتان میں حضرت غوث بہاول حق کے مزار کے باہر واقع ہے۔ اسی خان بی بی نے قصبہ خان گڑھ کی بنیاد رکھی تھی۔ دوسری روایت کے مطابق اسے شجاع خان نے آباد کیا تھا، جس کا انتقال 1773ء میں ہوا تھا جبکہ تیسری روایت یہ ہے کہ یہ قلعہ نواب مظفر خان کی زیر نگرانی تعمیر ہوا تھا جب نواب شجاع خان نے انہیں مظفر گڑھ کے علاقے کا انتظام سونپا تھا۔

ان تمام روائتوں سے ہٹ کر مورخین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہاں کا قلعہ شجاع خان نے تعمیر کرایا، جو نواب مظفر خان کی نگرانی میں بنا اور خان بی بی کے نام پر اس کا نام خان گڑھ رکھا گیا۔ یہ قلعہ شہر کے مشرقی طرف دریائے چناب کے کنارے واقع تھا۔ خان بی بی کی شہادت کے بعد چناب میں سیلاب کی وجہ سے یہ قلعہ مسمار ہو گیا اور اس کا نام و نشان بھی باقی نہ بچا۔ 1811ء کے بعد نواب مظفر خان اور نواب بہاولپور کے درمیان تنازعات بڑھے ،تو نواب احمد خان نے خان گڑھ کو اپنامستقر بنا کر بہاولپور کے علاقے میں چھیڑ چھاڑ شروع کر دی۔ نواب صادق محمد خان نے تنگ آ کر فوجی افسر یعقوب کی سرکردگی میں ایک لشکر خان گڑھ روانہ کیا۔ یعقوب خان نے خان گڑھ کا محاصرہ کیا، تو احمد خان مقابلے کی تاب نہ لا کر فرار ہو گیا۔ 1818ء میں خان گڑھ پر سکھوں کا قبضہ ہو گیا۔ 1849ء میں انگریزوں کی حکومت قائم ہوئی ،تو انہوں نے خان گڑھ کو ضلعی صدر مقام بنایا اور خان گڑھ، سیت پور اور رنگ پور کی تحصیلوں کو اس میں شامل کیا۔ اس وقت رنگ پور میں ضلع جھنگ کے علاقے گڑھ مہاراجہ اور احمد پور سیال بھی شامل تھے۔ 1850ء تک یہ ضلعی صدر مقام رہا، بعد ازاں مظفر گڑھ کو ضلع بنایا گیا اور خان گڑھ تحصیل اس میں شامل کر دی گئی۔ خان گڑھ تھانہ 1849ء میں بنا جبکہ آنریری عدالت 1893ء میں بن چکی تھی اور مرحوم سیاستدان نوابزادہ نصراللہ خان کے والد نوابزادہ سیف اللہ خان اس کے جج تھے۔ 

تھانہ، ڈاکخانہ، ٹاؤن کمیٹی اور ڈسپنسری بھی انگریزی دور میں بنے ۔1931ء کی مردم شماری کے مطابق خان گڑھ کی آبادی4402 نفوس پر مشتمل تھی۔ تجارتی لحاظ سے علاقے کا اہم مرکز ہے۔ کھجور، آم اور گندم کی پیداوار عام ہوتی ہے۔ محلہ ڈسکیاں والا، محلہ شیخاں، محلہ سیداں، محلہ توحید آباد، محلہ نواباں والا، نئی بستی، بستی کلاں اور رحمت کالونی یہاں کی رہائشی بستیاں ہیں جبکہ مین بازار اور بازار خواجگان تجارتی مراکز ہیں۔ پاسکو کے گودام بھی ہیں۔ پیر مہدی شاہ، پیر بالک شاہ اور پیر طالب شاہ کے مزارات ہیں۔ یہاں کا بُھنا کھویہ بہت مشہور ہے۔ شمس اور موج قصبہ خان گڑھ کے معروف شعرا میں شمار ہوتے ہیں۔ سیّد شمس الدین شمس یہاں 1865ء میں پیدا ہوئے اور1945ء میں وفات پائی۔ آپ سرائیکی زبان کے شاعر تھے۔

ایک غیرمطبوعہ مجموعہ یادگار چھوڑا۔ ان کے بیٹے سیّد غلام مصطفیٰ شاہ مست جن کا انتقال 1955ء میں ہوا تھا بھی سرائیکی شاعری کرتے تھے۔ شاہ مست کے بیٹے اور شمس کے پوتے سیّد کرم حسین شاہ گیلانی بھی یہاں کے اُستاد شاعروں میں شمار ہوتے ہیں۔ حکیم شمشیر مرحوم اور سیّد غلام حسین شاہ مسکین بھی شاعر تھے۔ معروف سیاستدان نوابزادہ نصراللہ خاں بھی یہاں کے رہنے والے تھے  وہ شاعری بھی کرتے تھے۔ پاکستانی سیاست میں وہ بہت بلند مقام پر فائز رہے۔ اسی طرح فضل حسین بلوچ جو موج تخلص کرتے تھے نعت، قصائد، نوحہ، رباعیاں اور مُسدّس کی شکل میں شاعری کرتے تھے۔ 

(اسد سلیم شیخ کی تصنیف ’’نگر نگر پنجاب:شہروں اور قصبات کا جغرافیائی، تاریخی، ثقافتی اور ادبی انسائیکلوپیڈیا‘‘ سے مقتبس) 

Post a Comment

0 Comments