All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

بھارت ، امریکا ،ایران … ہدف بلوچستان

لوگوں کو حیرت ہے کہ بھارت پاکستان میں تخریب کاری اور دہشت گردی کے لیے
ایران کی سرزمین استعمال کر رہا تھا، لیکن وہ لوگ جو صد ہا سال سے بلوچستان میں رہتے ہیں اور وہ پڑوسی ایرانیوں کو جانتے ہیں، ان کے لیے یہ بالکل چونکا دینے والا واقعہ نہیں تھا کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کا ایک اعلیٰ سطح کا عہدیدار’’کل بھوشن یادیو‘‘ چاہ بہار میں بیٹھ کر بلوچستان میں علیحدگی پسندی اور فرقہ وارانہ کارروائیوں کے لیے مالی اور تکنیکی مدد فراہم کر رہا تھا اور اس کے حوصلے اسقدر بلند ہو گئے تھے کہ وہ بے دھڑک پاکستان آ جا رہا تھا۔

ایران اور پاکستان کا بارڈر کوئی افغانستان کی طرح نہیں ہے کہ جس سے ہر کوئی مختلف غیر معروف راستوں سے ادھر ادھر آتا جاتا رہا ہے۔ ایرانی انقلاب کے بعد ایران نے پاکستان کے ساتھ اپنی سرحد کو شاندار اور مضبوط قسم کی تاروں سے بنی جالی سے بند کر دیا تھا جس پر رات دن ان کا گشت جاری رہتا تھا۔ 2007ء میں ایران نے اپنی سرحد پر 3 فٹ چوڑی اور دس فٹ بلند دیوار کھڑی کرنے کا منصوبہ شروع کیا جو سات سو کلو میٹر لمبی سرحد پر بنائی جانا تھی۔ اس پوری سرحد کو ایرانی ہی کنٹرول کرتے ہیں اور کوئی ان کی مرضی کے بغیر سرحد پار نہیں کر سکتا۔

اس لیے کسی بھارتی کا بھیس بدل کر پاکستانی سرحد میں داخل ہونا ایرانی سرحدی عہدیداران جنھیں مرزبان کہتے ہیں، ان کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں۔ البتہ وہ اسمگلروں کے قافلوں میں گھس کر آ سکتا ہے۔ لیکن یہ اس قدر خطرناک ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے اسمگلروں نے سدھائے ہوئے اونٹ پالے ہوئے ہیں۔
وہ انھیں افیم وغیرہ کھلاتے ہیں اور پھر بارڈر پر کسی ایسی جگہ سے جالی وغیرہ توڑ کر داخل کرتے ہیں جہاں ایرانی سپاہ کی آمد و رفت کم ہو۔ اونٹ تیز رفتاری سے دوڑتے ہوئے ایرانی سرحد میں موجود کسی گودام کے کھلے گیٹ میں داخل ہو جاتے ہیں، گیٹ بند ہو جاتا ہے، سامان اترتا ہے، لادا جاتا ہے اور اونٹ واپس روانہ کر دیا جاتا ہے۔ اس سارے عرصے میں کوئی اونٹ پر سوار موجود نہیں ہوتا۔ اسی لیے آپ اگر براستہ تفتان ایران میں داخل ہوں تو آپ کو اردگرد صحرا میں پاسداران یا کسٹم حکام کی فائرنگ سے مرے ہوئے اونٹ نظر آئیں گے۔
ایران سے پٹرول بھی ایرانی اور پاکستانی حکام کی سرپرستی میں پاکستان میں اسمگل ہوتا ہے۔ سرحد کے ساتھ ساتھ پٹرول پمپ بنائے گئے ہیں جہاں بلوچ عوام گدھا گاڑیوں پر ٹینکیاں رکھے پٹرول بھرواتے ہیں، پھر انھیں ڈرموں میں ڈال کر پک اپ پر رکھ پاکستان اسمگل کیا جاتا ہے۔

ایران میں بسنے والے بلوچ عوام کی یہی گزر بسر اور یہی معاشرتی حیثیت ہے۔ ایران میں ان کی تعداد اتنی ہے جتنی پاکستان میں بلوچوں کی، لیکن کھیتی باڑی، اسمگلنگ اور چھوٹے موٹے کاروبار سے زیادہ انھیں آگے بڑھنے نہیں دیا جاتا۔ تمام سرکاری عہدوں پر فائز لوگ نسلی ایرانی ہوتے ہیں جو دیگر صوبوں سے آتے ہیں۔ یہاں تک کہ محفلوں، سرکاری دفاتر اور دیگر جگہوں پر بلوچی بولنا بدتہذیبی کے زمرے میں آتا ہے جس کی سزا قطع تعلق پر ختم ہوتی ہے۔

پاکستان میں  میڈیا پر بیٹھا کوئی مبصر، تجزیہ نگار یا پاکستانی میں ایران کا بلا وجہ دفاع کرنے والااگر یہ دعویٰ کرے کہ چاہ بہار میں مقیم بھارتی را کا ایجنٹ ایرانی حکومت کے اہلکاروں کی مدد کے بغیر بلوچستان میں گھومتا رہا، یہاں سرمایہ اور خاص طور پر اسلحہ بھی فراہم کرتا رہا تو اس جھوٹ پر پاکستان میں آباد باقی لوگ تو یقین کر لیں گے جن کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہے لیکن مند سے لے کر رباط تک پھیلے سات سو کلو میٹر پر مشتمل ایرانی بارڈر کے اس طرف رہنے والے بلوچوں کو یقین نہیں آ سکتا کہ وہ تو روز اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھتے ہیں۔

آپ مند سے سفر کرنا شروع کریں، پھر کرک، گراوٹ، ماشخیل، تالاب، تفتان سے ہوتے رباط تک جائیں اور وہاں کی مقامی آبادی سے ایرانی سرحدی گارڈز کی پاکستان میں مداخلت کے بارے میں سوال کریں تو وہاں آپ کو ناقابل یقین باتیں سننے کو ملیں گی۔ کیسے پاکستان کے مفرور قاتل، چور، اسمگلر اور جرائم پیشہ افراد، ایران میں پناہ لیتے ہیں ، کس طرح گلگت بلتستان سے لے کر پاکستان کے چپے چپے سے لوگ وہاں جاتے ہیں۔ بارڈر کے اردگرد رہنے والے بلوچ سب جانتے ہیں کہ زائرین کون ہوتے ہیں اور دوسرے لوگ کون اور کہاں رہتے ہیں۔

یہ سب تو گزشتہ تیس سالوں سے چلتا چلا آ رہا ہے۔ بھارت اور ایران کے رومانس کی کہانی زیادہ پرانی نہیں۔ یوں تو ہندوستان سے ایران کے رشتے اس وقت استوار ہوئے تھے جب سے صفوی بادشاہ تہماسپ نے جلا وطن ہمایوں کو مدد فراہم کی تھی اور اس نے برصغیر کے سب سے قابل حکمران شیر شاہ سوری کے جانشینوں کو شکست دے کر اقتدار واپس حاصل کر لیا تھا۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد یہ تعلق مختلف وجوہ کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ زیادہ مضبوط ہو گیا۔

دونوں ملک سرد جنگ کے زمانے میں امریکا کے ساتھ کھڑے تھے، اس لیے ایران نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا جب کہ بھارت روس اور غیر جانبدار ممالک کی تنظیم سے وابستہ تھا اس لیے بھارت کے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی 15 مارچ 1950ء یعنی آزادی کے تین سال بعد قائم ہوئے۔ انقلاب ایران کے بعد بھارت کے ایران سے تعلقات اچانک بہتر ہوئے اور لکھنؤ اور قم کے درمیان ایک مضبوط تعلق قائم ہوا۔ چونکہ بھارت صدام حسین کے عراق کے ساتھ تھا اس لیے تعلقات میں کمی آئی۔ لیکن کچھ عرصے بعد دونوں ممالک کو ایک نکتے پر اکٹھا ہونا پڑا۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت بن گئی جو پاکستان کے لیے ایک بہت بڑی نعمت تھی۔

گزشتہ ڈیڑھ سو سال بعد پاکستان کا مغربی بارڈر محفوظ ہوا تھا۔ طالبان کی حکومت کی مخالفت میں ایران شمالی اتحاد کی ہر طریقے سے مدد کر رہا تھا۔ بھارت بھی افغانستان میں طالبان کی شکست چاہتا تھا۔ یہاں سے بھارت اور ایران کا وہ رشتہ مستحکم ہوا جس میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا گیا۔ شمالی اتحاد کو ہر طرح کی امداد تین ملکوں سے میسر تھی، بھارت، ایران اور امریکا، تینوں کا یہ خفیہ معاشقہ کئی سال چلتا رہا۔ یہی وہ دور تھا جب ایرانی سفارت کاروں کے روپ میں پاسداران باقاعدہ افغانستان میں ٹریننگ دیتے۔

گیارہ ستمبر کے بعد جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو کامیابی کے بعد ایرانی پاسداران کے سربراہ نے بیان دیا تھا کہ ہم امریکیوں کے شانہ بشانہ طالبان کے خلاف لڑے تھے۔ فتح کے بعد ایران نے بیس ہزار افغانی سپاہیوں کو ٹریننگ دی۔ باربرا سلاون Barbra Slavin   کی فتح کی وہ تفصیلی رپورٹ کہ کس طرح ایران نے افغانستان میں موجود طالبان کے بارے میں نیٹو اور امریکا کو معلومات فراہم کیں اور بھاگنے والے القاعدہ کے رہنماؤں کو پکڑ کر امریکا کے حوالے کیا۔

ایران کا طالبان مخالف بننے والی حکومت پر اس قدر اثر و نفوذ تھا کہ جب امریکا نے فتح کے بعد جرمنی کے شہر بون میں حکومت سازی کے لیے کانفرنس بلائی تو امریکا چاہتا تھا کہ حامد کرزئی حکومت بنائے۔ شمالی اتحاد نہیں مان رہا تھا۔ امریکی نمایندہ جمیز ڈوبنز James Dobbins کہتا ہے کہ ہمارے کہنے پر ایرانی نمایندہ جاوید ظریف شمالی اتحاد کے نمایندے یونس قانونی کو ایک جانب لے گیا، اس کے کان میں سرگوشی کی اور پھر ایک منٹ بعد معاہدہ طے پا گیا۔ شمالی اتحاد کی حکومت بھارت کا بھی ایک خواب تھا اور ایران کا بھی منصوبہ۔

طالبان کی حکومت ختم ہوئی تو اس کے بعد 15 اگست کی پریڈ پر لال قلعہ دہلی سے وزیراعظم اٹل بہاری باجپائی نے للکارتے ہوئے کہا تھا کہ اے پاکستان کے حکمرانوں کہاں ہیں تمہارے طالبان جن کے بل بوتے پر تم ہمیں ڈراتے تھے‘‘۔
امریکا، ایران اور بھارت یہ تینوں اس مسئلے پر پاکستان کے خلاف متحد تھے۔ ہر کسی کا اپنا اپنا مفادہے اور ہر کوئی آج بھی اسی مفاد کو حاصل کرنے میں لگا ہوا ہے۔ یہ مفاد اس قدر مضبوط ہے کہ پوری دنیا نے ایران پر پابندیاں لگا رکھی تھیں لیکن بھارت ایرانی پٹرول خریدتا تھا۔ 2007ء میں یہ تجارت 13 ارب ڈالر کی تھی۔ 

لیکن 2008ء متحدہ عرب امارات کے ذریعے یہ تجارت30 ارب ڈالر تک جا پہنچی۔
بھارت کا چالیس فیصد تیل ایران سے آتا رہا۔ جون 2009ء میں بھارت نے ایران میں تیل اور گیس کے ذخائر پر کام کرنے کے لیے پانچ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا آغاز کیا۔ امریکا نے بھارت پر الزام لگایا کہ وہ پابندیوں کے باوجود ایرانی تیل خرید رہا ہے اور عالمی بینکاری نظام کے بجائے Asian  Clearing Unionکو استعمال کرتا ہے۔

یہ امریکی غصہ بھی ایک دکھاوا تھا۔ بھارت نے جواب دیا کہ ایرانی ایٹمی پروگرام سے بھارت کو کوئی خطرہ نہیں اور وہ ایران سے تیل بھی خریدتا رہا اور وہاں سرمایہ کاری بھی کرتا رہا۔ امریکا، ایران اور بھارت کا مفاد ایک اور جگہ پر مشترک ہوتا تھا اور وہ ہے بلوچستان اس خطے کی اہمیت اس وقت اور زیادہ اہم ہو گئی جب پاکستان نے چین کے ساتھ گوادر سے سنکیانگ تک راہداری کا منصوبہ شروع کیا۔

اس کے ٹھیک ایک ہفتے بعد بھارت نے ایران سے مل کر چاہ بہار کی بندرگاہ پر کام شروع کیا اور اس بندرگاہ کا انتظام بھارت کے حوالے کر دیا گیا۔ چین پاکستان راہداری کو ناکام بنانے کے لیے بھارت نے چاہ بہار، ملاک، زرنج اور دلارام کے راستے 213 کلو میٹر روڈ پر 750 ملین ڈالر سے کام شروع کیا تا کہ افغانستان کے راستے وسطی ایشیا کو ملایا جائے۔

یہ سب اس لیے شروع کیا گیا کہ گوادر سنکیانگ راہداری کی ناکامی بہت ضروری تھی اور اس کے لیے بلوچستان پر توجہ مرکوز کی گئی۔ اس لیے مجھے تو کوئی تعجب نہیں ہوا اور نہ ہی بلوچستان کے بلوچوں کو کوئی حیرت ہے کہ اسی چاہ بہار سے ایک ’’را‘‘ کا ایجنٹ پاکستان میں علیحدگی، تخریب کاری اور دہشت گردی کی سرپرستی کرتا رہا۔ اس میں تو تینوں ملکوں کا مفاد وابستہ تھا، بھارت، ایران، امریکا۔ تینوں کا ہدف ایک ہے بلوچستان۔

اوریا مقبول جان

Post a Comment

0 Comments