All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

نامزد وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کون ہیں ؟

مراد علی شاہ صوبہ سندھ کے 26 ویں وزیر اعلیٰ ہوں گے ، ان سے قبل ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس 1973 سے لیکر آج تک سات مرتبہ یہ منصب رہا ہے۔ جامشورو سے تعلق رکھنے والے والے مراد علی شاہ کو سیاست وراثت میں ملی اور اسمبلی کی رکنیت کے لیے انھیں زیادہ تگ و دو نہیں کرنا پڑی۔ ان کے والد اور صوبے کے سابق وزیرِ اعلیٰ عبداللہ شاہ جس نشست سے منتخب ہوئے تھے بعد میں مراد علی شاہ وہیں سے دو بار انتخابات میں کامیاب قرار دیےگئے۔

2013 کے انتخابات سے قبل دوہری شہریت کی وجہ سے انھیں نااہل قرار دیا گیا لیکن وہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے کہ انھوں نے کینیڈا کی شہریت پہلے ہی چھوڑ دی تھی، جس کے بعد وہ دوبارہ منتخب ہو کر اسمبلی پہنچے۔ مراد علی شاہ کو ایک اور چیز بھی وراثت میں ملی ہے وہ ہے کراچی آپریشن۔ جب ان کے والد وزیر اعلیٰ تھے تو ایم کیو ایم کے خلاف جاری آپریشن اپنے عروج پر تھا اور موجودہ وقت بھی شہر اور ایم کیو ایم کو اس آپریشن کا سامنا ہے۔ وہ کراچی میں قیام امن کو اپنے لیے سب سے بڑا چیلینج سمجھتے ہیں۔ عبداللہ شاہ کے دور حکومت میں بینظیر بھٹو کے بھائی مرتضیٰ بھٹو، ان کے سگے چچا احسان علی شاہ اور ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کے بھائی ناصر حسین اور بھتیجے عارف حسین کی ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ جب سیاسی رنجشیں ختم کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری نائن زیرو پہنچے تھے تو مراد علی شاہ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ اس وفد نے ایم کیو ایم کے ’شہدا قبرستان‘ میں جاکر فاتحہ پڑھی تھی، جس میں وہ کارکن بھی شامل تھے جو اس آپریشن میں ہلاک ہوئے۔
  
مراد علی شاہ دو بچوں کے والد ہیں زیادہ تر وقت کراچی میں گزارتے ہیں ارباب غلام رحیم کے دور حکومت میں مراد علی شاہ بطور اپوزیشن پارلیمینٹیرین کافی سرگرم رہے۔ اسمبلی قوانین و ضوابط پر عبور کی وجہ سے وہ سینیئر پارلیمینٹیرین اسپیکر مظفر شاہ کو بھی پریشان کردیتے تھے اور اس وقت حکومت اور موجودہ اپوزیشن میں شامل ایم کیو ایم کے اراکین سے بھی ان کی نوک جھونک چلتی آئی ہے۔ سید عبداللہ شاہ کی طرح مراد علی شاہ ملنسار اور میڈیا دوست نہیں اور وہ انتہائی کم بات کرتے ہیں۔ سوائے بجٹ پریس کانفرنسوں کے انھیں شاذ و نادر میڈیا کا سامنا کرتے دیکھا گیا تھا۔ محکمہ مالیات اور توانائی کے قلمدان ان کے پاس ہونے کے باوجود ان کا کبھی بھی کوئی ترجمان نہیں رہا تھا۔ میڈیا سے دوری کے بارے میں ایک نجی محفل میں انھوں نے کہا تھا میڈیا میں الٹی سیدھی خبریں آتی ہیں جو انھیں پسند نہیں اسی لیے وہ دور رہتے ہیں۔ اسمبلی میں بجٹ تقریر سے قبل نجی چینلز پر بجٹ منظر عام پر آنے کی دوڑ شروع ہوجاتی ہے، بطور وزیر خزانہ انھوں نے ان کوششوں کو کافی حد تک کمزور کیا اور افسران کو متنبہ کردیا کہ اگر بجٹ دستاویزات لیک ہوئیں تو اس افسر کے خلاف کارروائی ہوگی۔
 
این ای ڈی یونیورسٹی سے سول انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرنے والے مراد شاہ امریکہ کی سٹینفرڈ یونیورسٹی سے بھی سول سٹرکچرل انجینئرنگ اور اکنامک انجینئرنگ کے شعبوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ حصولِ تعلیم کے بعد انھوں نے اپنے کریئر کی ابتدا واپڈا میں بطور جونیئر انجنیئر کی اور پھر پورٹ قاسم اتھارٹی، حیدرآباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور کراچی ہاربر پر بھی مختلف عہدوں پر فائز رہے۔
روایتی سیاست دانوں کے برعکس ان کے طرز عمل اور رویے پر ’افسر شاہی‘ زیادہ حاوی ہے۔ وہ صبح نو بجے دفتر پہنچ جاتے ہی اور صرف اپنے پسندیدہ سیکریٹریوں کے ساتھ کام کرنے کو اولیت دیتے ہیں۔

 اپنے والد سابق وزیراعلیٰ سندھ سید عبداللہ شاہ کی طرح مراد علی شاہ ملنسار اور میڈیا دوست نہیں، وہ انتہائی کم بات کرتے ہیں سوائے بجٹ پریس کانفرنسوں کے انھیں شاذ و نادر ہی میڈیا کا سامنا کرتے دیکھا گیا تھا۔ موجودہ وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کے مقابلے میں مراد علی شاہ کو نسبتاً جذباتی شخصیت کا مالک سمجھا جاتا ہے۔ وہ وزیرِ اعلیٰ نامزد ہونے سے قبل صوبائی وزیر خزانہ، وزیرِ توانائی اور وزیرِ آبپاشی بھی رہ چکے ہیں۔ سنہ 2010 میں سندھ میں جب سیلاب آیا تو اس وقت مراد علی شاہ ہی وزیر آبپاشی تھے اور انھیں ہٹا کر جام سیف اللہ دہاریجو کو یہ وزارت دی گئی تھی۔

مراد علی شاہ اپنا زیادہ تر وقت کراچی میں گذارتے ہیں جہاں ان کا خاندان بھی مقیم ہے، جبکہ ان کے حلقے کے لوگوں کو یہ شکایت ہے کہ وہ ان سے کم ملتے ہیں۔ ان کے اس رویے کی وجہ سے انھیں انتخابات میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا جب مخالف امیدوار حبیب رند نے انھیں ’ٹف ٹائم‘ دیا تھا تاہم اس کے بعد انھوں نے حلقے میں اپنے نمائندے تعینات کر دیے ہیں جو لوگوں کی شکایت سنتے اور ان کے حل کی کوشش کرتے ہیں۔ سندھ کے سبکدوش ہونے والے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ کے مقابلے میں مراد علی شاہ کو نسبتاً ایک جذباتی شخصیت سمجھا جاتا ہے۔ ملنسار نہ ہونا اور جلد ناراض ہونے کی عادت وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے ان کی اپنی جماعت کے ارکان اسمبلی آنے والے دنوں میں خود کو ان کے ساتھ ’کمفرٹیبل‘ محسوس نہیں کرتے۔

ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

Post a Comment

0 Comments