All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

دی گریٹ بل فائٹر نواز شریف : وسعت اللہ خان

نواز شریف حکومت پاناما لیکس کی غیرجانبدار و شفاف چھان بین میں کس قدر سنجیدہ ہے اس کا انداز چیف جسٹس آف پاکستان کو لکھے گئے خط میں مجوزہ کمیشن کی شرائطِ کار (ٹرمز آف ریفرنس) کو دیکھ کر ہو جاتا ہے۔ یعنی کمیشن بطور عدالت کام کرے گا۔ معاونت کے لیے کسی بھی شہری، عہدیدار، مالیاتی ماہر یا کسی بھی ادارے کی کوئی بھی دستاویز طلب کر سکے گا۔ حتمی رپورٹ مرتب کرنے کے لیے کمیشن اپنی معیاد خود طے کرے گا۔

کمیشن ان تمام پاکستانی شہریوں اور سمندر پار پاکستانیوں کے بارے میں چھان بین کرے گا جن کی یا اہلِ خانہ کی آف شور کمپنیاں اب تک سامنے آئی ہیں۔ کمیشن ان تمام بینک قرضوں کو بھی پھٹکے گا جو سرکاری عہدوں پر فائز سابق و حاضر شخصیات یا اہلِ خانہ نے معاف کروائے۔ کمیشن پاکستان سے بیرونِ ملک منتقل ہونے والی ان تمام رقومات کا بھی سراغ لگائے گا جو بدعنوانی، کمیشن یا رشوت خوری سے وصول کی گئیں۔

یعنی کمیشن کو اتنے بڑے دائرے میں دھکیل دیا گیا ہے کہ اسے کسی حتمی نتیجے پر پہنچ کے لگ بھگ سوا آٹھ لاکھ صفحات کی رپورٹ مرتب کرنے کے لیے کم ازکم دو سو سال درکار ہیں۔ حالانکہ اس میں سے بیشتر چھان پھٹک کوئی بھی مستعد حکومت اپنے طور پر کر سکتی ہے، مگر پھر عدالتی کمیشن کیا کریں گے؟ حکومت نے پاناما لیکس کے نام پر کمیشن کا دائرہ کار اسی طرح طے کیا ہے جس طرح تھانیدار ایک من ککڑی چوری کرنے والے کسی ملزم پر شہر بھر کی چوریاں، ڈکیتیاں، دھماکے اور دہشت گردیاں لاد دیتا ہے تاکہ اپنے سر سے بلا ٹلے اور ملزم زندگی بھر پِھرکی بنا رہے۔
پاناما لیکس کے کھیل میں منتشر الخیال حزبِ اختلاف پی آئی اے کے اس مسافر کی طرح ہے جو ہمت کر کے تیسری بار پانی مانگ لے تو اکتائی جھنجھلائی ایئر ہوسٹس اس کے آگے لبالب جگ زور سے دھر دیتی ہے۔ یعنی لے مر پی!
شکر ہے ٹرمز آف ریفرنس میں شام کی خانہ جنگی، سعودی امریکہ تعلقات میں کشیدگی، بلوچستان میں مبینہ بھارتی مداخلت اور ایکواڈور میں آنے والے زلزلے کے پاناما لیکس سے تعلق کی تحقیقات کا کام شامل نہیں کیا گیا۔ ٹرمز آف ریفرنس میں سبھی کچھ ہے علاوہ شریف خاندان پر عائد الزامات کی براہِ راست ترجیحاتی چھان پھٹک کی واضح خواہش کے۔

یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ بل فائٹنگ سپین اور اس کی سابق نوآبادیات میں کتنا مقبول کھیل ہے۔ جونئیر بل فائٹر کو توریرو کہتے ہیں اور استاد بل فائٹر کو میٹا ڈور۔ لوگ باگ اپنی ذات اور مسائل میں اس قدر غرق ہیں کہ شاید ہی کسی کا دھیان اس جانب گیا ہو کہ پاکستان میں بل فائٹنگ کا کھیل باضابطہ طور پر نواز شریف نے متعارف کرایا۔ ان سے پہلے مرغوں کی لڑائی و بٹیر بازی سے جی بہلایا جاتا تھا، لیکن نواز شریف نے بل فائٹنگ کی تربیت اور میچوں کے لیے پہلا خصوصی ایرینا اپنے چاؤ سے بنوایا۔ اس ایرینا کا سنہری موٹو ہے ’آ بیل مجھے مار۔۔۔‘
ایرینا میں چاروں طرف بڑی بڑی پینٹنگز آویزاں ہیں۔ ایک میں میٹا ڈور نواز شریف اپنے وقت کے چیمپیئن سانڈ غلام اسحاق خان کو لال کپڑا دکھا رہے ہیں۔ دوسری پینٹنگ میں جہانگیر کرامت کے دھڑ پر چھوٹے چھوٹے نیزے گاڑ کے فاتحانہ دیکھ رہے ہیں۔ تیسری پینٹنگ میں پرویز مشرف نامی طاقتور بیل نے نواز شریف کو سینگوں میں پرو کے ہوا میں اٹھا رکھا ہے۔ چوتھی پینٹنگ میں نواز شریف پرویز مشرف کو سینگوں سے پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر پیر ہوا میں ہیں۔

پانچویں پینٹنگ میں مسکراتے نواز شریف لال کپڑا لہرا لہرا کر ایک تنومند خاکی بیل کو اشتعال دلانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر وہ بیل ان کی طرف دیکھ ہی نہیں رہا۔ ان دنوں ایرینا کی چھٹی پینٹنگ پر کام ہو رہا ہے۔ نتھنوں سے بھاپ اور کھروں سے چنگاریاں نکالتا بیل پوری طاقت سے میٹا ڈور نواز شریف کی جانب بڑھ رہا ہے اور نواز شریف اس سے ڈرنے کے بجائے مسکرا رہے ہیں۔ بیل کے ایک سینگ پر پاناما اور دوسرے پر لیکس لکھا ہے۔

ایک اچھے بل فائٹر کی بنیادی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے بجائے سانڈ کو تھکانے کی کوشش کرے اور جب سانڈ تھک کے گر پڑے تو کام اتار دے۔ پاناما لیکس کے بھینسے کے ساتھ بھی یہی حکمتِ عملی اپنائی جا رہی ہے۔ یعنی کبھی یکطرفہ کمیشن کا رومال دکھاؤ، کبھی نئے کمیشن کی یکطرفہ شرائطِ کار کے لال کپڑے سے مشتعل کر کے اپنے پیچھے دوڑواؤ ۔ حتٰی کہ بھینسا تھکن سے لڑکھڑانے لگے۔

جیت گئے تو فاتح، روندے گئے تو پھر مظلوم۔

وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی


Post a Comment

0 Comments