All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

آرمی چیف کا دورہ امریکا: کیا کھویا؟ کیا پایا ؟

پاکستان آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا دورہ امریکہ پروٹوکول سے لے کر امریکیوں سے ملاقات ومذاکرات اور طے پانے والے نکات تک ہر لحاظ سے پاکستان کے لئے اہم دورہ تھا، گوکہ پاکستانی سائیڈ سے ان ملاقاتوں اور دورے کی مصروفیات کا ’’سنگل سورس‘‘ یعنی واحد ذریعہ آئی ایس پی آر کے مختصر ٹوئٹ تھے اور باقی ہر طرح کی احتیاط اور خاموشی کی حکمرانی رہی مگر امریکی نظام کی راہداریوں سے واقف چند تجربہ کار پاکستانی صحافی گاہے بگاہے امریکی ذرائع سے خبریں نکالنے میں کامیاب رہے۔

 یہ دورہ تو اب نہ صرف مکمل ہوچکا بلکہ دونوں طرف سے اس وقت تک دورہ واشنگٹن کے حوالے سے رپورٹیں، سفارشات اور عملی اقدامات کے بارے میں تجاویز بھی تیار کرکے بھجوائی جا چکی ہوں گی۔ پاکستان کے عسکری اور سیاسی حلقوں میں ابھی تک اس دورہ واشنگٹن کے مقاصد و نتائج کے حوالے سے ایک بحث جاری ہے کہ’’ کیا کھویا؟ کیا پایا؟‘‘ کسی تمہید کے بغیر میرے مشاہدہ کے مطابق حقائق کچھ یوں ہیں۔

  جن حلقوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ امریکی عسکری قائدین کو اس دورے سے زیادہ دلچسپی نہیں اور جنرل راحیل شریف خود امریکہ آئے ہیں۔ اس بات کی حقیقت جنرل راحیل شریف کو ملنے والے پروٹوکول اور 16 نومبر کو امریکی سی آئی اے کے سربراہ جان برینن سے ملاقات کرکے دورہ واشنگٹن کے آغاز نے ہی واضح کردی۔ امریکی محکمہ دفاع ایشٹن کارٹر،ا سٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں وزیر خارجہ جان کیری، نائب وزیر دفاع، جوائنٹ چیفس آف اسٹاف اور اپنے ہم منصب سے ملاقاتیں ہی یہ واضح کررہی ہیں کہ یہ دورہ صرف پاکستانیوں کے لئے ہی نہیں بلکہ امریکیوں کے لئے بھی اہم تھا۔
 صرف عسکری قیادت ہی نہیں بلکہ سویلین منتخب امریکی قیادت یعنی منتخب امریکی سینیٹرز اور بعدازاں اراکین کانگریس کے ساتھ حساس امور پر بند کمروں میں گفتگو ہوتی رہی۔ نائب صدر جوزف بائیڈن اور وہائٹ ہائوس میں نیشنل سیکورٹی اور ہوم لینڈ سیکورٹی کے اعلیٰ حکام سے بھی ملاقات یہ واضح کررہی ہے کہ امریکی عسکری قیادت، منتخب قیادت اور اوباما ایڈمنسٹریشن کی قیادت نے اس دورے کو نہ صرف اہمیت دی بلکہ راحیل شریف کو ایک ذمہ دار عسکری نمائندہ سمجھ کر مذاکرات کئے ہیں۔

 پاکستانی ذرائع کو چھوڑئیے صرف امریکی ترجمانوں کے بیانات اور تبصروں پر نظر ڈال کر خود رائے قائم فرمائیں کہ یہ دورہ واشنگٹن کیسا رہا؟ پینٹاگون کے ترجمان راجر کیبی نس نے دورے کے آغاز پر کہا کہ امریکی وزیر دفاع، نائب وزیر دفاع اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف (یہ تمام امریکی عہدے پاکستانی چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے سے پروٹوکول میں اعلیٰ ہیں) آرمی چیف آف اسٹاف کا خیرمقدم کرتے ہیں اور دو طرفہ دفاعی تعلقات پر تعمیری گفتگو کے منتظر ہیں۔ ساتھ ہی امریکی ترجمان نے اس بات پر شکریہ ادا کیا کہ جنرل راحیل شریف گفتگو میں ذاتی طور پر حصہ لے رہے ہیں۔

 امریکی سینیٹ کی آرمڈسروسز کمیٹی کے چیئرمین ری پبلکن سینیٹر جان مکین نے ’’جنرل راحیل شریف کے دورے اور تعمیری ملاقات کا شکریہ ادا کیا۔ اُن کی لیڈر شپ اور دہشت گردی کے خلاف پاکستانی فوجیوں کی بہادری اور قربانیوں کو بھی خراج تحسین پیش کیا۔میٹنگ افغان صورتحال اور داعش کے خلاف جنگ پر مرکوز رہی اور دونوں ملکوں کے درمیان دہشت گردوں کے خلاف تعاون اور روابط کو مزید بہتر بنانے کے بارے میں بات چیت ہوئی۔‘‘ امریکی نائب صدر جوزف بائیڈن نے جنرل راحیل شریف سے اپنی 19 نومبر کی میٹنگ میں 22 اکتوبر کو وزیر اعظم نواز شریف سے اپنی ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے پاک امریکہ تعلقات کی مضبوطی کی کوششوں کا ذکر کیا اور جنرل راحیل شریف کا انسداد دہشت گردی کے لئے امریکہ سے تعاون کا شکریہ ادا کیا۔

بیان کے مطابق امریکی نائب صدر اور جنرل راحیل شریف نے افغانستان میں امن کا اعادہ کرتے ہوئے پاکستان اور افغانستان کے اہم رول کے ذریعے مل کر مصالحت کے عمل میں تعاون اور خطے میں سیکورٹی کو مستحکم کرنے کا وعدہ دہرایا۔‘‘ امریکہ کے فوجی، پارلیمانی اور انتظامی قائدین کے بطور نمونہ یہ بیانات بہت کچھ سمجھنے میں رہنمائی کرتے ہیں کہ اس دورے کے امریکی کتنے منتظر تھے اور پاکستان کے علاوہ امریکہ کو بھی اس دورے کی اتنی ضرورت کیوں تھی؟ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی ملاقات اور ترجمانوں کے بیانات بھی اسی سمت میں ہیں۔
۔ 16نومبر تا 19 نومبر جنرل راحیل شریف کی امریکیوں سے ملاقات کی تفصیل، اتفاق کے نکات اور اختلافی امور کے بارے میں پاکستان کی جانب سے خاموشی اور مختصر ٹوئٹ کے نظام پر عمل کیا جاتا رہا۔ 19 نومبر کی شام پاکستانی سفارتخانے کی عمارت میں منتخب پاکستانیوں کا دعوت ناموں کے ذریعے ایک کمیونٹی ڈنر ہوا جس سے آرمی چیف نے مختصر سا خطاب کیا۔ جبکہ پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی نےجنرل راحیل کا خیرمقدم کیا ۔

 اس اجتماع میں مدعو صحافیوں کو فون، کاغذ پین لانے کی ممانعت اور آرمی چیف کی تقریر بھی ’’آف دی ریکارڈ‘‘ تھی۔ مگر ایک نوجوان رپورٹر نے اخلاقی پابندی کی حدود کو توڑ کر اس تقریر کے نکات کو ’’آن دی ریکارڈ‘‘ کرکے وہاں موجود صحافیوں کے لئے شرمندگی کا ماحول پیدا کردیا۔ کسی بھی صحافی کے لئے ’’آف دی ریکارڈ‘‘ کی پابندی انتہائی ناپسندیدہ ہوتی ہے مگر جب اس اخلاقی پابندی کو تسلیم کرکے شرکت کریں تو پھر اس پابندی کا احترام لازم ہونا چاہئے۔ 

خیر ہم صحافیوں کو شروع ہی سے اس دورے کی کوریج کی پاکستانی حکمت عملی پر شکایت تھی مگر 19 نومبر کے کمیونٹی ڈنر کے ساتھ ہی آئی ایس پی آر کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے اپنی محتاط عملی کے تمام بندھن توڑ دیئے۔ دوران ڈنر صحافیوں کی ٹیبل پر آ کر انہوں نے دورے کے مختلف پہلوئوں پر بات کی، سوال و جواب بھی ہوئے۔ ڈنر کے بعد ایک تفصیلی پریس کانفرنس بھی کی اور مختلف چینلوں کو انٹرویوز بھی دیئے۔ جس سے دورہ واشنگٹن کے مختلف پہلو مزید اجاگر ہوئے۔ ڈنر کے دوران خود آرمی چیف تمام مہمانوں کی ٹیبل پر جا کر ملے۔ اُن کے سوالات کے جواب بھی دیئے، اپنی مختصر اور بامقصد تقریر پر تبصرے بھی سنے۔ جی ہاں اُن کی تقریر کا ایک جملہ سب کی توجہ کا مرکز بنا کہ  میں نے آگے جانے کا راستہ نکالا ہے۔

میری دانست میں انہوں نے یہ بات پاک امریکہ تعلقات میں موجود مسائل و مشکلات کے تناظر میں کہی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اُن کے دورے کا گرمجوشی کے ساتھ خیرمقدم امریکیوں نے کیا ہے اور بامقصد بات چیت بھی ہوئی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ خیر مقدمی بیانات، قربانیوں کی تعریف اور دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کا اعادہ اور نوید باہمی عزت و احترام بڑھانے کا کام دیتے ہیں لیکن اصلی اور عملی حقائق کہاں اور کس نوعیت کے ہیں؟

 اس دورے میں کیا معاملات طے پائے ہیں؟ پاکستان نے امریکہ کے کون سے مطالبے تسلیم کیے اور امریکہ نے پاکستان کے کن مطالبات کو تسلیم کیا ہے؟ کیا سمجھوتہ ہوا، کیا ڈیل ہوئی؟ خطے میں پاک بھارت کشیدگی ختم کرنے کے بارے میں کیا طے پایا؟ نیوکلیئر معاملات پر ہم کہاں کھڑے ہیں۔ اس دورے میں دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعلقات کو فروغ دینے کے بارے میں کیا فیصلے ہوئے؟ ملک کی داخلی صورتحال میں سویلین اور دفاعی قیادت کو ’’ایک پیج پر‘‘ رکھ کر دہشت گردی کے خاتمے کی حکمت عملی کیا ہے؟ عوام میں مقبول آرمی چیف اس حوالے سے عوام کی رہنمائی کریں۔  

عظیم ایم میاں
بشکریہ روزنامہ 'جنگ 

Post a Comment

0 Comments