All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

قلم کار کیسے بنیں؟

اکثر و بیشتر، بالمشافہ ملاقات، بذریعہ ای میل و موبائل فون اور فیس بک کے نوجوان طالب علم اس شوق کا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ انھیں اخبار کے لیے مضمون لکھنے کا لگاؤ ہے اور لکھتے بھی ہیں لیکن وہ شایع نہیں ہوپاتے ہیں، اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ تو متعلقہ اخبار کے ایڈیٹر بتا سکتے ہیں البتہ میں اپنے محدود تجربے کی بنیاد پر قلم کاری کے لیے چند رہنما اصول بتاسکتا ہوں شاید ان پر عمل کرکے آپ کی تحریر میں کچھ بہتری آسکے۔

پہلی بات یہ ہے کہ قلم کاری کی صلاحیت قدرتی ہوتی ہے جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔ آپ بھی اپنے اندر یہ جوہر تلاش کریں، ہوسکتا ہے کہ آپ میں بھی لکھنے کی صلاحیت موجود ہو۔ واضح رہے کہ مضمون نویسی ایک اہم فن ہے۔ اس کے ذریعے حقائق اور معلومات لوگوں تک پہنچائے جاتے ہیں۔ اگر آپ مضمون نویس بننا چاہتے ہیں تو ذیل کے چند اصول کو پیش نظر رکھیں۔

اچھا لکھنے کے لیے اچھا پڑھنا نہایت ضروری ہے۔ مطالعہ کرنے اور کچھ نہ کچھ لکھنے کی عادت اختیار کریں۔ دماغ میں موجود خیالات کو کاغذ کی زینت بنائیں۔ اپنے خیالات و افکار کو خوب صورت اور دل نشین انداز میں تحریر کریں۔ تحریر میں سادہ و آسان اور عام فہم الفاظ استعمال کریں تاکہ ہر طبقے کے لوگ اسے پڑھ اور سمجھ سکیں۔ سادہ کاغذ پر صرف ایک جانب اور ایک سطر چھوڑ کر خوش خط لکھیں۔ لکھنے سے پہلے موضوع کا تعین کریں کہ آپ کس موضوع پر لکھنا چاہتے ہیں۔ مذہبی، سیاسی، اقتصادی، تعلیمی، معاشرتی، بلدیاتی یا اسپورٹس کے حوالے سے۔
واضح رہے کہ ہر موضوع اپنے اندر مختلف پہلو لیے ہوتا ہے۔ لہٰذا جب آپ کسی موضوع پر لکھیں تو موضوع کے اہم ترین پہلوؤں پر لکھیں۔ موضوع کے متعلق ضروری مواد حاصل کرنے کے بعد اس موضوع سے تعلق رکھنے والے اہل علم و فکر اور ماہرین سے گفتگو اور تبادلہ خیال کریں۔ گفتگو کے دوران اہم اور ضروری نکات نوٹ کرلیں اور بعد میں انھیں الفاظ میں خوب صورت انداز میں تحریر کردیں۔کوشش کریں کہ فوری نوعیت (ایشوز) کے معاملات پر لکھیں۔ اپنی تحریر کا آغاز مختصراً تمہیدی کلمات سے کریں۔

 اپنی تحریر میں مستند اقتباسات اور حوالہ جات پیش کریں۔ موقع محل کی مناسبت سے مضمون میں حکایات اور اشعار بھی تحریر کیے جاسکتے ہیں۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ کسی بات یا کسی نکتے کو نہ دہرائیں۔ مضمون کے اختتامیہ میں مضمون کے مقصد اور مدعا کو بڑے دل نشیں اور پیغام آفریں انداز میں تحریر کریں تاکہ آپ کا مضمون پڑھنے والوں کو اپیل کرسکے۔ مضمون کو منطقی انداز میں ایک خاص ترتیب کے ساتھ آگے بڑھاتے جائیں۔

مضمون میں ہر نئی بات، نئے پیراگراف اور نئی لائن سے شروع کریں۔ کسی بھی مضمون میں سرخیاں یا عنوانات بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ اس لیے سرخی جاندار ہونی چاہیے۔ جب آپ نے کچھ لکھنا ہو تو اس کو فوری طور پر اخبار یا رسالے کے ایڈیٹر کو نہ بھیج دیں بلکہ اس پر بار بار نظرثانی کریں۔ بار بار پڑھیں، غلطیوں کو غور سے دیکھیں اور ان پر نشان لگادیں اور پھر دوبارہ لکھیں۔ اس مشق سے آپ کے ذہن میں نئے خیالات اور نئے الفاظ آئیں گے، اس لحاظ سے مضمون میں رد و بدل کریں۔ سینئر قلم کاروں سے مل کر ان سے اپنی تحریر کی خوبیاں اور خامیاں معلوم کریں تاکہ آپ کی تحریر میں بہتری آسکے۔ اردگرد کے معاشرتی حالات و واقعات کا جائزہ لیں اور انھیں قلم بند کریں۔

جس اخبار یا میگزین کے لیے لکھنا چاہتے ہیں اس کے مزاج کو دیکھیں، اس کی پالیسی معلوم کریں، اس کے پڑھنے والوں کا حلقہ کیسا ہے؟ وہ کوئی ادبی میگزین ہے، مذہبی ہے، سائنسی ہے، بلدیاتی ہے، اسپورٹس کے حوالے سے ہے، فلمی ہے یا کہ جنرل ہے غرض کہ اخبار و رسائل کے مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے لکھیں۔ مضمون فیئر کرنے کے بعد متعلقہ اخبار یا رسائل کے ایڈیٹر کو بھیجیں۔ اپنی تحریر ایڈیٹر کو روانہ کرنے کے بعد انتظار کریں۔ چھپنے کی جلدی نہ کریں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کی تحریر ناقابل اشاعت ہو تو ایسی صورت میں مایوسی کا شکار ہوگئے تو آپ کبھی بھی قلم کار نہیں بن سکتے۔ہر مایوسی نئی قوت اور کوشش کا پیغام ہوتی ہے۔
کالم کیا ہے؟ کالم انگریزی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی ستون، مینار اور کھمبے کے ہیں۔ لیکن صحافت میں کالم دو معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک مخصوص قسم کی تحریروں کے لیے دوسرے اخبار کے صفحے کے حصے کو بھی کالم کہتے ہیں۔ صحافت و ادب کی دنیا سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے اس کی تعریف اپنے اپنے انداز میں کی ہے۔ امریکا کے کالم نویس والٹرلپ مین جنھوں نے عالمی شہرت حاصل کی، کالم کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’میں نے اپنی زندگی کا آغاز ایک اداریہ نویس کی حیثیت سے کیا اس لیے میں ایک کالم نویس کو بنیادی طور پر ہمیشہ نام کے ساتھ اداریہ لکھنے والا شخص سمجھتا ہوں‘‘ لیکن ایک دوسرے امریکی صحافی ڈائٹ ای سارجنٹ کے مطابق ’’کالم ادارتی صفحات پر شایع ہونے والی ایسی معاون تحریریں (ادارے کی) ہیں جن میں جائزے، تبصرے اور وضاحت پیش کی جاتی ہے۔

‘‘ کتاب ’’کمیونٹی جرنلزم‘‘ کے مصنف نے کالم کے بارے میں لکھا ہے ’’کالم کی مثال کسی ایک تحریر سے نہیں دی جاسکتی مختلف کالموں کا اسلوب ایک دوسرے سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ موضوع اور مواد کے لحاظ سے بھی ان پر کوئی پابندی نہیں ہوتی‘‘۔ ایکسپلورنگ جرنلزم میں کالم کی یہ تعریف کی گئی ہے ’’کالم کسی ذاتی خیال پر مبنی ہوسکتا ہے۔ اور دوسروں کے خیالات پر بھی۔ اس میں طب، سائنس اور فیشن وغیرہ کے تخصیصی موضوعات کچھ بھی لکھا جاسکتا ہے۔ اس کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ 

پاکستان کے سینئر اور بزرگ صحافی زیڈ اے سلہری نے کہا تھا کہ ’’کالم ایسی تحریر کو کہتے ہیں جسے ہر سوچنے سمجھنے والا شخص جس کے ذہن میں کچھ کہنے کو ہے لکھ سکتا ہے۔ بقول عطا الحق قاسمی کہ ’’کالم ایک تحریری کارٹون ہوتا ہے جس میں کالم نویس الفاظ سے خاکہ تیار کرتا ہے۔‘‘ عبدالقادر حسن نے کہا تھا کہ ’’جس موضوع پر خبروں یا اداریہ میں اظہار خیال نہ کیا جائے اس کے متعلق مستقل عنوان کے تحت کسی اخبار میں شایع ہونے والی تحریر کو کالم کہا جائے گا۔‘‘ بہرکیف کالم میں اداریے کی نسبت جانبداری سے کام لیا جاتا ہے۔ کالم میں پیش کی جانے والی مختلف تجاویز اور آرا ادارے سے زیادہ موثر ثابت ہوتی ہیں۔ لیکن ان تمام باتوں پر عمل کرنے والے نئے رائٹرز سے یہ میری التماس ہے کہ وہ پہلے مطالعہ کی طرف توجہ دیں۔اور اچھی اچھی کتابوں کو سنجیدگی سے پڑھنے کی عادت ڈالیں،تب کہیں جاکر اچھی تحریر جنم لیتی ہے۔

شبیر احمد ارمان

Post a Comment

0 Comments