All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

کرکٹ جان کیوں لے لیتی ہے؟

ایک سرکردہ کرکٹ رائٹر ڈیوڈ فرتھ نے لکھا کہ کئی سابق کرکٹر خود کشی کر چکے ہیں۔
انھوں نے اس کے بعد مزید تحقیق کی اور انھیں اس بارے میں اور شہادتیں ملیں۔
کتاب چھپنے کے 25 سال بھی اس کتاب کے نتائج پر بحث ہو رہی ہے۔ لیکن اس بات پر کوئی شک نہیں کہ جس طرح کرکٹ ذہنی صحت پر اثر انداز ہوتی ہے اس طرح کوئی اور کھیل نہیں ہوتا۔

لیکن کیا یہ اس کھیل کی فطرت ہے یا یہ اس قسم کے لوگوں کو ہی اپنی طرف متوجہ کرتا ہے؟

کرکٹرز کیوں اتنے غیر محفوظ ہیں؟
پوری دنیا میں ان کرکٹروں کے متعلق اعداد و شمار میں اتار چڑھاؤ ہے جو نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔ لیکن اس پر کوئی شبہ نہیں کہ کسی اور کھیل کس نسبت نامور کرکٹروں کی ایک بڑی تعداد نے اپنی مشکلات اور جدو جہد کے متعلق زبان کھولی ہے۔
اس سے یہ سوالات جنم لیتے ہیں کہ کیا کرکٹ کی فطرت میں ایسا کچھ ہے جس سے اسے کھیلنے والے نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں، اور بہت سے حالیہ اور سابق کرکٹر یہ سمجھتے ہیں کہ واقعی ایسا ہی ہے۔
انگلینڈ کے مشہور آل راؤنڈر اینڈریو فلنٹوف سمجھتے ہیں کہ کس طرح اس کھیل میں کامیابی اور ناکامی ان کے ذاتی تشخص پر اثر انداز ہوئی۔

انھوں نے 2007۔2006 میں انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان ہونے والی سیریز، جس میں وہ کپتان تھے، کے بارے میں بات کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا: ’جب چیزیں ٹھیک جا رہی ہوتی ہیں تو سب ٹھیک ہے۔ جب ایسا نہیں ہوتا تو یہ آپ کی ذاتی شناخت کے لیے بڑا چیلنج بن جاتا ہے۔ 

 میں ڈریسنگ روم میں ایسے شخص کی طرح بیٹھا تھا جو ہر کسی کو اپنے ساتھ نیچے کھینچنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اگر میں پیچھے مڑ کر دیکھتا اور کہتا:  دیکھو ساتھیو، میں واقعی بڑی مشکل میں ہوں، تو سب صدمے سے دو چار ہو جاتے۔ اس لیے میں نے سوچا کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ 
سابق کرکٹر جیمز گریم براؤن اب ایک ڈرامہ نویس بن گئے ہیں۔ وہ اپنی حالیہ پیشکش ’وین دی آئی ہیز گون‘ میں انگلینڈ کے ایک سابق کھلاڑی کولن ملبرن کی مثال پیش کرتے ہیں جن کی گیند لگنے سے ایک آنکھ میں بینائی کم ہو گئی تھی اور انھیں کھیل سے ریٹائر ہونا پڑا تھا۔

گریم براؤن کے اپنے ہی الفاظ میں کولن میلبرن نے اس وجہ سے شراب پی پی کر اپنے آپ کو مار دیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کھیل کا یہ حصہ انتہائی ذاتی نوعیت کی جنگ ہے۔
  
سابق پروفیشنل کھلاڑی بتاتے ہیں کہ کرکٹ میں ہر وقت کھلاڑی کو دباؤ کا سامنا رہتا ہے
انھوں نے کہا: ’یہ ایک پر تجسس کھیل ہے۔ ویسے تو اس کھیل کے متعلق لگتا ہے کہ یہ ٹیم کا کھیل ہے لیکن اس کے باوجود حقیقت میں انفرادی پرفارمنس ہی نظر آتی ہے۔  جب آپ بیٹنگ کے لیے جاتے ہیں تو آپ کو خود ہی کرنا ہے، جب بولنگ کرتے ہیں تو آپ اپنے آپ پر ہی انحصار کر سکتے ہیں۔
 اگرچہ دوسرے لوگ آپ کے اردگرد موجود ہوتے ہیں لیکن آپ کسی اور کو گیند نہیں دے سکتے۔ سو کسی حد تک آپ دوسرے کھیل کھیلنے والے کھلاڑیوں کی نسبت زیادہ عیاں ہو جاتے ہیں۔ 
بیٹسمینوں کے لیے چاہے وہ جتنا اچھا ہی کھیل رہے ہوں، ایک شاٹ یا ایک اچھی گیند بری خبر ثابت ہو سکتی ہے۔ اور اسی وجہ سے ہر گیند بہت زیادہ دباؤ کا باعث بنتی ہے۔
نیوزی لینڈ کے کھلاڑی ایئن او برائن کرکٹ اور ذہنی دباؤ پر بلاگ لکھتے رہتے ہیں۔ وہ اس بات سے متفق ہیں کہ ’کرکٹر زیادہ وقت یہ سوچنے میں صرف کرتے ہیں کہ ان کی اگلی ناگزیر ناکامی کیا ہو گی نہ کہ اگلی کامیابی۔ 
 یہ کرکٹروں کی نفسیات ہے۔ 

دریں اثنا پیٹر ہیئٹر، جنھوں نے مشترکہ طور پر کرکٹر مارکوس ٹریسکوتھک کی سوانح عمری ’کمنگ بیک ٹو می‘ لکھی ہے، جس میں انگلینڈ کے سابق اوپنر نے اپنے ذہنی دباؤ کے متعلق واضح بتایا ہے، کہتے ہیں کہ انھیں یقین ہے کہ کرکٹ بڑی شدت والا کھیل ہے جو کھلاڑی کی زندگی پر اس طرح حاوی ہو جاتا ہے جس طرح کوئی اور کھیل نہیں ہوتا۔
 آپ اس کے متعلق ہر وقت سوچتے رہتے ہیں۔ 

 کرکٹر بڑے خود احتسابی ہوتے ہیں۔ ان کے حریف انھیں کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہیں یا بے عزت کرتے ہیں۔ یہ دو بدو تجربہ بہت ذاتی ہو جاتا ہے۔ 
ان کے مطابقٹوور کے دوران بڑے پیمانے پر تنہائی کا احساس ہوتا اور عالمی شہروں کے بہترین ہوٹل بھی فور سٹار جیلوں کا تصور دیتے ہیں۔
’یہ حقیقی زندگی نہیں ہے۔ آپ اپنے آپ کو منقطع کر لیتے ہیں۔ 
چیزیں کس طرح بدلی ہیں؟
ٹریسکوتھک کے اس بارے میں بولنے سے ہی اس مسئلے کے شدت کے متعلق آگاہی پیدا ہوئی۔ اس کے بعد اس کو تسلیم کیا گیا کہ یہ کھیل کھیلنے والے بھی ذہنی بیماری کے حوالے سے اتنے ہی غیر محفوظ ہیں جتنا کہ کوئی بھی۔
ہیئٹر کہتے ہیں کہ اس وقت کئی لوگوں کو یہ بات سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ کرکٹر کیوں ذہنی دباؤ کا شکار ہیں، اور یہ ٹریسکوتھک کی کتاب تھی جس نے یہ تصور بدلا۔

اس کے بعد کئی اور کرکٹر بھی سامنے آئے اور اپنی ذہنی صحت کے مسائل کے بارے میں بات کی۔ ’انھوں نے بنیادی طور پر اس بحث کا آغاز کر دیا۔ 
گریم براؤن اس سے متفق ہیں اور کہتے ہیں کہ ٹریسکوتھک کی کتاب کے بعد اس مسئلے کے متعلق رویہ کافی بدلا ہے اور بعد میں دوسرے کھلاڑی سامنے آئے ہیں جن میں کوان اور او برائن اور مائیکل یارڈی اور جوناتھن ٹراؤٹ شامل ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ ڈیوڈ فرتھ کی کتابیں بہت خوفناک ہے، لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ اس نے خودکشیوں کی تعداد کے حوالے سے کرکٹ پر ایک غیر منصفانہ ٹیگ بھی لگا دیا ہے۔

’ظاہر ہے کہ جنوری میں ٹام ایلن کی خود کشی کی خبر بہت تباہ کن تھی۔۔۔ ہم یہ سب کام کر کے اپنے بھولپن میں یہ امید کر رہے تھے کہ اب کوئی اور خود کشی نہیں ہو گی۔ 

چیزیں کس طرح بدلی تھیں؟
ٹریسکوتھک کی کتاب سے بھی پہلے انگلینڈ کی پرفیشنل کرکٹرز ایسوسی ایشن کے جیسن راٹکلف ان کرکٹروں کی مدد کر رہے تھے جنھیں ذہنی صحت کے مسائل تھے۔

فرتھ کی تحقیق
اب تک 80 کھلاڑی خود کشی کر چکے ہیں
بعد میں 2008 میں آنے والی کتاب سائلنس آف دی ہارٹ میں 151 کھلاڑیوں کی شناخت کی گئی
خاص طور پر انھوں نے اس خوف کو اہم قرار دیا جو کھلاڑی کو کوچ سے اس کے متعلق بات کرنے سے روکتا ہے۔ انھوں نے ایک رازدارانہ ہیلپ لائن بھی قائم کی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں نہیں سمجھتا تھا کہ لوگ ڈریسنگ روم میں اپنے مسائل کے متعلق بات کریں گے، کیونکہ وہاں مسابقتی ماحول ہوتا ہے۔ 
 ڈر کہ کوچ کیا سمجھے گا، اس بات کا خوف کہ یہ کانٹریکٹ پر کس طرح اثر انداز ہو گا، اور ڈریسنگ روم سے بات آسانی سے باہر جا سکتی ہے۔ آپ کسی کو رازداری میں کچھ بتاتے ہیں اور آخرکار وہ ہمیشہ باہر نکل جاتی ہے۔ 

ہیئٹر بھی سمجھتے ہیں کہ ڈریسنگ روم میں مسابقتی ماحول ایک بڑا مسئلہ ہے۔
’آپ نہیں چاہتے کہ کوچ کو پتہ چلے کہ آپ مشکل میں ہیں۔ اس طرح آپ کی ٹیم کے دوسرے ساتھی آپ کی اہم سپورٹ ہیں لیکن ساتھ ساتھ آپ ان سے اکثر ٹیم میں جگہ کے لیے مقابلہ بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ 

Post a Comment

0 Comments