All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

مینار پاکستان : مسلمانوں کے شاندار ماضی اور تابناک مستقبل کی علامت

مینارِ قار داد پاکستان کی مجلسِ تعمیر کی نشست تھی، میز کے اردگرد تمام اراکین جمع تھے، میں آج ان میں پہلی بار شامل ہوا تھا۔ کاروائی کی پہلی شقِ غور کے لیے پیش ہوئی، میرا ذہن اس وقت برنارڈ شا کے اس مقولے پر غور کرنے میں مصروف تھا کہ وہ مقام جہاں خواہشِ قلبی اور فرضِ منصبی کی حدیں مل جائیں اسے خوش بختی کہتے ہیں۔ میں بلحاظ عہدہ اس مجلس کی صدارت کر رہا ہوں مگر عہدے کو ایک عہدِ وفا کا لحاظ بھی تو لازم ہے۔ میرے عہدے کا تعلق تعمیر سے ہے، میرے عہد کا تعلق تحریک سے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے اسے سنگ و خشت کے بجائے جہانِ نو کی تعمیر اور افکارِ نو کی تعبیر سمجھا۔ میں نے اس مینار کو با الفاظِ اقبال جلوہ گہِ جبرئیل جانا اورسوچا۔ باکہ گویم سرایں معنی کہ نورِ روئے دوست بادماغِ من گل و باچشمِ موسیٰ آتشست عرفی مینار کی تعمیر کے ابتدائی دنوں میں جب میرا اس کی تعمیر سے کوئی سرکاری تعلق نہ تھا میں محض تعلق خاطر کے واسطہ سے وہاں جا پہنچا۔

بنیادیں بھری جا چکی تھیں، باغ میں ہر طرف ملبہ پھیلا ہوا تھا، مینار بلندی کی طرف مائل تھا، روکاربا نسوں کی باڑ میں یوں چھپی ہوئی تھی کہ عمارت تو نظر نہ آئی مگر اردو شاعری میں چلمن کا مقام مجھ پر واضح ہو گیا۔ نزدیک جانا چاہا تو چوکیدار نے سختی سے روک دیا۔ یہ تو اس چوکیدار کا ہمسر نکلا جسے مولوی عبدالحق نے وائسرائے کو ٹوک دینے پر آثار قدیمہ سے نکال کر چند ہم عصروںمیں شامل کر لیا تھا۔ اب کہاں روز روز عبدالحق پیدا ہوں گے اور کسے فرصت ہو گی کہ عصرِ نو کے ملبے میں عزتِ نفس کی تلاش کرے اور ایسے چھوٹے چھوٹے واقعات پر مضمون لکھا کرے۔ میں نے چوکیدار سے پوچھا یہ کیا بن رہا ہے؟ کہنے لگا یادگار بن رہی ہے۔ آج جب کاروائی کے لئے پہلا مسئلہ پیش ہوا تو میں نے کہا اسے ملتوی کیجیے تا کہ ایک اور ضروری بات پر بحث ہو سکے۔ میز پر لغات کا ڈھیر لگ گیا۔ سب متفق ہوئے کہ یادگار وہ نشانِ خیر ہے جو مرنے کے بعد باقی رہے۔ جب یادگار کا عام تصور موت اور فنا کے تصور سے جُدا نہ پایا تو منصوبے سے یادگار کا لفظ خارج کر دیا۔ میز صاف کی گئی، لغات کی جگہ مینارِ قرار دادِ پاکستان کے نقشے پھیلائے گئے۔ جو تھوڑی بہت جگہ بچ گئی اس میں چائے کی پیالیاں سجائی گئیں۔ چائے شروع ہوئی تو بات بہت دُور جا نکلی۔ 

کہتے ہیں جب اہرامِ مصر کا معمار موقع پر پہنچا تو اس نے صحرا کی وسعت دیکھ کر فیصلہ کیا کہ عمارت بلند ہونی چاہیئے۔ پھر اس نے بھر بھری اور نرم ریت کو محسوس کیا اور سوچا کہ اس عمارت کو سنگلاخ بھی ہونا چاہیئے۔ جب دھوپ میں ریت کے ذرے چمکنے لگے تو اسے خیال آیا کہ اس کی عمارت شعاعوں کو منعکس کرنے کے بجائے اگر جذب کر لے تو کیا اچھا تقابل ہو گا۔ ہوا چلی تو اسے ٹیلوں کے نصف دائرے بنتے بگڑتے نظر آئے اور اس نے اپنی عمارت کو نوک اور زاویے عطا کر دئیے۔ اتنے فیصلے کرنے کے بعد بھی اسے طمانیت حاصل نہ ہوئی تو اس نے طے کیا کہ زندگی تو ایک قلیل اور مختصر وقفہ ہے وہ کیوں نہ موت کو ایک جلیل اور پائیدار مکان بنا دے۔ اب جو یہ مکان بنا تو لوگوں نے دیکھا کہ عجائبِ عالم کی فہرست میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اہرام کے معمار کو اگر اقبال پارک میں لاکھڑا کرتے تو اسے نہ جانے کیا کچھ نظر آتا اور وہ اس عمارت کو نہ معلوم کیا شکل دیتا۔ اس کی غیر حاضری میں ہمیں یہ طے کرنے میں بڑی مشکل پیش آئی کہ قرار دادِ پاکستان کو علامت اور عمارت کے طور پر کیا صورت دی جائے۔ 

باغ، جھیل، فوارے، مسجد، کتب خانہ، عجائب گھر، ہال ہسپتال دروازہ، درس گا یا مینار۔ فہرست کچھ اسی قسم کی بنی تھی اور بحث وتمحیص کے بعد کامیابی کا سہرہ سرِ مینار سجایا گیا۔ موقع و محل کی نسبت ہو یا صورت و ساخت کی نسبت ماہرین کا متفق ہونا ممکن نہیں۔ اقبال پارک کے مشرق اور شمال میں وسعت اور ہریالی،مغرب میں ایک محلہ، کچھ جھگیاں اور گندہ نالہ، جنوب میں قلعہ، گوردوارہ اور مسجد عالمگیری واقع ہے۔ سطحِ زمین سے دیکھا جائے تو تین سفید بیضوی نوک دار گنبد اور چار بلند سُرخ پہلو دار مینار اس قطعے پر حاوی ہیں۔ ذرا بلندی سے دیکھیں تو اندرونِ شہر، دریائے راوی اور جہانگیر کے مقبرے کے چار مینار بھی اس منظر کا حصہ بن جاتے ہیں۔ آٹھ میناروں کے ہوتے ہوئے نویں مینار کا اضافہ کسی نے حسن جانا اور کسی نے بد ذوقی۔ اس بات کو البتہ سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ عمارت اپنی نسبت کی حیثیت سے منفرد ہے۔

دنیا میں کہیں کسی قرار داد کو منظور کرنے کی یاد اس طرح نہیں منائی گئی کہ جلسہ گاہ میں ایک مینار تعمیر کر دیا جائے۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ مینار کی ابتدائی صورت دفاعی ضرورت کے تحت وجود میں آئی، پھر اس کی علامتی حیثیت قائم ہوئی، اس کے بعد یہ دین کا ستون بنا اور آخرکار نشانِ خیر کے طور پر بنایا جانے لگا۔ مینارِ قرار داد ان ساری حیثیتوں پر محیط ہے۔ یہ نظریاتی دفاع کی ضرورت، تحریکِ آزادی کی علامت، دین کی سرفرازی کا گواہ اور ہماری تاریخ کا ایک نشانِ خیر ہے۔ دفاعی میناریوں تو میسو پوٹیمیا کی اختراع بتائے جاتے ہیں۔ مگر ان کو سب سے زیادہ استعمال کرنے والے اہلِ روم اور بازنطینی تھے۔ ان کے یہاں شہر کی فصیل سے لے کر ہر بڑی حویلی میں جا بجا مینار بنے ہوئے تھے۔ 

ان دنوں دنیا کی آبادی مختصر اور جغرافیے کا علم کم تر تھا، فنِ حرب کا درجہ بھی پست تھا، حملہ آور گنے چُنے اور ان کے ہتھیار دیکھے بھالے تھے لہٰذا دفاع کے لئے یہ کوتاہ قامت مینار ہی بہت کافی تھے۔ علم اور آبادی دونوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ فنِ حرب کا درجہ بھی بلند ہوتا چلا گیا، جنگوں کی تعداد اور شدت میں بھی اضافہ ہو گیا۔ جگہ جگہ مضبوط سے مضبوط اور بلند سے بلند تر مینار بننے لگے۔ آبنائے باسفورس، جنوبی فرانس اور وسط چین کی مشہور فصیلیں اور مینار اسی دور کی یادگار ہیں۔ دیوارِ چین میں جو اب ہاتھی کے دانت کی طرح صرف دکھانے کے کام آتی ہے جابجا دفاعی مینار اور بُرج بنے ہوئے ہیں۔ چین گئے تو دیوار دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ دیوار بھی دیکھی اور اہلِ دیوار بھی۔ معلوم ہوا کہ جو کام پہلے دیواروں سے لیا جاتا تھا وہ اب دیوانوں سے لیتے ہیں۔ جہاں لوگ شانہ بشانہ صف بصف ایک دوسرے سے پیوست ہو جائیں تو وہی سدِ سکندری ہے اور وہی سدِ یاجوج۔ ایک دن ہم دیوار کی طرف روانہ ہوئے، سڑک میدان سے گزر کر پہاڑی سلسلے میں داخل ہو چکی تھی۔ دور سے ایسا معلوم ہوا کہ جہاں پہاڑ اور افق ملتے ہیں وہاں کسی نے سیاہ پنسل سے ایک مدھم سی کلیر لگا دی ہے۔

کچھ اور آگے گئے تو دور تک سلسلہ کوہ سنجافی نظر آیا۔ نزدیک پہنچے تو یہ مدھم سی لکیر حیرت کدۂ ہنر بن گئی اور جسے ہم نے سنجاف سمجھا تھا وہ ایک سنگلاخ حقیقت نکلی۔ دیوار عمودوار ایک پہاڑ پر چڑھتی تھی اور چوٹی پر ایک دفاعی مینار بنا ہوا تھا۔ میں نے جیب سے پچاس یوآن کا نوٹ نکالا اور ساتھیوں سے کہا کہ یہ انعام مینار پر سب سے پہلے پہنچنے والے کو ملے گا۔ سبھی بھاگ پڑے اور میں نے جانا کہ یہ نوجوان بھی پسماندہ ملکوں کی طرح زرِ مبادلہ کی دوڑ میں شریک ہو گئے ہیں۔ ذرا سی دیر میں بھاگنے والوں کا دم پھول گیا اور وہ ایک ایک کر کے فرش پر بیٹھ گئے۔ مینار اب بھی اتنا ہی دور نظر آتا تھا اور اگر اس میں یہ خوبی نہ ہوتی تو اب تک دیوارِ چین میں کئی بار نقب لگ چکی ہوتی۔ یہ کام جو بڑے بڑے ملک نہ کر سکے اُردو شاعری نے کر دکھایا شعر ہے۔ میرے شیون سے فقط قصر فریدوں نہ گرِا سدِا سکندرِ اورنگ نشین بیٹھ گئی اب صرف حضرتِ ناظم کو جن کا یہ شعر ہے کیوں قصور وار ٹھہرائیے، قصور ہے تو خود ہمارے مزاج کا۔

دیوار چین تو نہیں البتہ دیوار چمن تو حضرتِ غالب نے بھی ڈھا دی تھی، کہتے ہیں۔ برشگالِ گر یہ عاشق ہی دیکھا چاہیے کھل گئی مانند گل، سوجا سے دیوارِ چمن دفاعی مینار پر چڑھنے کی جو حسرت دل کی دل میں رہ گئی تھی اسے میں نے مغربی پاکستان کے قبائلی علاقے میں جا کر پورا کیا۔ میں نے ایک سردار کے یہاں کھانا کھایا اور مہمان کا حقِ آسائش استعمال کرتے ہوئے مٹی کے اس مینار پر جا چڑھا جو حویلی ک یایک کونے میں بنا ہوا تھا۔ باہر سے تو اس کی لپائی کی ہوئی تھی مگر اندر سے مینار تاریک اور خستہ تھا۔ خاک ریز سے جو روشنی کی کرن اندر آتی تھی وہی ہمارا زینہ تھا۔ مینار کی شہ نشین میں ایک ٹوٹی کرسی اور چند کارتوس پڑے ہوئے تھے۔ پاس ہی ایک ٹرانسسٹر بج رہا تھا۔ میں نے کبھی ٹاٹ میں مخمل کا پیوند تو نہیں دیکھا مگر میسوپوٹیمیا کے دفاعی میناروں کی طرز کے ہزار ہا سال پرانے مٹی کے میناروں میں بیسویں صدی کا گاتا بجاتا پیوند لگا ہوا ضرور دیکھا ہے۔

(آوازِ دوست از مختار مسعود)   

Post a Comment

0 Comments