All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

فیس بک کا ’اسلام و فوبیا‘ : کشمیر سنسر شپ پر فیس بک پر کڑی تنقید

برطانوی اخبار دی گارڈیئن میں چھپنے والی ایک خبر کے مطابق کشمیر میں
سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ایک اہم علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد فیس بک نے درجنوں پوسٹس اور یوزر اکاؤنٹس سینسر کیے ہیں۔ برہانی وانی کو اس ماہ کے آغاز پر انڈین فوج نے ایک آپریشن میں ہلاک کیا تھا۔ کشمیر میں ماہرِ تعلیم، صحافی اور مقامی اخبارات کے اپنے وہ تمام صفحات ڈیلیٹ کر دیے گئے جہاں حالیہ واقعات کے متعلق تصاویر اور ویڈیوز لگائی گئی تھیں۔ مقامی کشمیری عسکریت پسند برہان وانی کی نو جولائی کو سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد کشمیر میں ہونے والے احتجاج میں 40 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
دس روز سے جاری ہنگاموں میں 2000 کے قریب عام کشمیری شہری اور 1600 سکیورٹی اہلکاروں کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ کشمیر کے بعض علاقوں میں اب بھی کرفیو نافذ ہے اور موبائل فون اور انٹرنیٹ تک رسائی بدستور معطل ہے۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایک مقامی عسکریت پسند برہان وانی کی ہلاکت کے بعد کشمیر میں شروع ہونے والے ہنگاموں کے بعد حکومت نے اخبارات کی اشاعت کو عارضی طور پر معطل کر دیا تھا۔ اب انتظامیہ نے اخبارات کی اشاعت پر تین روز سے عائد پابندی کو اٹھا لیا ہے۔ تاہم اخبارات کے مدیران نے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے آزادی صحافت کی تحریری ضمانت دیے جانے تک اخبارات کی اشاعت شروع نہیں ہو گی۔

دی گارڈیئن کے مطابق کشمیری کہتے ہیں کہ فیس بک پر سینسر شپ نے معلومات پر پابندی کو بڑھاوا دیا ہے۔ کشمیری بلاگر اور پی ایچ ڈی کے طالب علم زرگر یاسر نے بتایا کہ ’کوئی اخبارات نہیں ہیں اور ہمارے پاس صرف دو ٹی وی چینل ہی آتے ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ جب انھوں نے وانی کے متعلق ایک بلاگ پوسٹ کو لنک کیا تو ان کا اکاؤنٹ ایک ہفتہ سے زیادہ عرصے کے لیے بلاک کر دیا گیا اور کچھ پوسٹس ہٹا دی گئیں۔ ’جب کوئی خبر نہیں ملتی، تو ہم عموماً معلومات کے لیے سوشل میڈیا کا رخ کرتے ہیں۔ اس طرح کم از کم ہم ایک دوسرے سے بات کر سکتے ہیں، ہم اپنے دوستوں اور خاندانوں سے ان کا احوال پوچھ سکتے ہیں۔ لیکن فیس بک نے میرا اکاؤنٹ معطل کیا ہے، تو میں اب ایسا کیسے کر سکتا ہوں؟‘

حکومتی پابندیوں سے بچ کر لوگوں کو معلومات پہنچانے کے لیے رپورٹر نیوز ویب سائٹ کو اپ ڈیٹ کر رہے تھے اور سوشل میڈیا پر پوسٹس لگا رہے تھے۔  
کشمیر مانیٹر کے لیے لکھنے والے صحافی مبشر بخاری کہتے ہیں: ’جب میں کل کام پر آیا، میں نے دیکھا کہ فیس بک نے وہ ویڈیو ہٹا دی تھی جو ہم نے لگائی تھی۔ اس ویڈیو میں علیحدگی پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی کو برہان وانی کی موت کی مذمت کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اس سے پہلے ہمارے فیس بک کے صفحے پر سے کبھی کوئی چیز نہیں اتاری گئی تھی۔‘

فیس بک جیسی سوشل میڈیا کمپنیوں پر بہت دباؤ ہے کہ وہ انتہا پسندوں کے پروپیگنڈے کو محدود کریں۔ لیکن ان پر یہ تنقید بھی ہوتی ہے کہ وہ بہت آگے چلے گئے ہیں۔ رضوان واجد کا اکاؤنٹ اس وقت بلاک کر دیا گیا جب انھوں نے برہان وانی کی تصویر کو اپنی پروفائل تصویر بنایا۔ وہ کہتے ہیں کہ فیس بک کا یہ عمل ’اسلام و فوبیا‘ یا اسلام مخالف جیسا ہے۔ ’مسلمانوں کو ہی کیوں بلاک کیا جاتا ہے؟ بھارتی فوج کے مظالم کی حمایت کر کے فیس بک یکطرفہ دکھائی دے رہی ہے۔ دورے لوگ جو چاہے کہہ سکتے ہیں لیکن جب مسلمان کچھ کہیں تو ہمیں بلاک کر دیا جاتا ہے۔ یہ نارمل نہیں ہے۔‘ایسا کچھ ہی کیلیفورنیا میں کشمیری طالبہ ہما ڈار کے ساتھ ہوا۔ جیسے ہی انھوں نے گذشتہ اتوار وانی کے جنازے کی تصاویر لگائیں تو بغیر کسی وارننگ کے ان کے پروفائل کو ڈیلیٹ کر دیا گیا۔

Post a Comment

0 Comments