All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

قوم کسی خوش فہمی میں نہ رہے

پاکستانی قوم کی یہ بد قسمتی ہے کہ اُسے لوٹنے اور تباہ و برباد کرنے والے کوئی اور نہیں ہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جنھیں عوام بڑی آرزؤں اور تمناؤں کے ساتھ اِس اُمید پر اپنا رہنما منتخب کرتے ہیں کہ وہ اُنہیں غربت و پسماندگی سے باہر نکال کر ترقی یافتہ اور خوشحال قوم بنائیں گے، لیکن یہی لوگ ملک و قوم کے حالات بدلنے کی بجائے صرف اپنے حالاتِ بدلنے کی تدبیریں کرتے ہوئے، امیر سے امیر ہوتے چلے گئے اور ملک و قوم کو مفلس اور قلاش کر کے رکھ دیا۔ پھر اُس پر طرّہ یہ کہ بھولے بھالے عوام کو ہر بار یہ یقین دلایا جاتا رہے کہ ملکی دولت لوٹنے والوں اور کرپشن کرنے والوں کو معاف نہیں کیا جائے گا۔

پرویز مشرف کے دور میں تو اِسی کو بنیاد بنا کر ایک سات نکاتی ایجنڈا بھی ترتیب دیا گیا تھا اور اِسی کے سہارے اُنہوں نے اپنے اقتدار کے نو سال بھی گزار لیے۔ کسی بڑے اور با اثر کرپٹ شخص کو وہ سزا کیا دلاتے بلکہ اُنہیں کرپشن کے الزامات سے بری کرنے کے لیے ملکی تاریخ کا بدنام ترین فرمانِ  بھی جاری کر دیا جس کی کراماتی خصوصیات کی بدولت ہزاروں ملزم اپنے جرائم کی سزا بھگتے بناء ہی معصوم اور بے گناہ قرار پا گئے۔

اِسی ’’این آر او‘‘ کی برکات کے طفیل زرداری صاحب بھی نہ صرف اِس ملک میں بلاتاخیر اور بلاروک ٹوک واپس آ گئے بلکہ اپنی ذہانت اور قابلیت کے بل بوتے پر ملک کے سب سے اعلیٰ عہدے پر بھی براجمان ہو گئے۔ آئین و دستور میں دیے گئے صدر کی حیثیت میں اپنے استثنائی حق کو پانچ سال تک اُنہوں نے خوب استعمال بھی کیا۔ وہ جب تک بر سراقتدار رہے، بڑے اطمینان اور سکون سے اپنے دن گزارتے رہے۔ دنیا کی کوئی عدالت اور کوئی عدالتی نظام اُن کا کچھ بگاڑ نہیں سکا۔ سوئٹزر لینڈ میں رکھے تمام شواہد اور ثبوت کس طرح راتوں رات بکسوں میں بند کر کے غائب کر دیے گئے اور کوئی اُنہیں روک نہ سکا۔
اُن کے پانچ سالہ دور میں کروڑوں اور اربوں روپے کے گھپلے اور اسکینڈلز سامنے آتے رہے۔ کبھی ای او بی آئی، کبھی اوگرا، کبھی این آئی سی ایل، کبھی رینٹل پاور اور کبھی حج کرپشن کا بڑا چرچا ہوا لیکن کسی ذمے دار کو کوئی سزا نہیں ملی۔ ہماری اعلیٰ عدلیہ اور اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار احمد چوہدری نے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا لیکن وہ اُن کا بال بھی بیکا نہیں کر پائے۔ وہ آج بھی اُس عہدے کے لوازمات سے لطف اندوز اور بہرہ مند ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے دستور کے مطابق کوئی بھی شخص جب اِس عہدے پر ایک بار بیٹھ جاتا ہے وہ زندگی بھی اِس کی مراعات اور ثمرات سے تاحیات فیضیاب ہوتا رہتا ہے۔

’’پہلے احتساب اور پھر انتخاب‘‘ کا پُر فریب نعرہ اور سلوگن ہم سب نے ضیاء دور میں بھی بڑے شدومد کے ساتھ سنا تھا۔ نوے دنوں کے لیے اقتدار میں آنے والوں نے کس طرح اپنے مذموم عزائم اور مکروہ ارادوں کے لیے اُسے استعمال کیا۔ گیارہ سال تک وہ اقتدار میں رہے لیکن کسی بھی کرپٹ اور بدعنوان شخص کا وہ احتساب نہیں کر پائے اور نہ کسی کو کوئی سزا دے پائے۔ بلکہ اپنے دور اقتدار کو تحفظ اور دوام بخشنے کے لیے وہ جنرل مشرف کی طرح اِنہی کرپٹ لوگوں کو اپنے ساتھ ملاتے رہے۔

اِسی طرح آج ایک بار پھر کڑے احتساب کی باتیں ہو رہی ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت کراچی میں امن قائم کرنے کی غرض سے جہاں دہشت گرد عناصر کی گرفت کی گئی وہاں اُن کے سہولت کاروں کے نام پر کرپٹ مافیا کے کچھ لوگوں پر بھی ہاٹھ ڈالا گیا۔ اِسی دوران اسلام آباد ائیر پورٹ پر ہماری ایک ماڈل گرل کو 5 لاکھ ڈالر غیر قانونی طور پر بیرونِ ملک لے جاتے ہوئے رنگِے ہاتھوں پکڑ لیا گیا۔ ایان علی پر منی لانڈرنگ کا الزام لگایا گیا۔ نوید سنائی گئی کہ اِس واقعے کے پس پردہ افراد بھی اب بہت جلد بے نقاب ہونگے۔

عوام سمجھنے لگے کہ شاید کچھ بااثر سیاسی شخصیات کے نام سامنے آئیں گے۔ تحقیقات شروع کردی گئیں۔ عدالت نے صرف فردِ جرم عائد کرنے میں چھ ماہ سے زائد کا عرصہ لے لیا۔ دیکھتے دیکھتے پھر اُس کی ضمانت بھی ہو گئی اور پاسپورٹ بھی واپس کر دیا گیا۔ ہوسکتا ہے ایک روز ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں سے بھی اُس کا نام خارج ہو جائے اور وہ غیر معینہ مدت کے لیے بیرونِ ملک بھی چلی جائیں۔ پھر اُس کے خلاف نہ کوئی عدالتی کارروائی ممکن ہو پائے گی اور نہ 5 لاکھ ڈالر کے اصل مالکان کا پتہ لگے گا۔ رفتہ رفتہ لوگ اِس واقعے کو بھی دیگر واقعات کی طرح بھول جائیں گے اور معاملہ بلدیہ ٹاؤن کراچی میں گارمنٹ فیکٹری کے واقعے کی مانند مجبوریوں اور مصلحتوں کے گرداب میں پھنس کر رہ جائے گا۔

ڈاکٹر عاصم حسین کو گزشتہ برس بدعنوانی کے کچھ ایسے ہی الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا۔ اُنہیں بھی آج گرفتار ہوئے چھ ماہ سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے اور ابھی تک صرف ابتدائی تحقیقات ہی ہو رہی ہیں۔ کچھ واضح نہیں ہو پایا ہے کہ وہ واقعی مجرم ہیں یا بس یونہی بلاوجہ زیرِ عتاب ہیں۔ آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ اُن سے اب تک کچھ بھی معلوم نہیں ہو سکا ہے۔ لہذا وہ مظلوم و بے قصور ہیں۔ قرینِ قیاس ہے کہ وہ بھی ایان علی کی طرح ایک روز ضمانت پر رہا ہو جائیں گے اور بڑے دھڑ لے سے دن کے اُجالے میں اپنے سرپرستوں کی مانند ایک روز ملک سے باہر چلے جائیں گے۔

ہماری قوم اُن کی گرفتاری سے بھی اِس خوش فہمی میں مبتلا تھی کہ اب بہت سے بڑے بڑے نام سامنے آئیں گے اور نئے نئے انکشافات ہونگے، مگر جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے عوام کی توقعات اور اُمیدوں پر برف جمتی جا رہی ہے۔ معاملہ ہنوز تفتیش اور تحقیق تک ہی محدود ہے۔ کوئی بڑا بریک تھرو نہیں ہو پایا ہے۔ ہاں البتہ اتنا ضرور ہوا کہ کسی انجانے خوف اور ڈر کے باعث پاکستان پیپلز پارٹی کے کچھ اہم رہنماء ایک ایک کر کے ملک سے غائب ہوتے جا رہے ہیں اور اُنہیں باہر جانے سے کوئی روک بھی نہیں رہا۔

ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کے بعد اب لیاری گینگ وار کے ایک پرانے رکن اور لیاری امن کمیٹی کے سربراہ عذیر بلوچ کی گرفتاری کی خبر بھی آ گئی ہے۔ اُنہیں مبینہ طور پر گرفتار تو بہت پہلے ہی کر لیا گیا تھا مگر اُن کی گرفتاری کو ظاہر اب کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر واقعی وہ کئی ماہ سے ہماری سیکیورٹی ایجنسیوں کی تحویل میں تھے تو اب تک تو شاید بہت سے رازوں سے پردہ اُٹھ چکا ہو گا۔ اُن کے اقبالی بیانوں میں پسِ پردہ سرپرستوں اور کئی اعلیٰ شخصیات کا ذکر بھی ہو گا تو پھر اُن پر ہاتھ ڈالنے میں اب قباحت کیا ہے؟ قوم نیشنل ایکشن پلان کو مکمل ہوتا دیکھنے کے لیے بہت مضطرب اور بے چین ہے۔

بلا وجہ کی تاخیر اور ڈھیل دلوں میں وسوسے پیدا کر رہی ہے۔ لگتا ہے ملزمان اتنے طاقتور اور بااثر ہیں کہ کوئی بھی اُن کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ غیر متزلزل اور فولادی عزم والا شخص بھی اُن کے آگے بے بس و مجبور ہے۔ لوگوں کو توقع تھی کہ کراچی اور سندھ کے بعد یہ نیشنل ایکشن پلان پنجاب کا رخ بھی کرے گا اور شاید کرپٹ عناصر کو سخت سے سخت سزائیں ملیں گی لیکن حقائق اور نتائج اِس کے برعکس ہی دکھائی دے رہے ہیں۔

ابھی تو صرف سندھ ہی میں صفائی کا عمل مکمل نہیں ہو پایا بلکہ تقریباً ناکام ہو چکا ہے تو بھلا دیگر صوبوں میں یہ کیسے فعال اور کارگر ہو پائے گا۔ کرپٹ مافیا اور بدعنوان لوگوں کو پکڑنا کوئی اتنا آسان کام نہیں ہے۔ خاص کر جب اُن کا تعلق اشرافیہ یا معاشرے کے مقتدر اور بااثر طبقے سے ہو۔ بلاامتیاز، بلاتفریق اور سخت گیر احتساب کا نعرہ ہمارے کانوں کو بہت اچھا لگتا ہے لیکن جب عملی جامہ پہنایا جائے تو ہر طرف سے دھمکیاں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ کوئی کہتا ہے ہمیں دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔

کرپشن کے خلاف کارروائی نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہی نہیں ہے۔ کوئی کہتا ہے سرکاری دفتروں میں گھس کر فائلیں ٹٹولنا اور اُنہیں اپنے ساتھ لے جانا رینجرز کا مینڈیٹ ہی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ معصوم اور بے گناہ لوگوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ نیب اپنا قبلہ درست کر لے ورنہ ہمیں بھی کوئی ایکشن لینا پڑے گا۔ جب حالات ایسے ہوں تو پھر کیسا احتساب اور کس کا احتساب۔ قوم اِس خوش فہمی میں نہ رہے کہ لوٹ کا مال کھانے والوں کو ہمارے یہاں کبھی پکڑا بھی جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر منصور نورانی

Post a Comment

0 Comments