All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

سعودی عرب، تہران تصادم سے بچیں

ستائیس برس قبل لڑی گئی عراق اور ایران جنگ سے شروع ہونے والی سعودی عرب ایران کشیدگی انتہاوں کو چھو رہی ہے۔ واقف حال جانتے ہیں کہ ایران سے متعلق سعودی تحفظات کی وجوہات کیا ہیں۔ ایران اس حد تک پھیل چکا ہے کہ سعودی عرب کے گردو نواح میں وہ عسکری لحاظ سے فعال اور موجود ہے۔ سعودی عرب کے شمال میں عراق اور جنوب میں یمن میں عسکری موجودگی کے علاوہ مشرق میں بحرین کے اپوزیشن گروپوں کی شکل میں ایران موجود ہے۔ ایران، شام میں بھی ہے جہاں براہ وہ جنگ میں ملوث ہے۔ مالی وسائل اور افرادی قوت کی شکل میں ایران ایک ایسے منصوبے میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے جس کا بظاہر مقصد خلیجی ریاستوں کا گھیراو کرنا ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی نہ ہوتی تو اعلی سیاسی قیادت جس میں ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای اور صدر ڈاکٹر حسن روحانی شامل ہیں، سانحہ منی کو سیاسی رنگ کبھی نہ دیتے، حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ حج کے موقع کے دوران 25 لاکھ سے زائد عازمین کی موجودگی کے باعث ایسے حادثات کا ہمیشہ دھڑکا لگا رہتا ہے۔ یہ افسوسناک سانحہ جو سیکڑوں عازمین حج کی رحلت کا باعث بنا، کو سیاسی رنگ دینے کا مقصد اس کے علاوہ کچھ نہ تھا کہ ایرانی شہریوں کو سعودی عرب کے خلاف بھڑکایا جائے اور اینی بیرونی مہمات کو جائز بنایا جائے۔
سعودی عرب کے خلاف ایران کا دوسرا احتجاج یمن میں جاری عسکری کارروائی پر ہے۔
یمن میں سعودی اتحاد کی فوجی مداخلت پر ایران کے سخت تحفظات ہیں حالانکہ سیکیورٹی کونسل کے ارکان نے مداخلت کے بعد سب سے پہلے حوثی باغیوں ایرانی ہتھیاروں کی فراہمی کے راستے بند ہوئے جس میں سمندری اور فضائی راستے دونوں شامل ہیں، پھر امریکی نیوی کی مدد سے ایرانی جہازوں کی تلاشی شروع کر دی گئی۔ دونوں کے درمیان بالواسطہ شام میں محاذ رائی ہو چکی ہے جب بشار الاسد حکومت کی جانب سے لڑنے والے ایرانی پاسداران انقلاب اور اس کی اتحادی لبنانی، عراقی۔ افغانی ملیشاون کے ساتھ سعودی حمایت یافتہ اپوزیشن کا تصادم ہوا، شام کی لڑائی خطے کی بدترین انسانی المیے کا پیش خیمہ بنی کہ اس میں ڈھائی لاکھ سے زائد شامیوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے جبکہ ایک کروڑ سے زائد بے گھر ہوئے۔

عراق میں تیسری حد بندی ہونے والی ہے جو کہ انتہائی خطرناک ہے۔ بغداد حکومت پر ایران کا غلبہ اور اس کے مختلف صوبوں میں ایرانی فوج کا براہ راست ملوث ہونا دنیا سے ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ مشرق وسطی میں ایران کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں امریکی انتظامیہ کے بیانات کی نفی کرتی ہیں کہ نیوکلیئر ڈیل کے بعد ایران کی توجہ داخلی امور پر مرکوز ہو جائے گی، تمام بیرونی مہمات سے دستبردار ہو کر اقتصادی بہتری کے لئے ہمسایہ ملکوں کا تعاون حاصل کرنے گا اور اپنے شہریوں کا معیار زندگی بلند کرنے پر توجہ مرکوز کر دے گا۔ مگر خطے میں جو کچھ ہو رہا ہے، امریکی بیانات کے برعکس ہے۔

سعودی عرب اور ایران کے مابین بڑھتی کشیدگی ایک وارننگ ہے کہ اگر دونوں ملکوں نے معمول کے سفارتی تعلقات استوار نہ کئے اور سفارتی آداب ملحوظ نہ رکھے تو صورتحال قابو سے باہر ہو جائے گی۔ ایران کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل سے عرب ملکوں کی تشویش میں اضافہ ہوا ہے، کہ اس کی وجہ سے تہران پر عائد معاشی اور عسکری پابندیا ختم ہو گئی ہیں جس کے بعد ایران کے ساتھ سعودی عرب خصوصی طور پر عرب دنیا کے تنازعات بڑھ گئے ہیں، میڈیا اور سفارتی حلقوں میں نوک جھوک بھی بڑھ گئی ہے۔
یہ بڑھتی ہوئی کشیدگی تقاضہ کرتی ہے کہ رابطوں میں اضافہ کیا جائے، کشیدگی کے محرکات اور وجوہات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو یمن، بحرین، عراق، شام اور دیگر ملکوں میں خانہ جنگی چلتی رہے گی؛ اس کے ساتھ مسلم دنیا میں فرقہ وارانہ کشیدگی بھی بڑھے گی۔ جب تک سیاسی تنازعات ختم نہیں ہوتے، اس وقت تک مذہبی جھگڑے ختم ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ سیاسی تنازعات کے خاتمے تک دونوں ملکوں کو کوشش کرنا ہو گی کہ ان کے مابین دوطرفہ کشیدگی قابو سے باہر نہ نکلے۔

عبدالرحمان الراشد

Post a Comment

0 Comments