All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

یونانی اور رومی کتابیں

ابتداء میں یونانی لوگوں نے بھی مصریوں کے طرز پر مواد کے لیے پیپائرس کو ہی استعمال کیا جس کو بعد میں رومیوں نے اختیار کیا۔ اگرچہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دونوں قوموں نے ایک وقت مومی تختیوں کو بھی تحریر کے لیے استعمال کیا۔ چنانچہ مصریوں کی طرح کتاب کے لیے استعمال کیا جانے والا لفظ پیپائرس کی جگہ یونانی لفظ ببیولیون  بولا جاتا ہے جب کہ لاطینی میں وولومن یعنی بک  مستعمل ہے۔

 مورخ ڈیوڈ ڈرنگر کا خیال ہے کہ یونانیوں نے پیپائرس کا استعمال چھٹی ق م سے لے کر 900ق م تک کیا۔ تاہم افلاطون اور دوسرے نامور یونانی مؤرخین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ پانچویں صدی ق م میں کتابوں کے لیے پیپرس پر تحریر شدہ برآمد ہوا ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ اور کتابیات نے اس کو چار صدی ق م قرار دیا ہے۔ اس طرح کے ہزاروں رول برآمد ہوئے ہیں۔ ان میں بیشتر کتابی رول نویا دس انچ اور ایک یا ڈیڑھ انچ موٹے کھڑے رکھے جاتے تھے۔ 

کھولنے پر بعض پیپرس رول منقش اور اخباری کالموں کی طرح یونانی زبان میں تحریر تھے۔ ہر کالم تین انچ کا اور ایک رول پر تین کالم حروفِ ابجد کے اعتبار سے ہوتے تھے۔ یہ رول مصریوں کی طرح سو سو فٹ لمبے نہیں ہوتے تھے بلکہ ان کی لمبائی زیادہ سے زیادہ 35فٹ ہوتی تھی تا کہ سہولت سے پڑھے جا سکیں۔ شاعر ہو مر کی جو کتابیں دستیاب ہوئی تھیں، ان کی لمبائی 35فٹ سے تجاوز نہ کر سکی۔

 پانچویں صدی قبل مسیح کو ایتھنزکے تہذیب و تمدن کے اعتبار سے شان دار قرار دیا جاتا ہے۔ اس دور میں بھی کتابوں پر زیادہ زور نہ تھا بلکہ علوم و فنون کو زبانی یا مشاہداتی طور پر زیادہ پسند کیا جاتا تھا۔ لیکچر اور مکالمے زبانی ادا کیے جاتے تھے۔ اس فن کو ایتھنز کا ہر شہری اختیار نہیں کر پاتا تھا۔ یہ کام مشکل تھا۔ چند افراد ایسے تھے جن کو علم و ادب اور تقریر و تحریر کا فن سکھایا جاتا تھا۔ سکندر اعظم کی آمد کے ساتھ یونانیوں کے فکر و نظر میں وسعت پیدا ہوئی۔ ان کے ادب اور ثقافت کو ترقی ملی۔ 

سکندر اعظم جب مشرق میں وارد ہوا تو آس پاس کے تہذیب و تمدن سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ چنانچہ اسکندر یہ اور پرگامم جیسے شہروں میں علم و ادب کے مراکز تیزی سے قائم ہونے لگے۔ کتب خانوں کے قیام نے ان مراکز میں بڑی اہمیت اختیار کی۔ اسکندر یہ کے عجائب گھروں اور مطالعاتی مراکز میں لاکھوں کی تعداد میں کتابی رول پائے جاتے تھے۔ 

بطلیموسی فرماں روائوں کے دور میں علم و ادب کو بڑی ترقی حاصل ہوئی۔ دور دراز کے ماہرین علوم و فنون وہاں کھنچے چلے آتے تھے، جو رات دن تحقیق، علم اور کتابوں کی ترویج و ترقی پر مقرر تھے۔ اس طرح ادب و علم کی ترقی کے ساتھ ساتھ زبانی حصول علم کی جگہ کتابی علم پروان چڑھتا گیا۔ یہ کتابوں کی اشاعت کی جانب ایک ابتدائی قدم تھا۔ یونانی عالم اپنی تخلیقات کی خرید و فروخت کے لیے اب بازاروں کا رخ کرنے لگے تھے۔ 

اس بات کا اندازہ ان پیپائرس رولوں سے ہوتا ہے جن میں پیشہ ورانہ کتابی کاروبار کی جانب اشارہ ملتا ہے۔ اگرچہ بیشتر ذخیرہ تلف ہو چکا ہے۔ تا ہم جو کچھ باقیات ہیں ان سے کتابوں کی وسیع پیمانے پر تجارت کے شواہد ملتے ہیں، خاص طور پر قدیم مؤرخوں اور دانشوروں کی کتابوں سے جن میں ایچیلس  ، سوفوکلس    ایرپیڈیس   ، ایروسٹوفینس  جیسے ڈرامہ نگاروں کی تخلیقات سے اس کا واضح ثبوت ملتا ہے۔ 

( ’’کتب اور کتب خانوں کی تاریخ‘‘ سے انتخاب)   

Post a Comment

0 Comments