All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

’میں بلیئر کے منہ پر تھوکوں گا‘

عراق کے دارالحکومت بغداد میں اپنے آپ کو دولت اسلامیہ کہلانے والی شدت پسند تنظیم کی جانب سے کیے جانے والے دھماکے کے 24 گھنٹوں بعد لوگ منہدم ہونے والے شاپنگ سینٹر کے تہہ خانے کی کھدائی کر رہے ہیں۔ یہ لوگ تہہ خانے میں لاشیں تلاش کر رہے ہیں لیکن ان کو کچھ جوتے ملے اور راکھ۔. عمارت کے باہر لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی جن میں سے بہت سے یا تو آنسو بہا رہے تھے یا پھر دعا مانگ رہے تھے۔ میں نے ایک مسیحیٰ کو موم بتی لیے کھڑے دیکھا دعا مانگ رہا تھا اور نوجوان شیعہ لڑکے جو نوحے پڑھ رہے تھے۔ عراق میں اتنی زیادہ ہلاکتیں ہو چکی ہیں لیکن سوگ کم نہیں ہوا۔ عراقی افراد اپنے درد میں اتنے گم ہو چکے ہیں کہ ان کو بدھ کے روز 2003 میں عراق پر حملے کی رپورٹ چلکوٹ رپورٹ میں دلچسپی نہیں ہو گی۔

میں نے بہت لوگوں سے بات کی اور زیادہ تر عراق پر حملے کے اثرات کے حوالے سے اپنا ذہن بنا چکے ہیں۔ ان افراد میں سے ایک ہیں کاظم الجبوری۔ کاظم عراقی لوگوں کی نجات اور صدام حسین کے لیے نفرت کی علامت ہیں۔ کاظم وہی شخص ہیں جنھوں نے بغداد کے فردوس سکوائر میں صدام حسین کے مجسمے کو گرانے کے لیے سب سے پہلا ہتھوڑا مارا تھا۔ کاظم الجبوری کی مشہور موٹر سائیکل کی دکان تھی اور وہ مشہور موٹر سائیکل ہارلے ڈیوڈسن کے ماہر مانے جاتے تھے۔ انھوں نے کچھ عرصہ صدام حسین کی موٹر سائیکلیں ٹھیک کیں لیکن جب ان کے خاندان کے 14 افراد کو قتل کر دیا گیا تو انھوں نے کام کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کے انکار پر حکومت نے ان کو دو سال قید کی سزا سنائی۔ جیل میں انھوں نے ویٹ لفٹنگ کلب کا آغاز کیا۔
 
نو اپریل 2003 میں کاظم اپنی ذاتی آزادی اور انتقام چاہتے تھے۔ انھوں نے بڑا ہتھوڑا اٹھایا اور مجسمے پر مارنا شروع کیا۔ فردوس سکوائر میں واقع فلسطین ہوٹل سے صحافیوں نے نکلنا شروع کیا اور ان کا یہ عمل پوری دنیا میں لائیو براڈکاسٹ کیا۔ ان صحافیوں کی موجودگی کے باعث ہی صدام کی خفیہ پولیس ان کے قریب نہیں آئی۔ جب امریکی فوج فردوس سکوائر پہنچی تو انھوں نے صدام کے مجسمے کی گردن میں سٹیل کی کیبل ڈالی اور جو کام کاظم نے شروع کیا اس کو اختتام تک پہنچایا۔ یہ سب لائیو دکھایا گیا۔ کاظم کی کہانی سے امریکی صدر جارج بش کو مطلع کیا گیا لیکن کاظم کا اب کہنا ہے کہ کاش وہ ہتھوڑا گھر ہی چھوڑ گئے ہوتے۔

دیگر عراقیوں کی طرح کاظم بھی صدام دور کے استحکام کو یاد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے ان کو اس بات کا احساس ہوا کہ یہ آزادی نہیں بلکہ تسلط ہے۔ پھر ان کو نئے عراق میں بدعنوانی، بدانتظامی اور تشدد سے نفرت ہوئی۔ اور سب سے زیادہ ان کو عراق کے نئے قائدین سے نفرت ہے۔ ’صدام حسین چلا گیا لیکن اب یہاں پر ایک ہزار صدام ہیں۔ ایسا صدام کے دور حکومت میں نہیں ہوتا تھا۔ ایک نظام تھا ایک طریقہ تھا۔ ہم اسے پسند نہیں کرتے تھے لیکن وہ ان لوگوں سے بہتر تھا۔‘ ان کا مزید کہنا تھا ’صدام بغیر وجہ کے کسی کوسزا نہیں دیتا تھا۔ وہ ایک مضبوط شخص تھا۔ ہم محفوظ تھے کیونکہ اس کے دور میں نہ تو بدعنوانی تھی اور نہ ہی لوٹ مار۔‘

 بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ ’صدام ایک سخت شخص تھا اور انھوں نے ملک کو جنگوں میں گھسیٹا۔ لیکن 13 سال بعد نو اپریل 2003 سے پہلے کا عراق زیادہ پرامن اور محفوظ تھا۔ جب سے صدام حکومت ختم ہوئی ہے تب سے ایک دن بھی امن کا نہیں دیکھا۔‘جہاں تک جمہوریت کی بات ہے تو لوگوں کا کہنا ہے کہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر بٹا ہوا نظام مایوس کن ہے۔ کم از کم صدام کے دور حکومت میں نظام تو تھا۔ کچھ لوگوں کو امید تھی کہ فلوجہ میں دولت اسلامیہ کو شکست کے بعد صورتحال بہتر ہو جائے گی لیکن اتوار کو بغداد میں ہونے والے دھماکے میں 250 افراد کی ہلاکت نے وہ امید بھی توڑ دی۔

میں نے کاظم الجبوری سے پوچھا کہ اگر وہ اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر سے ملے تو وہ کیا کریں گے؟ کاظم نے کہا ’میں اس سے کہوں گا کہ وہ ایک مجرم ہے اور میں اس کے منہ پر تھوکوں گا۔‘ اور اگر اس وقت وقت کے امریکی صدر جارج بش سے ملیں تو وہ کیا کہیں گے؟ کاظم نے جواب دیا ’میں اس سے کہوں گا کہ وہ بھی مجرم ہیں۔ انھوں نے عراق کے بچے مروائے۔ تم نے عراقی عورتیں اور معصوم لوگ مارے۔ میں بلیئر کو بھی یہی کہوں گا۔ میں ان اتحادی فوجوں کو بھی یہی کہوں گا جس نے عراق پر حملہ کیا۔ میں کہوں گا کہ تم سب مجرم ہو اور تم سب کو انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہیے۔‘
 
امریکہ اور برطانیہ نے ایک آمر کو تو ہٹا دیا اور اس کی فوج اور ریاست کو تحلیل کر دیا لیکن اس ملک کو دوبارہ منظم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں تھا۔ جیسے جیسے قدم اٹھائے گئے صورتحال بدتر ہوتی گئی۔ عراق پر حملے سے قبل عراق میں کوئی جہادی نہیں تھا۔ شیعہ اور سنی اکٹھے رہ رہے تھے اور ان میں خانہ جنگی تسلط کے دوران شروع ہوئی۔ عراق پر حملہ کرنے والوں کے پاس اتنی فوج نہیں تھی کہ عراق پر قابو پایا جا سکتا۔ جہادی کھلی سرحدوں سے عراق میں آنا شروع ہوئے۔ القاعدہ نے اپنے قدم جمائے اور آخر میں دولت اسلامیہ کی شکل اختیار کی۔ عراقیوں نے بھی اپنے آپ کے لیے مشکلات پیدا کیں لیکن امریکہ اور برطانیہ کی غلطیوں نے عراق کو مصیبت میں ڈالا۔

جیرمی بووِن
بی بی سی کے مدیر برائے مشرق وسطیٰ، بغداد
 
 

Post a Comment

0 Comments