All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

کچھ کمال احمد رضوی کے بارے میں

کمال احمد رضوی نے کتنے زمانے کے بعد لاہور میں پھر اپنی صورت دکھائی تھی۔ اس شہر میں کتنے شب و روز گزارنے کے بعد اور کتنے کشٹ کھینچنے اور اپنا ہنر دکھانے کے بعد کراچی کی راہ پکڑی تھی۔ اب جو لاہور آرٹ کونسل میں ادبی میلہ نے اپنی بہار دکھائی تو اس بہانے میلہ میں کمال احمد رضوی بھی نمودار ہوئے۔ مگر یہ وہ پہلے والا کمال احمد رضوی نہیں تھا یعنی وہ ہنستا بولتا کمال احمد رضوی، طنز اور تمسخر والی بولی میں یکتا۔

 اب یہ عزیز چپ چپ تھا۔ سننا اور چپ رہنا، مشکل سے کوئی بات کہنی اور پھر چپ۔ یہ گمان نہ تھا کہ یہ چپ لمبی چپ کا پیش خیمہ ہے اور یہ لاہور کا پھیرا اس شہر کو جہاں اس نے اتنا لمبا وقت گزارا تھا اور کمال حاصل کیا تھا اس کا اس شہر کو آخری سلام ہے۔ ادھر وہ اس شہر سے رخصت ہوا اور ادھر جلد ہی خبر آ گئی کہ کمال احمد گزر گئے۔

اپنی جنم بھومی گیا کو، جسے مہاتما بدھ سے نسبت ہے، کب تقسیم کے بعد سلام کیا اور پاکستان کے لیے رخت سفر باندھا۔ کب لاہور آمد ہوئی۔ ہم تو سمجھ لیجیے کہ پانچویں دہائی کے بیچ سے اس عزیز کو اس شہر میں چلتے پھرتے دیکھتے آئے تھے۔ مشغلہ قلم چلانا، کتابوں کے ترجمے کیے، رسالوں اخباروں میں لکھا۔ ایک مرتب کردہ مجموعہ خصوصیت کے ساتھ یاد ہے۔ اردو ڈراموں کا مجموعہ یعنی ڈرامے سے ان کی دلچسپی کا مظہر۔ مگر اس زمانے میں ڈرامہ اس شہر میں بڑی حد تک ریڈیو ڈرامے سے عبارت تھا۔
ہرچند کہ آرٹ کونسل وجود میں آ چکی تھی اور امتیاز علی تاج ڈرامے کے سرتاج سمجھے جاتے تھے۔ اسٹیج ڈرامے کے لیے یار لوگ ہاتھ پیر تو مار رہے تھے لیکن دال کچھ گلتی نظر نہیں آ رہی تھی۔

اصل میں جو پڑھے لکھے نوجوان اسٹیج ڈرامے میں دلچسپی لے رہے تھے ان کا گزارا ہر پھر کر بواسطہ انگریزی زبان مغربی ڈرامے پر تھا۔ مگر مستعار مال پر کب تک اور کتنا گزارا ہو سکتا تھا۔ اردو میں بیشک پارسی تھیٹر پورے ہندوستان میں دھوم مچا کر اپنی زندگی پوری کر چکا تھا مگر ان انگریزی پڑھے لکھے نوجوانوں کو بہت دقیانوسی دکھائی دیتا تھا۔ اس سے فیض حاصل کرنے میں انھیں اپنی ہیٹی نظر آتی تھی۔

لیجیے یہاں اپنا ذاتی واقعہ یاد آ گیا۔ ایک روز اچانک کمال احمد ہمارے دفتر آن دھمکے۔ ’’تم نے اسٹیج کے لیے کوئی کھیل لکھا تھا جو نہیں ہو سکا۔ وہ اسکرپٹ کہاں ہے۔ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ 
’’گھر پہ پڑا ہے۔ جب جی چاہے لے جاؤ۔ 

وہ اسکرپٹ لے جانے کے بعد پندرہ بیس دن کے بعد آئے۔ غصے میں بھرے ہوئے۔ ’’آرٹ کونسل کی کمیٹی کہتی ہے اس محاورے روزمرہ کو لاہوریے کیا سمجھیں گے۔ ڈرامہ فلاپ ہو جائے گا۔ بکواس۔‘‘ رکے۔ بولے ’’اس کھیل کو میں اپنے گروپ کی طرف سے کر کے دکھاؤں گا۔ اجازت ہے۔ 
’’برادر میں نے یہ اسکرپٹ تمہیں دیا تھا۔ آرٹ کونسل کو تو پیش نہیں کیا تھا۔ پھر اب اجازت کیوں لے رہے ہو۔ 

اس دوران ریہرسل میں میرا ادھر آنا جانا ہوتا رہا۔ کمال احمد رضوی کو ڈائریکٹ کرتے بھی دیکھا۔ پھر اس کی اداکاری بھی دیکھی۔ دل میں کہا کہ یہ شخص تو خود محاورے روز مرہ کا ماہر نظر آتا ہے۔ ہم نے ویسے ہی آرٹ کونسل کے ماہرین کے فیصلہ پر اعتبار کرلیا۔ کمال کے کمال پر اعتبار ہی نہیں آ رہا تھا۔‘‘
دوسروں نے جہاں اسے داد دی ہم نے بھی داد دی کہ سنکی باپ کے کردار کو تم نے کس کمال سے نبھایا ہے۔
کہا کہ ’’میرا دادا بھی ایسا ہی خر دماغ اور سنکی تھا۔ میں بس یہ رول کرتے ہوئے اپنا دادا بن گیا۔ 

اچھا ان دنوں آرٹ کونسل میں کوششیں ہو رہی تھیں کہ کسی طرح اوریجنل ڈرامے لکھوائے جائیں اور کیے جائیں۔ کچھ اور ڈرامے بھی ہوئے۔ اب ذرا اسٹیج ڈرامے کی گاڑی چلتی نظر آ رہی تھی۔ مگر 
پنہاں تھا دام سخت قریب آشیان کے

انھیں دنوں پاکستان ٹی وی کی نمود ہوئی تھی۔ انھوں نے کمال کو فوراً ہی لپک لیا بلکہ یوں ہوا کہ جلدی جلدی آرٹ کونسل کا سارا پانی پی ٹی وی کی طرف بہہ گیا۔ پھر یوں ہوا کہ
جویاں نہ کھنچ سکے وہ وہاں جا کے دم ہوئے

آرٹ کونسل کا اسٹیج پھر سونا ہو گیا۔ ادھر کے مال کی ٹی وی میں بہت اچھی قیمت لگی۔ ان کا ہنر بھی وہاں جا کر چمکا۔ وہ نیا میڈیم، اس کا اپنا گلیمر تھا۔ کتنی جلدی ٹی وی کے اسکرین ڈرامے کو پر لگ گئے۔ اور وہ جو کمال کے پاس ہنر تھا طنز و تعریض کا، تمسخر کا اور پھر قلم بھی رواں اور زبان رواں۔ پھر جوڑی دار بھی غضب کا ملا۔ یہ الف بالکل سینک سلائی، وہ نون گول مٹول 
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانہ دو

کمال کو کتنی جلدی درجۂ کمال حاصل ہو گیا اور کتنی جلدی قبول عام کی سند مل گئی یہ کھیل تھا ’’خوابوں کے مسافر۔ 

کمال احمد کی جیت یہ تھی کہ جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ خالی اداکاری کا ہنر تو ان کے پاس نہیں تھا، ان کا قلم بھی خوب چلتا تھا یعنی اسکرپٹ کے لیے وہ کسی دوسرے کے قلم کے محتاج نہیں تھے۔ طنز، مزاح، تمسخر کا گرم مسالا بھی خوب ہی تیار کیا اور اس گرم مسالے کو معاشرتی معاملات و مسائل کے ساتھ دال دلیا کر دیا اور ہنڈیا کو چولہے پر چڑھا دیا۔ لیجیے دم کے دم میں ہنڈیا دم میں آ گئی۔ ٹی وی کے سامعین کی عید ہو گئی اور کمال کی واہ واہ ہو گئی۔ چپڑی اور دو دو۔ قدرداں بھی۔

انتظار حسین

Post a Comment

0 Comments