All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

سب دھوکا ہے

پاکستان کے فوجی حکمرانوں کو قومی و صوبائی اسمبلیوں کی اتنی ضرورت نہیں تھی جتنی غیر جماعتی بلدیاتی اداروں کی۔ تا کہ ایک احسان مند تابعدار متوازی قیادت قومی و صوبائی سیاست پر عشروں سے قابض سیاسی مگر مچھوں کے مقابل اتاری جا سکے اور یہ بھی اندازہ ہوتا رہے کہ نچلی سطح پر عام آدمی فوجی حکمرانوں کے بارے میں کیا سوچتا ہے۔ جواز یہ پیش کیا گیا کہ جب تک نچلی سطح پر جمہوری کلچر پیدا نہیں ہو گا تب تک قومی و صوبائی اسمبلی کے پتوں کو پانی دینے سے کچھ حاصل نہ ہو گا اور جمہوریت کی روح اوپر کے دو پنجروں میں ہی پھڑپھڑاتی رہے گی اور ووٹر صرف وہ اے ٹی ایم مشین بنا رہے گا جس سے اوپر کے دو بادلوں ( مرکز اور صوبہ ) پر رہنے والے مقتدر خاندان حسبِ ضرورت و منشا ووٹ بینک سے نوٹ نکالتے رہیں۔

ہر فوجی دور کے بعد جب جب بھی سیاسی حکومتیں آئیں انھوں نے بلدیاتی اداروں کو فوجی ادوار کی باقیات سمجھ کر فوجی حکمرانوں کا بلدیاتی نظریہ دانستہ یا نادانستہ طور پر درست ثابت کیا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ دو تہائی اکثریت سے آنے والی حکومتوں سے بھی جب بلدیاتی سطح تک اختیارات کا بٹوہ ڈھیلا کرنے کا مطالبہ کیا جاتا تو یا تو بات بدل دیتے یا اس طرح کی بہانہ سازیوں پر اتر آتے کہ ’’ابھی مناسب وقت نہیں آیا، کروا لیں گے جلدی کیا ہے، آپ کو آخر اتنی دلچسپی کیوں ہے بلدیاتی نظام سے۔ اس ملک میں اور بھی تو مسائل ہیں وغیرہ وغیرہ وغیرہ 

مجھ جیسوں کو آج بھی حیرت ہے کہ جمہوریت پسندوں کو جب بلدیاتی نظام سے اتنی ہی چڑ تھی تو انھوں نے انیس سو تہتر کے آئین میں لوکل گورنمنٹ کے قیام کے لیے خود کو پابند کیوں کیا اور جب پابند کر ہی لیا تو پھر یہ آئینی ذمے داری پوری کیوں نہ کی۔ وہ تو بھلا ہو سپریم کورٹ کا جس نے الیکشن کمیشن اور منتخب صوبائی حکومتوں کو گردن سے پکڑ کے اڑسٹھ برس میں پہلی بار بلدیاتی انتخابات کے انعقاد پر مجبور کر دیا۔

یہ وہی صوبائی حکومتیں ہیں جنہوں نے ہمیشہ بین کرتے ہوئے زانو پیٹے کہ پاکستانی فیڈریشن کا بس نہیں چلتا کہ وہ صوبوں کو بالکل بے دست و پا کر کے رہے سہے اختیارات بھی اپنے ہاتھوں میں جمع کر لے۔ جب تک مرکز سے صوبوں کو اختیارات و وسائل کی منصفانہ تقسیم نہیں ہو گی تب تک نہ انصاف ہو گا اور نہ ہی صوبوں کی اختیاراتی و مالیاتی بے بسی دور ہو گی اور نہ ہی یکسوئی سے ترقی ہو گی۔ خدا خدا کر کے زرداری حکومت نے متفقہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبوں کا یہ رونا بھی کسی حد تک ختم کر دیا۔

 لیکن ہوا کیا؟ صوبوں نے مرکز سے ملنے والے اختیارات اپنے پاس رکھ لیے۔ اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے چار برس بعد بس اتنا فرق پڑا کہ پہلے اختیارات کے خزانے پر مرکز کا چوکیدار بیٹھا ہوا تھا اب اس خزانے پر چار اور چوکیدار بھی موٹا ڈنڈا لے کے بیٹھ گئے ہیں۔ جیسے مرکز صوبوں کو ترساتا تھا اب صوبے بلدیاتی اداروں کو اسی طرح ترسانے کا لطف لے رہے ہیں۔

یقین نہ آئے تو چاروں صوبوں کے بلدیاتی اختیارات کا ڈھانچہ دیکھ لیجیے۔ صوبائی حکومتوں کے مرتب و منظور کردہ بلدیاتی مسودوں میں انتظامی و مالیاتی اختیارات اور محکمہ جاتی فرائض کی تقسیم کا فارمولا دیکھ لیجیے۔ آپ کو یوں لگے گا کہ عوام کو نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی کے نام پر بلدیاتی اختیار کی تمام سڑکیں صوبائی گھنٹہ گھر سے شروع ہوتی ہیں اور وہیں پر ختم ہوتی ہیں۔ ایک ہاتھ سے اختیار دیا جا رہا ہے اور دوسرے ہاتھ سے اس کا استعمال روکا جا رہا ہے۔

جس طرح منتخب وفاقی حکومت کی سمت درست رکھنے کے لیے ایک سپر گورنمنٹ (عسکری اسٹیبلشمنٹ) گردن پر گرم گرم سانس چھوڑتی رہتی ہے اسی طرح منتخب بلدیاتی اداروں کے سر پے ڈپٹی کمشنر سمیت صوبائی بیورو کریسی  کی صورت میں ایک سپر گورنمنٹ بلدیاتی اداروں میں صوبائی مداخلت یقینی بنانے اور انھیں جا بجا گدگدی کرنے پر مامور  ہے۔ یعنی بلدیاتی عہدیدار ایک جانب اپنے ووٹروں کو جوابدہ ہیں اور دوسری جانب معمولی مالیاتی و انتظامی نقل و حرکت کے لیے صوبائی مشینری کی خوشامد اور چشمِ ابرو پر نگاہ رکھنے کے بھی پابند۔

صوبائی حکومتیں بلدیاتی اداروں کو اختیارات کی منتقلی کے تصور سے اس قدر بدظن نظر آتی ہیں کہ خیبر پختون خوا کی صوبائی حکومت نے اپنے بلدیاتی اداروں کے لیے رولز آف بزنس انتخابات سے پہلے بنانے کے بجائے بعد میںانتخابی نتائج کے حقائق کی روشنی میں مرتب کیے ہیں۔ جب کہ سندھ اور پنجاب میں رولز آف بزنس اس وقت بھی زیرِ تعمیر ہیں۔ جب پورے نتائج آ جائیں گے، تمام کامیاب آزاد امیدوار بھی صوبوں پر حکمران جماعتوں کے تانگے میں سوار ہو جائیں گے اور یہ اطمینان ہو جائے گا کہ بلدیاتی ادارے ایک فرمانبردار بہو کے طور پر اپنی پانچ سالہ مدت گزاریں گے تب انھیں صوبائی کچن میں گھس کے مانگے تانگے کے برتن میں اپنی کھیر پکانے کی محدود اجازت دان کر دی جائے گی۔ سرتابی کی صورت میں خرچہ بند، مزید سرتابی کی صورت میں طلاق کی دھمکی۔۔۔

سپریم کورٹ زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتی تھی کہ وہ صوبوں کو بلدیاتی اتتخابات کروانے پر مجبور کر دے۔ سو اس نے مجبور کر دیا۔ والدین بچے کو زبردستی کھانے کی میز پر تو بٹھا سکتے ہیں لیکن کھانا رغبت سے کھانے پر بہرحال مجبور نہیں کر سکتے۔ چنانچہ جو اختیارات صوبوں نے مرکز سے اپنا حق سمجھ کے وصول کیے ان میں سے کچھ اختیارات اگر بلدیات کو منتقل کیے بھی جا رہے ہیں تو احسانیہ بھیک سمجھ کے۔ وہی اختیارات دیے جا رہے ہیں جن سے صوبے کی آمریت پر کوئی فرق نہ پڑے۔ جیسے ہم میں سے اکثر لوگ وہی پرانے کپڑے لتے مستحقین میں بانٹتے ہیں جو گھر والوں کے کسی کام کے نہیں رہتے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ صوبائی حکومتیں بلدیاتی اداروں کو بے دست و پا رکھ کے دراصل انھی ووٹروں کی توہین کر رہی ہیں جنہوں نے ان حکومتوں کو مرکز اور صوبوں میں اپنے ووٹ کے طفیل عزت بخشی۔ لیکن جب انھی ووٹروں نے بلدیاتی انتخابات کی شکل میں اپنی ہی منتخب اوپر کی حکومتوں سے صرف اتنے اختیارات مانگنے کی خواہش ظاہر کی جن کے ذریعے گلی محلے صاف رہ سکیں، تعلیم اور صحت کی سہولتوں کے بارے میں فیصلہ مقامی سطح پر ہو سکے اور شہری و دیہی ترقیاتی منصوبوں میں کرپشن پر براہِ راست نگاہ رکھی جا سکے تو ان ووٹروں کو انھی کے ووٹوں کی احسان مند حکومتیں لنڈے کی اختیاراتی اترن تھما رہی ہیں۔

یہ کون سیاستدان ہیں جنھیں کسی بھی قومی و صوبائی انتخاب میں در در جا کے ووٹ کی بھیک لیتے شرم نہیں آتی مگر اس ووٹ کے عوض اپنی تجوری سے اختیارات کے چند بلدیاتی سکے بھی ووٹروں کی جانب اچھالتے ہوئے بے حسی اوڑھ لیتی ہے۔
 کچھ حیا ہوتی ہے، کچھ شرم ہوتی ہے، کوئی تہذیب ہوتی ہے، کوئی تمیز ہوتی ہے‘‘۔ ( قولِ خواجہ آصف کہ جن کی مسلم لیگ ن نے پنجاب کا بلدیاتی قلعہ فتح کر لیا)۔
 پیپلز پارٹی اور دوسری جماعتوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ پیپلز پارٹی غریبوں اور مظلوموں کے دلوں میں بستی ہے اور باقی جماعتیں ان غریبوں اور مظلوموں کے دلوں میں بسنے کا ڈرامہ کرتی ہیں‘‘۔ ( قولِ آصف علی زرداری کہ جن کی پیپلز پارٹی نے سندھ کا بلدیاتی قلعہ فتح کر لیا)۔

 پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں عوام نے حکومت نہیں کی بلکہ ہمیشہ عوام کے نام پر حکومت کی گئی‘‘۔ (قولِ عمران خان کہ جن کی تحریکِ انصاف نے خیبر پختون خوا کے بلدیاتی انتخابات میں اکثریت حاصل کی)۔
 بلوچستان کے لوگوں سے ہمیشہ سوتیلے پن کا سلوک کیا گیا۔ یہ آخری موقع ہے کہ اس سلوک کو بدلا جائے‘‘۔ (قولِ وزیر ِاعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک)۔

وسعت اللہ خان


Post a Comment

0 Comments