All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

عبدالرحیم خان خاناں کا کتب خانہ

اکبر اعظم کے دور میں کتب خانوں کی کثرت تھی۔ ہر گلی اور کوچہ دار المطالعوں سے آراستہ تھا۔ اس کے امراء اور وزراء بھی بادشاہ وقت کی شگفتہ طبیعت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ رحیم خان خاناں ہنر مندوزراء میں ممتاز حیثیت رکھتا تھا۔ اس کے باپ بیرم خان نے اکبر کی تربیت کی تھی۔ رحیم خان خاناں نے اپنے باپ سے ورثہ میں بہت کچھ حاصل کیا تھا، جس کی وجہ سے وہ اکبری دربار کا ایک روشن ستارہ بن کر جگمگایا۔

 مؤرخین نے جہاں اکبری دربار کے اس رکن کی فراست و بصیرت اور اس کی بہت سی زبانوں پر دسترس رکھنے کی صلاحیتوں کی تعریف کی ہے ،وہاں انھوں نے اس علمی مرکز کا ذکر بھی کیا ہے، جہاں خان خاناں نے اپنی خدا داد قابلیت، سخن سنجی، علم نوازی اور بے مثل فیاضی کے جوہر کو جلا بخشی تھی۔ یہ مرکز اس کا ذاتی کتب خانہ تھا۔ مولانا شبلی اس کتب خانہ کی فضیلت اور جامعیت کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: ’’یہ کتب خانہ اس درجے کا تھا اور اس قدر علمی ذخیرے اس میں مہیا کیے گئے تھے کہ خود ایک اکیڈمی یا دار الحکومت کا کام دیتا تھا۔
 عرفی، نظیری، ظہوری، شکیبی غرض اکثر شعرائے اکبری نے اپنے دیوان خود اپنے ہاتھ سے لکھ کر اس کتب خانے میں داخل کیے تھے۔ دربار اکبری کے اکثر با کمال اسی کتب خانہ کی پیداوار ہیں۔ اکثر شعراء، خوش نویس ضاع جن کو خان خاناں تربیت دینا چاہتے تھے، کتب خانہ کے کام پر مقرر ہوئے تھے اور ترقی کرتے کرتے نادر روزگار ہو جاتے تھے‘‘۔ اس عظیم کتب خانہ میں کتابوں کی فراہمی کے مختلف ذرائع تھے۔

 مثلاً کتب خانہ میں بڑے بڑے علماء، شعرا، تصنیف و تالیف کا کام کرتے اور اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے نسخے کتب خانہ میں عطیہ کے طور پر جمع کرانا باعث فخر سمجھتے تھے۔ سلیقہ مند لوگ نایاب کتب کی تلاش و جستجو میں سرگرداں رہتے اور جو نسخہ یا خطاطی کا اعلیٰ نمونہ دستیاب ہوتا، اس کو کتب خانہ کے لیے حاصل کر لیتے۔ 

کتب خانہ کی نگرانی کا کام وقت کے بلند پایہ عالم کے پاس ہوتا تھا چنانچہ عبدالسلام اور شجاع جیسے با کمال حضرات عرصہ دراز تک اس کتب خانہ کے نگران رہے۔ ’’مآثررحیمی‘‘ کے مصنف نے مدت تک اس کتب خانہ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا تھا۔ سترھویں صدی عیسوی میں جب اہل یورپ کتب خانوں سے زیادہ مانوس نہ تھے، اس وقت بر صغیر میں متعدد کتب خانے موجود تھے۔

اشرف علی


Post a Comment

0 Comments