All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی

پارلیمانی نظام میں منتخب ایوان ہی سب سے بڑا جمہوری اور آئینی ادارہ ہے جہاں
حکومتی معاملات اور امور سلطنت خوش اسلوبی سے ادا کرنے کے لیے قانون سازی کی جاتی ہے اور عوام کے مسائل و مصائب کے تدارک کے لیے اقدامات ہی نہیں پالیسی بھی مرتب کرنا اس ایوان کے فرائض میں شامل ہے۔ کئی بڑے جمہوری ممالک میں تو پارلیمانی روایات یہ ہیں کہ مرکزی اسمبلی کا اجلاس سال بھر جاری رہتا ہے اور کسی بھی قانون سازی یا حکومتی اقدام کے لیے صدارتی آرڈیننس کا سہارا نہیں لینا پڑتا۔ پاکستان میں پارلیمانی سال کی مدت 96 دن ہے کہ اس طرح قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس 96 دن ہونے ضروری ہیں اور تمام وزراء اور ارکان پر لازم ہے کہ اجلاس میں نہ صرف شریک ہوں بلکہ اپنے محکموں کی کارکردگی کے حوالے سے بھی ایوان کو اعتماد میں لیں اور ان سے رہنمائی حاصل کریں لیکن پاکستان کی پارلیمانی روایات کچھ اچھی نہیں رہی ہیں۔

گزشتہ پارلیمانی سال کے حوالے سے جو اطلاعات ملیں انھیں کسی صورت بہتر قرار نہیں دیا جا سکتا جو ایک جمہوری ملک کے لیے درست نہیں ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق وزیر اعظم جو قائد ایوان ہوتا ہے اس نے پارلیمانی سال میں صرف 9 بار ایوان میں شرکت کی۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی حاضری سب سے کم رہی وہ صرف 5 دن ایوان میں آئے، سابق اسپیکر فہمیدہ مرزا صرف 2 دن ایوان میں آئیں، چوہدری نثار علی خان 63 دن غیر حاضر رہے، حمزہ شہباز نے صرف 3 دن اسمبلی میں جانے کی زحمت گوارا کی، اسد عمر 11 دن غیر حاضر رہے حالانکہ وہ اس اسلام آباد کی نمایندگی کر رہے ہیں جس میں پارلیمنٹ کی عمارت بھی واقع ہے، اس حاضری کو پارلیمانی آئینہ ضرور قرار دیا جا سکتا ہے اور اسے اگر دیکھ بھی لیا جائے  تو اس قومی اسمبلی کے اراکین کی تنخواہوں اور مراعات میں سو فیصد سے زیادہ اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔
ارکان پارلیمنٹ نے اپنی تنخواہوں میں 200 فیصد اور الاؤنسز و مراعات میں کئی گنا اضافے کے علاوہ کئی مزید سہولتیں لینے کے لیے جو کامیاب پیشقدمی کی ہے اس پر یقینا ان کی تحسین کی جانی چاہیے کہ اس طرح انھوں نے بالواسطہ طور پر ہی سہی کم از کم یہ اعتراف ضرور کر لیا ہے کہ اگر 70 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ کے علاوہ ڈیلی الاؤنس، سفر الاؤنس، آفس مینٹی نینس، یوٹیلیٹی الاؤنس، ٹرانسپورٹ الاؤنس ایسی متعدد مراعات لینے کے باوجود ان کا گزارا نہیں ہوتا تو سرکاری اور نجی شعبے کے وہ ملازمین جن کی تنخواہوں اور مراعات کی ارکان پارلیمنٹ کے مشاہروں سے کوئی نسبت ہی نہیں اپنی گزر اوقات کس طرح کرتے ہوں گے۔

اس صورتحال میں عوام کے ذہنوں میں یہ سوال بھی ضرور اٹھتا ہو گا کہ اگر بڑے بڑے جاگیرداروں، صنعت کاروں اور کارخانہ داروں کی اکثریت پر مشتمل ارکان اسمبلی نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ نچوڑ کر رکھ دینے والی موجودہ مہنگائی کے دور میں کئی کئی لاکھ روپے کی تنخواہیں، الاؤنسز اور مراعات لے کر بھی ان کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہے تو کیا وہ اس امر پر بھی آمادہ ہوں گے کہ وہ ان لاکھوں ملازمین کے تلخی حالات کو کم کرنے کی طرف بھی توجہ کریں جن کی تنخواہیں چند ہزار ماہانہ سے زیادہ نہیں اور جب ان میں اضافے کا مرحلہ آتا ہے تو ان میں 5 سے 10 فیصد اضافہ کرنا بھی بجٹ پر بار بن جاتا ہے اور بجٹ میں جو اضافہ بادل نخواستہ کیا جاتا ہے اس میں بھی کسی نہ کسی بہانے کوئی نہ کوئی کٹوتی کر لی جاتی ہے۔

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ پاکستان میں ارکان پارلیمنٹ کے مشاہرے بہت کم ہیں کیونکہ انھیں نہ صرف غیر معمولی تنخواہیں اور مراعات دی جاتی ہیں بلکہ مختلف شعبوں کے بارے میں اپ ٹو ڈیٹ اطلاعات و معلومات حاصل کرنے کے لیے تحقیقی سپورٹنگ اسٹاف بھی دیا جاتا ہے جو اراکین پارلیمنٹ کو تمام تر زیر بحث مسائل کے حوالے سے پوری طرح باخبر رکھتا ہے اور وہ ہر قومی معاملے میں حکومت کی درست سمت میں رہنمائی کے لیے ہر طرح سے تیار ہوتے ہیں۔
مغربی ممالک کے ارکان پارلیمنٹ کو اتنی تنخواہیں، مراعات اور سہولتیں اس لیے دی جاتی ہیں کہ وہ ریاست کی طرف سے عائد ذمے داریوں کو محنت اور دیانتداری کے ساتھ ادا کر سکیں انھیں اپنے اس منصب پر فائز رہنے کے دوران کوئی دوسرا کاروبار کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اس لیے انھیں اپنے روز مرہ معاملات کی انجام دہی کے لیے مالی اعتبار سے ہر فکر سے آزاد رکھنے کی سعی کی جاتی ہے، لیکن پاکستان میں عمومی طور پر اراکین اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اراکین اسمبلی کی عمومی کارکردگی بہت ناقص ہے۔

اکثروبیشتر وہ اسمبلی  کے اجلاس  سے غیر حاضر رہتے ہیں کئی ایک تو مہینوں تک ایوان میں نظر نہیں آتے اور اگر آ بھی جائیں تو کسی بھی قومی مسئلے پر ان کی تیاری نہیں ہوتی اور اسی وجہ سے وہ کسی بھی اہم سوال کا اطمینان بخش جواب دینے سے قاصر ہوتے ہیں، کئی اراکین اسمبلی اور وزرائے اعلیٰ کو اجلاس کے دوران اونگھتے ہوئے بھی پایا گیا ہے، امور مملکت کی انجام دہی میں ان کی اس عدم دلچسپی اور ناقص کارکردگی کے باعث عوام ان کے اعزازیوں، تنخواہوں اور مراعات میں اضافے پر معترض ہوتے ہیں اگر وہ اپنی کارکردگی کو بہتر بنائیں۔ سنگل سورس آف انکم پر اکتفا کرتے ہوئے اپنے آپ کو ہر قسم کے نجی کاروبار سے علیحدہ ہو کر اپنی توانائیوں کو وسیع تر قومی و ملکی مفاد میں استعمال کریں تو عوام ان کے اعزازیے اور تنخواہوں میں اضافے کو کبھی ناپسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھیں گے۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہم عرصہ دراز سے حکمت عملی کے نام پر حقائق کی لاش پر مصلحت کا کفن ڈالتے چلے آ رہے ہیں اور تاریخ دم سادھے دیکھ رہی ہے کہ برسہا برس کئی مفلوج اذہان کی آماجگاہ بنے رہنے والے اس کم نصیب ملک سے کوئی آفتاب تازہ طلوع ہوتا ہے یا نامرادی اور بے یقینی کی رات لمبی ہوتی چلی جائے گی۔ پانی، بجلی، گیس، صحت، تعلیم اور غربت و افلاس کے ہوش ربا مسائل سے برسر پیکار ہمارے عوام جس طرح کی زندگی گزار رہے ہیں وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ان کے مسائل اور مصائب کا تذکرہ ملکی ایوانوں میں دیکھنے اور سننے کو نہیں ملتا، کسی منسٹر،  چیف منسٹر یا پھر گورنر کو عوام کے دکھ درد کا پرچار کرتے اور اسے ختم کرنے کا کوئی ہنر کسی اہل وطن نے کبھی نہیں دیکھا، ایسے میں ان کی تنخواہوں میں اضافہ کس کارکردگی کی وجہ سے؟

کون نہیں جانتا اس وقت پاکستان میں دو کروڑ سے زائد ایسے افراد ہیں جن کی روزانہ آمدنی 75 یا 80 روپے سے زیادہ نہیں اور ایک عام آدمی (مڈل کلاس) کی روزانہ آمدنی ایک سے ڈیڑھ سو روپے یومیہ ہے پاکستان کے 7 کروڑ 70 لاکھ لوگ خوراک کی شدید کمی کا شکار ہیں اور اب ان کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو تین وقت کا کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا۔ یہ ایک چشم کشا حقیقت ہے کہ پاکستان کے ایک سے ڈیڑھ کروڑ گھروں میں صرف ایک بار چولہا جلتا ہے اور ’’آلو سالن‘‘ بنانے والے گھرانے بھی لاکھوں میں شمار ہوتے ہیں۔

پاکستان کا شمار دنیا کے ان 35 ممالک میں ہوتا ہے جو خوراک کے شدید بحران کا شکار ہیں۔ اور ہمارے حکمرانوں اور وزیروں اور افسر شاہی سے وابستہ لوگوں کی عیش و عشرت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے بات وہی آ جاتی ہے کہ اپنے گندے کپڑے دوسروں کے سامنے دھونے سے اپنی ہی سبکی ہوتی ہے۔ تاہم ہماری قوم صبر کرنے کی عادی ہے  لیکن اسلام میں ظلم کے خلاف صبر کی تلقین نہیں کی گئی ورنہ حضرت امام حسینؓ کربلا میں نہ جاتے۔

شاہد سردار

Post a Comment

0 Comments