All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

کشمیریوں کے خلاف بھارتی میڈیا کی جنگ

نعیم اختر مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت کے نہ صرف سینئر وزیرِتعلیم ہیں
بلکہ مقبوضہ کشمیر کی مخلوظ حکومت (پی ڈی پی+بی جے پی) کے ترجمان بھی ہیں۔ بھارت کے ممتاز اخبار ’’دی ہندو‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے نعیم اختر نے کہا ہے: ’’ہمیں بالکل اندازہ نہیں تھا کہ برہان وانی کی ہلاکت سے کشمیر میں اتنا فساد پھیلے گا اور اس کی موت پر کشمیری اتنے شدید ردِ عمل کا اظہار کریں گے۔‘‘ اس اعترافِ گناہ میں مقبوضہ کشمیر کے حکمرانوں کی تازہ دلی کیفیات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے سابق کٹھ پتلی وزیراعلیٰ، عمر عبداللہ، کے ٹویٹ میں بھی کچھ ایسی ہی کیفیت پائی جاتی ہے۔ عمر نے اپنے ٹویٹر میں یہ لکھا: ’’حزب المجاہدین کے نوجوان کمانڈر، برہان وانی، کی (بھارتی فورسز کے ہاتھوں) موت سے پیدا ہونے والے ردِ عمل کا اندازہ لگانے میں محبوبہ مفتی کی حکومت قطعی ناکام رہی۔‘‘
واقعہ یہ ہے کہ بائیس سالہ کشمیری مجاہد، برہان مظفر وانی، کی بھارتی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں شہادت سے آج مقبوضہ کشمیر، بھارت اور پاکستان ہی نہیں گونج رہا بلکہ واشنگٹن، لندن، بیجنگ اور ماسکو میں بھی ان کا نام اور کام سنائی دے رہا ہے۔ بھارتی ظالم فوجوں نے اس بار نہتے کشمیری احتجاج کنندگان پر خاص قسم کی مہلک گولیوں سے فائرنگ کی ہے۔ یہ گولیاں دھماکے سے پھٹتی ہیں اور اس کے باریک باریک ہلاکت خیز ٹکڑے لوگوں کی آنکھوں میں چُبھ جاتے ہیں۔ (بھارت نے یہ ہتھیار اسرائیل سے لیے ہیں) ان گولیوں سے سیکڑوں کشمیری نوجوان اپنی بینائی سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو گئے ہیں۔ سری نگراور دہلی کے اسپتال زخمی آنکھوں والے ان کشمیریوں سے اَٹ گئے ہیں لیکن علی شاہ گیلانی کی خط کتابت کے باوجود عالمی ضمیر جاگ نہیں سکا ہے۔

بھارتی میڈیا اس پر مزید ستم ڈھا رہا ہے۔ بھارت کا تقریباً ہر ٹی وی، اخبار اور جریدہ اپنی اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر مسلسل یہ دِل آزار پروپیگنڈہ کر رہا ہے کہ (مقبوضہ) کشمیر میں اٹھنے والی تازہ احتجاجی لہر ’’مُٹھی بھر دہشت گردوں‘‘ کی شرارت اور ’’اسے پاکستان کی پُشت پناہی حاصل ہے‘‘۔ بھارتی وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ کا یہ دعویٰ بھی سامنے آیا ہے کہ برہان کے جنازے، جو لاکھوں کشمیریوں پر مشتمل تھا، میں ایک ہزار پاکستانی شامل تھے۔ نان سینس! آیا یہ کسی بھی طرح ممکن ہے کہ پاکستان راتوں رات اتنی بڑی تعداد میں اپنے ’’بندے‘‘ مقبوضہ کشمیر میں داخل کر سکے؟ اگر ایسا ممکن ہوا بھی ہے تو مقبوضہ کشمیر کے چپے چپے پر تعینات سات لاکھ بھارتی افواج اور ایک لاکھ CRPF (سینٹرل ریزرو پولیس فورس) کو اپنی نالائقیوں اور نااہلیوں پر ماتم کرتے ہوئے ڈوب مرنا چاہیے۔ اس ناممکن کو ممکن ثابت کرنے کے لیے بھارتی میڈیا مسلسل آتش بیانی کر  رہا ہے۔

اسی لیے مشہور بھارتی خاتون صحافی، تولین سنگھ، کو اپنی ایک معروف کتاب (Kashmir:  A  Tragedy  of  Errors) میں یہ لکھنا پڑا: ’’حکومت کی غلطیاں تو اپنی جگہ ہیں ہی لیکن کشمیر کے بارے بھارت بھر میں حالات اس لیے بھی خراب ہوئے ہیں کہ بھارتی میڈیا نے کشمیریوں کے مسائل اور دکھوں کے حوالے سے کبھی پورا سچ اپنے پڑھنے اور سننے والوں تک نہیں پہنچایا۔ اس کے کئی منفی نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ ایک منفی نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ ہندوستان کی مختلف حکومتوں نے کشمیر اور کشمیریوں کے بارے میں سنجیدگی اور فہمیدگی سے غور اور فیصلہ کرنے کا تکلف ہی نہیں کیا ہے۔

کشمیر میں حالات اس لیے بھی بھارت سرکار کے ہاتھ سے نکلتے جا رہے ہیں۔‘‘ لیکن بھارتی فیصلہ ساز قوتیں تولین سنگھ ایسے اخبار نویسوں کے انتباہ اور تجزیوں پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں، بلکہ اس کے برعکس بھارتی اسٹیبلشمنٹ ہندوستان سے باہر نکل کر مغربی میڈیا میں بھی نفوذ کرتے ہوئے یہ کوششیں کرنے لگی ہے کہ آزادی پسند کشمیریوں اور کشمیری قیادت کو بدنام کیا جائے تا کہ کشمیری نوجوان اپنی حریت پسند قیادت سے بد دِل ہو جائیں۔ اس سلسلے کی تازہ کوشش 17 جولائی 2016ء کو سامنے آئی ہے جب برطانیہ کے معروف اخبار، سنڈے گارڈین، میں ایک اسٹوری شایع کروائی گئی۔

اس میں ممتاز کشمیری قیادت (مثلاً: سید علی شاہ گیلانی، میر واعظ عمر فاروق، اشرف صحرائی اور آسیہ اندرابی) کا نام لے کر قارئین کو بتایا گیا ہے کہ ان کشمیری رہنماؤں کی اپنی اولادیں تو مقبوضہ کشمیر سے باہر ہیں، محفوظ ہیں، شاندار ملازمتیں کر رہی ہیں اور آرام دہ زندگیاں گزار رہی ہیں جب کہ حریت پسند قائدین مقبوضہ کشمیر کے غریب نوجوانوں کو بھارت سے لڑا کر مروا رہی ہے۔برطانوی اخبار میں شایع ہونے والی اس مفصل رپورٹ کی شر انگیزی واضح اور قابلِ فہم ہے۔ بھارت مقامی اور عالمی میڈیا کے پلیٹ فارم سے کشمیری نوجوان حریت پسندوں کو ناکام بنانے اور ان کے راستے مسدود کرنے کے لیے ہر قسم کے ہتھکنڈے آزما رہا ہے مگر یہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوں گے۔ کشمیریوں کا خون رنگ لا کر رہے گا۔
 انشاء اللہ۔

تنویر قیصر شاہد 

Post a Comment

0 Comments