All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

پاک چین اقتصادی راہداری: سیکیورٹی چیلنجز

یہ منصوبہ اقتصادی ترقی کے لیے بہت اہم ہے جس میں رابطہ سڑکوں کے ساتھ توانائی اور انفراسٹرکچر کی تعمیر شامل ہے۔ تاہم اس کے لیے بہت سے داخلی اور خارجی سیکیورٹی چیلنجز بھی موجود ہیں۔ چینی صدر نے اس منصوبے کو ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ کا نام دیا ہے جس کا مقصد چین کو ایشیا اور یورپ کی منڈیوں سے ملانا ہے۔ اس منصوبے پر لاگت کا تخمینہ 46 ارب ڈالر ہے جب کہ اس منصوبے سے ملحقہ توانائی کے منصوبوں کی لاگت 36 ارب ڈالر تک ہو گی۔
 
 ارب ڈالر سڑکوں اور پلوں وغیرہ کی تعمیر پر صرف ہونگے۔ 3000 کلو میٹر لمبی سڑک گوادر بندر گاہ کو تین مختلف سڑکوں کے ذریعے حسن ابدال اور ایک سنگل سڑک بعدازاں گلگت اور تھاکوٹ کے راستے کاشغر سے ملائے گی۔کاشغر سے حسن ابدال براستہ تھاکوٹ‘ گلگت‘ ایبٹ آباد اور حویلیاں کا راستہ شمالی روٹ کہلاتا ہے جب کہ مغربی اور وسطیٰ روٹ دریائے سندھ کے مغربی کنارے کو الگ کریں گے۔

یہ راستہ حسن ابدال سے ڈیرہ اسماعیل خان تک جائے گا جس کے لیے اسے ’’انڈر ڈویلپڈ‘‘ علاقوں سے گزرنا پڑے گا۔ مغربی روٹ ژوب‘ قلعہ سیف اللہ‘ کوئٹہ‘ سہراب‘ بسیمہ‘ پنج گور‘ ہوشاب‘ تربت سے گزرتے ہوئے گوادر تک جائے گا جب کہ وسطی روٹ ڈیرہ اسماعیل خان کو ڈیرہ غازی خان‘ شکار پور‘ رتی ڈیرو‘ خضدار‘ آواران‘ ہوشاب‘ تربت اور گوادر کو ملائے گا۔ مشرقی روٹ موجودہ موٹروے کو وسعت دے گا جو ملک کے ترقی یافتہ علاقوں سے گزر رہی ہے اور دریائے سندھ کے مشرق میں حسن ابدال سے لاہور‘ ملتان‘ سکھر‘ حیدر آباد اور کراچی جاتی ہے۔
حکومت نے اس منصوبے کے حوالے سے صوبائی حکومتوں سے مطابقت نہیں کی جو مکمل شفافیت کے لیے ضروری تھا۔ مزید برآں اس کی تشہیر بھی بھرپور انداز سے نہیں کی گئی جس کی وجہ سے صوبوں کی طرف سے تنازعات پیدا ہوئے۔ بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ عبدالمالک نے اس بات پر زور دیا کہ بلوچستان کے ان علاقوں کو بھی اس منصوبے سے منسلک کیا جائے جہاں آبادی بے حد کم ہے جب کہ زیادہ زور اس کے مغربی روٹ پر دیا گیا ہے لیکن اس کی مارکیٹوں تک رسائی کم ہے اور نہ ہی اس سے روز گار کے ذرایع میں اضافہ ہوتا ہے نیز تعلیمی اور طبی سہولتیں بھی ان علاقوں میں کم ہیں۔ اسی وجہ سے وہاں پر مخالفانہ تحریکیں چلتی ہیں۔ لہٰذا یہاں پر سیکیورٹی کے اخراجات کافی زیادہ ہونگے کیونکہ مغربی اور وسطی روٹ پر عسکریت پسندوں کی کارروائیاں ہوتی ہیں۔

بعض ممالک پاک چین اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) کو اپنے لیے تزویراتی خطرہ خیال کرتے ہیں جس سے کہ ان کے دفاعی اور اقتصادی مفادات پر ضرب پڑ  سکتی ہے نیز خطے میں ان کے اثرورسوخ میں بھی کمی واقع ہو سکتی ہے۔ بھارت کو اس منصوبے پر سب سے زیادہ اعتراض ہے کیونکہ اس کے مکمل ہونے پر پاکستان کو جغرافیائی اور تزویراتی طور پر برتری حاصل ہو جائے گی اور پاکستان کو بحیرہ عرب کے ساتھ حکمت عملی کے حوالے سے منفعت بخش پوزیشن حاصل ہو جائے گی۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی را میں ایک خصوصی سیل قائم کر دیا گیا ہے جس کا تمام تر مقصد پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کے خلاف کام کرنا ہے۔

ہمارا ایک بہت قریبی دوست ملک گوادر کی بندر گاہ کو خلیج عرب اور براعظم ایشیا میں اپنی اجارہ داری کے لیے خطرہ محسوس کرتا ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ بھارت ایران کی بندر گاہ چاہ بہار کو ترقی دینے کے لیے بھرپور اخراجات کر رہا ہے جو کہ گوادر کے قریب ہے اور وہ چاہتا ہے کہ یورپ اور وسطی ایشیا تک چاہ بہار بندر گاہ کے ذریعے رسائی حاصل کی جائے۔ یو اے ای کی طرف سے گوادر کی مخالفت بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

اس وقت تقریباً 8000 چینی کارکن پاکستان میں 210 منصوبوں پر کام کر رہے ہیں جب کہ مزید 7000 اضافی چینی افرادی قوت ان منصوبوں اور ان روٹس پر تحقیقاتی کام کرنے کے لیے متوقع ہیں۔ جب افغانستان میں چین کے مفادات بھارت کے ساتھ ٹکرائیں گے تو ان کا اثر افریقی ممالک پر بھی پڑے گا۔ چینی کارکنوں کو ہلاک کرنے کے علاوہ اغوا بھی کیا جا رہا ہے۔ اپریل 2001 میں 9 چینی کارکنوں کو ہلاک اور 7 کو اغوا کر لیا گیا جو تیل کے فیلڈز میں کام کر رہے تھے۔ جون 2004میں ایتھوپیا میں 11 چینی کارکنوں کو جو سڑکوں کی تعمیر کا کام کر رہے تھے مار ڈالا گیا اور افغانستان میں قندوز‘ بغلان روڈ پراجیکٹ پر کام کرنے والے چینی کمپنیوں کے کارکنوں کو بھی بھارت کے ساتھ مسابقت کے جرم میں ہلاک کیا گیا۔

تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے الگ ہونے والے جماعت الاحرار نامی گروپ نے چین کو دھمکی دی کہ وہ سنکیانگ کے مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں بند کرے ورنہ  پاکستان میں چین کے مفادات پر حملے کیے جائیں گے۔ مشرقی ترکستان میں اسلامی تحریک (ای ٹی آئی ایم) میں شامل عسکریت پسند گروپ جو ٹی ٹی پی‘ القاعدہ اور جند اللہ گروپ کے ساتھ کام کر رہے ہیں ان کی طرف سے چینی شہریوں پر حملوں کی دھمکی دی گئی۔ حیدر آباد مٹیاری اور سکھر میں حالیہ برسوں میں چینی کارکنوں پر حملے کیے گئے اور انھیں اغوا اور قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔

چینیوں کی حفاظت کے لیے خصوصی سیکیورٹی ڈویژن (ایس ایس ڈی) قائم کر دی گئی۔ جس میں 8000 فوجی جوانوں پر مشتمل آرمی کی9 بٹالین شامل ہیں جب کہ ایس ایس جی کمانڈوز کی تعداد 5000 ہے علاوہ ازیں پیرا ملٹری فورسز کے 6 ونگ بھی شامل ہیں جس میں ایس ایس جی کے 900 افسران شامل ہیں۔ فاٹا اور سوات وغیرہ میں پہلے ہی فوجی کارروائیاں جاری ہیں۔ اور انسداد دہشت گردی کے فوجی دستوں کوایسے دہشت گردوں کا سامنا ہے جو شہری علاقوں کے اندر ہی چھپے ہوئے ہیں۔

ایک چین پاکستان انسٹی ٹیوٹ کا پیپر جسے نوید الہی نے لکھا ہے وہ سی پی ای سی کو ٹھوس سیکیورٹی فراہم کرنے پر زور دیتا ہے جس کے لیے وہ تجویز کرتا ہے کہ -1 نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) کو مکمل طور پر نافذ کیا جائے -2 انسداد دہشت گردی کی قومی اتھارٹی (نیکٹا) کو فعال کیا جائے -3 پاک چین راہداری کی سیکیورٹی کے لیے سیکیورٹی کمیشن قائم کیا جائے جس میں اس راہداری پر ہونے والے ترقیاتی کام کی تشہیر الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پر نمایاں طور پر کی جائے۔

اور پیمرا کو اس حوالے سے تمام منفی قسم کی خبروں پر سختی سے پابندی عائد کر دینی چاہیے۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ آئی ایس آئی‘ ایم آئی اور آئی بی کی معاونت سے تحفظ فراہم کرنے والی انٹیلی جنس کو ترتیب دیا جائے اور چین کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ بھی اس حوالے سے مکمل تعاون کیا جائے۔ نیکٹا کو تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں سے معلومات اکٹھی کرنے کے لیے ایک مرکز قائم کرنا چاہیے اور پھر ان معلومات کو قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے حوالے کر دینا چاہیے تاکہ ان پر سخت ایکشن لیا جا سکے۔ اس سلسلے میں میڈیا اور ماہرین تعلیم مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔

جس سے اس منصوبے کے خلاف کیے جانے والے بدنیتی کے پراپیگنڈے کا توڑ کیا جا سکے اور پاکستان کے لیے اس کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے۔ اس منصوبے پر منفی پراپیگنڈے سے عام لوگوں کے ذہن میں عدم اعتماد پیدا ہو سکتا ہے۔ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کو دشمن کی سرگرمیوں کا موثر توڑ فراہم کرنا چاہیے۔

ایک موقر تعلیمی ادارے سے تعلق رکھنے والے ماہر تعلیم نے اقتصادی راہداری کے منصوبے کو درپیش چیلنجز پر ایک پینل مباحثے میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس راہداری کا ایک پہلو شیخ چلی کے تصورات کی عکاسی کرتا ہے جس کے لیے اتنی زیادہ رقم کا خرچہ  ہمارے بس سے باہر ہو سکتا ہے۔ اس پر اسی ادارے کے ایک طالب علم نے بڑے احترام سے کھڑے ہو کر وضاحت کی کہ اس میں توانائی کے جو منصوبے شامل ہیں نیز جو شاہراہیں تعمیر ہونگی وہ اپنا خرچہ خود پورا کریں گی۔

اس قسم کے پروفیسروں کی منفی گفتگو سے ہمارے نوجوانوں کے ذہن پر مضر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ کیا ایسے لوگوں کو خاص طور پر ان اونچی جگہوں پر تعینات کرایا گیا ہے؟ یہ کسی قسم کی منصوبہ بندی کا حصہ ہو سکتے ہیں۔ اس قسم کے اشتعال پیدا کرنیوالی باتیں سی پی ای سی کے منصوبے کو ناکام بنانے میں کردار ادا کر سکتی ہیں۔

خصوصی تخمینے کے مطابق یہ منصوبہ طویل مدتی عرصے میں پاکستان کے لیے اربوں ڈالر منافع کی گنجائش پیدا کرے گا۔ سی ایم پی آر یو کے چیئرمین ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی کے تحفظات بہت اہم ہیں۔ البتہ پسماندہ اضلاع میں ملازمتوں کی ’’بمباری‘‘ ڈرونز کی بمباری کی نسبت کہیں زیادہ مفید ثابت ہو گی۔

اکرام سہگل


Post a Comment

0 Comments