All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

تیل سستا لیکن عوام کو کیا فائدہ؟

 عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت 30 ڈالر فی بیرل سے بھی نیچے آ گئی ہے۔
ایسے میں تیل کی برآمد پر انحصار کرنے والے ممالک سعودی عرب، دوسرے خلیجی ممالک، اور روس نے اپنے اخراجات میں کمی اور کفایت شعاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جب کہ تیل کی دولت سے مالا مال ونیزویلا نے ملک میں اقتصادی ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔

لیکن پاکستان جیسے درآمدی خام تیل پر انحصار کرنے والے ممالک کے لیے قیمتوں میں کمی ایک سنہری موقع ہے کیونکہ ملک کی درآمدت کا 33 فیصد تیل کی مصنوعات پر مشتمل ہے اور قیمتوں میں کمی سے پاکستان کا درآمدی بل کم ہوا ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران پاکستان نے چار ارب 35 کروڑ ڈالر مالیت کی تیل کی مصنوعات درآمد کی ہیں جبکہ گذشتہ سال اسی عرصے کے دوران ان مصنوعات کا درآمدی بل ساڑھے سات ارب ڈالر سے زائد تھا۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے بعد سے پاکستان کے درآمدی بل میں ساڑھے پانچ ارب ڈالر کی کمی ہوئی ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی سے پاکستان مستفید ہو رہا ہے یا نہیں؟
ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اشفاق حسن خان کا کہنا ہے کہ تیل کی مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے پاکستان میں افراطِ زر یعنی مہنگائی کی شرح کم ہوئی ہے اور اس کے نتیجے میں شرح سود میں کمی سے حکومتی قرضوں کا بوجھ بھی کم ہوا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’افسوس یہ ہے کہ اس کمی کا فائدہ عوام اور صنعتوں کو نہیں ہو رہا کیونکہ مقامی سطح پر تیل کی مصنوعات کی قیتمتوں میں کمی نہیں ہو رہی اور حکومت ٹیکس کی شرح بڑھا رہی ہے۔ 

دنیا بھر میں خام تیل کی قیمت 80 ڈالر فی بیرل سے کم ہو کر 30 ڈالر فی بیرل پر آ گئی ہے لیکن مقامی سطح پر حکومت نے ٹیکس بڑھا کر قیمتوں میں کمی کے فائدہ عوام کو منتقل نہیں کیا۔
پاکستان میں ڈیزل پر سیلز ٹیکس کی شرح 45 فیصد جبکہ پیٹرول پر 25 فیصد ہے۔

ماہر اقتصادیات خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بجلی کی پیدوار فرنس آئل سے ہوتی ہے اور فرنس آئل سستا ہونے سے بجلی کی فی یونٹ پیداواری لاگت بھی کم ہوئی ہے، جس سے حکومت کی سبسڈی میں کمی ہو رہی ہے۔
عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی سے پاکستان کا درآمدی بل کم ہوا ہے
انھوں نے کہا حکومت کو چاہیے سبسڈی میں کمی سے حاصل ہونے والی رقم سے انفراسٹرکچر کی بہتری پر خرچ کیا جائے۔

خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ حکومت نے پیٹرولیئم مصنوعات پر ٹیکس کی شرح بڑھا کر آمدنی کا آسان ذریعہ ڈھونڈ رہی ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ ’درآمدی بل میں کمی سے پاکستانی کرنسی کی قدر مستحکم ہوئی ہے اور قرضے کم ہوئے ہیں۔ ان حالات میں ایسی پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے جس سے معیشت ترقی کرے۔ 

ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ گذشتہ کچھ عرصے سے پاکستان میں امن و امان کی صورتِ حال قدرے بہتر ہوئی ہے اور ایسے میں ضروری ہے کہ نجی شعبے کے اعتماد کو بحال کر کے سرمایہ کاری میں اضافہ کیا جائے۔
ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے کہا کہ ’ملک میں کاروباری لاگت کم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ برآمدت کو بڑھایا جا سکے۔ ہماری پیدواری لاگت دنیا کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ 

انھوں نے کہا کہ ’ایک طرف تو درآمدی بل کم ہو رہا ہے لیکن دوسری جانب برآمدت نہیں بڑھ رہیں، اور تیل کی قیمتوں میں کمی سے ہونے والا فائدہ ختم ہو رہا ہے۔ 

خرم شہزاد کے مطابق چین کی معیشت میں سست رفتاری کا نقصان پاکستان کو نہیں ہو گا۔ ’پاکستان کی چین سے برآمدات کے مقابلے میں درآمدت زیادہ ہیں اور چین کی کرنسی کی قدر میں کمی سے درآمدی مصنوعات سستی ہوں گی، جو ہمارے لیے فائدہ مند ہے۔ 

اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی سے پاکستان مستفید ہو سکتا ہے لیکن اُس کے لیے ضروری ہے کہ ایسی حکمتِ عملی بنائی جائے جس سے اقتصادی شرح نمو میں اضافہ ہو۔

ماہرین کے مطابق ملک میں توانائی کے بحران پر قابو پا کر صنعتوں کو بجلی فراہم کی جائے تاکہ برآمدت میں اضافہ ہو اور پیٹرولیم مصنوعات پر عائد ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدن پر انحصار کے بجائے ٹیکسوں کے دائرے کار کو وسیع کرنے پر توجہ دی جائے۔

 سارہ حسن
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

Post a Comment

0 Comments