All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

چندے اور فطرے کی دوڑ میں کون آگے؟

کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کی طاقت کا مظہر مکہ چوک کے قریب شادی ہال میں راشن کے سامان کے ساتھ بھری ہوئی سفید بوریوں کا ڈھیر لگا ہے اور ساتھ میں سلائی مشینیں، پنکھے اور سائیکلیں موجود ہیں ان تمام پر خدمت خلق فاؤنڈیشن تحریر ہے۔ ایم کیو ایم کا فلاحی ادارہ خدمت خلق فاؤنڈیشن گذشتہ 36 سالوں سے ماہ رمضان میں غریب کارکنوں اور ہمدردوں میں امدادی سامان کی تقسیم کرتا آیا ہے لیکن رواں سال سامان اور مستحقین دونوں کی تعداد میں کمی تھی۔ متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار کا دعویٰ ہے کہ انھیں جو فطرے اور زکوۃ کی رقم ملتی تھی اس میں 80 فیصد کمی آئی ہے اور اس کی وجہ رینجرز ہیں۔

فاروق ستار کا کہنا ہے کہ ’ہم ایک قانونی رجسٹرڈ جماعت اور ادارہ ہیں ہمیں روکا جارہا ہے، جبکہ جو انتہا پسند تنظیمیں ہیں وہ کھلے عام مسجدوں کے باہر کیمپ لگا کر فطرہ جمع کر رہی ہیں، یہ ہمارے فلاحی کاموں پر ایک طرح سے غیر اعلانیہ پابندی ہے جو غیر قانونی اور غیر آئینی ہونے کے ساتھ غیر انسانی بھی ہے۔‘ ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ فنڈز کی قلت کے باعث انھوں نے ایمبولینس سروس، میت بس سروس، سرد خانے اور نذیر حسین ہپستال کی خدمات کو محدود کر دیا ہے۔
  
ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا ہے کہ ’رواں سال ایم کیو ایم نے فطرے کی رسیدیں تقسیم نہیں کیں، اگر کسی کارکن کے پاس رسیدیں دیکھی جاتی ہیں تو اسے گرفتار کر لیا جاتا ہے، جہاں یہ رسیدیں چھپ رہی تھیں اس پریس پر بھی چھاپہ مارا گیا۔‘
صوبائی مشیر مذہبی امور سینیٹر ڈاکٹر قیوم سومرو ایم کیو ایم کے الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’فطرے کی جبری وصولی بھی بھتہ خوری ہے جو مذہب کے نام پر لیا جاتا ہے اور گذشتہ ایک سال کے اندر اس میں کافی حد تک قابو پالیا گیا ہے، اس پر رینجرز اور سندھ حکومت دونوں ایک ہی صفحے پر ہے۔‘
’کسی بھی سیاسی جماعت یا رجسٹرڈ تنظیم پر پابندی عائد نہیں ہے، لیکن جہاں یہ شکایت ملی ہے کہ جبری وصولی کی جارہی ہے اس پر ایکشن لیا گیا ہے۔ سیاسی جماعت ہو یا مذہبی، مدرسہ یا کالعدم تنظیم سب کے لیے ایک ہی فارمولا بنایا ہے اس میں صرف ایم کیو ایم کو نہیں رکھا بلکہ وہ تمام تر تنظیمیں جنھوں نے اس مقدس عبادت کو اپنے فائدے اور ذاتی کمائی کا سلسلہ بنایا ہے، اس کو روکنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔‘
  
رواں سال بھی شہر میں رینجرز کی جانب سے بینر لگائے گئے ہیں جس میں شہریوں کو کہا گیا ہے کہ اگر ان سے کوئی زبردستی زکوۃ یا فطرہ وصول کرے تو اس کی فوری اطلاع دی جائے، ساتھ میں دکانداروں کو بھی کہا گیا ہے کہ اگر ان کی ایسو سی ایشن کے نمائندے کسی تنظیم کے نام پر ان سے پیسے مانگیں تو بھی انھیں آگاہ کیا جائے۔ کراچی میں ڈھائی سال پہلے شروع کیے جانے والے آپریشن کا ایک مقصد بھتہ خوری کی روک تھام بھی تھا۔ رینجرز نے گذشتہ سال صوبائی ایپکس کمیٹی کو بتایا تھا کہ زکوٰۃ اور فطرے کے نام پر ہر سال کروڑوں روپے وصول کیے جاتے ہیں اور یہ رقم جرائم میں استعمال ہوتی ہے۔

دو کروڑ آبادی کے اس شہر میں جہاں کچھ تنظیموں کا کردار محدود ہو رہا ہے تو کہیں بعض جماعتوں کی سرگرمیاں اور فلاحی کاموں میں حصہ داری بڑھ رہی ہے۔
جماعت الدعوۃ کے فلاحی ادارے فلاح انسانیت نے ایمبولینس کے بعد اب فائر بریگیڈ سروس شروع کی ہے، مسقتبل میں وہ سرد خانے اور مفت کفن سروس کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ فلاح انسانیت کے شعبہ ایمبولینس اور رسیکیو کے انچارج عبدالوحید بندھانی کا کہنا ہے کہ کراچی میں انھیں کروڑوں رپے عطیات اور چندہ ملتا ہے۔ ’لوگ خود آتے ہیں اور اپنی خوشی سے مساجد یا باہر کیمپوں پر پیسے دے کر جاتے ہیں۔ ہم صرف لوگوں کو لٹریچر اور جمعہ کی نماز کے اجتماعات میں ترغیب دیتے ہیں۔‘
 
شہر میں کئی مقامات پر فلاح انسانیت کے پوسٹر دیکھے جاسکتے ہیں جن میں فطرے اور زکوٰۃ کے علاوہ ایمبولینس اور واٹر ٹینکر عطیے میں دینے کی اپیل کی گئی ہے۔ امریکہ اور انڈیا نے جماعت الدعوۃ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔ فلاح انسانیت کے شبعے ایمبولینس اور رسیکیو کے انچارج عبدالوحید بندھانی کہتے ہیں کہ یہ الزامات ان کی راہ میں رکاٹ نہیں بنتے۔
’ہمارے خلاف پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے، درحقیقت ہم یہاں پر اپنے ملک اور لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں اور اس کو دینی فریضہ سمجھ کر کرتے ہیں۔ ہمارا جرم صرف یہ ہے کہ ہم اسلام پسند لوگ ہیں۔‘ کراچی میں ایدھی فاونڈیشن اور ڈاکٹر ادیب رضوی کے ادارے ایس آئی یو ٹی سمیت کئی خیراتی ادارے فلاحی خدمات میں مصروف ہیں جن کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ فطرہ اور زکوٰۃ ہے۔ ان تنظیموں کا مشن علاقائی سیاست اور شدت پسندی سے بالاتر ہوکر انسانی خدمت ہے۔

ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

Post a Comment

0 Comments