All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

عمران خان صاحب سے ایک التجا

عمران خان صاحب دنیا کے خوش قسمت ترین انسانوں میں سے ایک ہیں۔ کرکٹ بہت سارے لوگوں نے کھیلی اور کئی کپتان اپنے اپنے ملک کو ورلڈ کپ جتواچکے لیکن عالمی سطح پر جو شہرت اور ملکی سطح پر جو محبت انہیں ملی ٗ کسی اور کرکٹر کو نہیں ملی۔ وہ ذہین اور ہوشیار بھی بلا کے واقع ہوئے اور کمال مہارت سے اس عزتٗ شہرت اور محبت کو شوکت خانم اسپتال کے لئے استعمال کیااور پھر ان تینوں چیزوں اور اثرورسوخ کو بڑی مہارت کے ساتھ سیاست کے لئے استعمال کر کے تحریک انصاف بنائی۔

 دولت کی کمی نہیں تھی کیونکہ ایک طرف ملک کے اندر لوگ ان پر نوٹ نچھاور کررہے تھے تو دوسری طرف دنیا کے امیر ترین خاندانوں میں سے ایک یعنی گولڈا سمتھ خاندان کی دولت بھی ان کی دسترس میں آئی۔ گولڈ اسمتھ کا داماد ہونے کے ناطے مغربی قوتوں نے ان سے اپنی توقعات وابستہ کیں تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے نالاں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے انہیں متبادل سیاسی قوت بنانے کے لئے ان کا انتخاب کیا۔

ہم جیسے چند طالب علم ان کی سیاست کے حق میں نہیں تھے لیکن ہمارے تجزیوں کو مسترد کرکے نظام سے نالاں ایک بڑے پاکستانی طبقے نے انہیں اپنی امیدوں کا مرکز بنالیا۔ ان پر قدرت کی خاص مہربانی ملاحظہ کیجئے کہ مغرب کے منظور نظر ہوکربھیٗ پاکستان میں مغرب مخالف دائیں بازو کے لوگوں نے مغرب کا مخالف نمبرون سمجھ کر انہیں اپنا لیڈر مان لیا۔ اسی طرح اسٹیبلشمنٹ کا محبوب ہونے کے باوجود جاوید ہاشمی جیسے اس کے نمبرون مخالفین بھی ان کے گرد جمع ہونے پر مجبور ہوئے۔
ان کی خوش قسمتی اور پاکستان کی بدقسمتی تھی کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی قیادتوں نے پرویز مشرف کےمارشل لاء میں اٹھانے والی ہزیمتوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور پہلے سے زیادہ آمرانہ سوچ کا مظاہرہ کرتے رہے۔ اسی طرح وہ کھربوں کے مالک ہوکر بھی دولت کے شوق پر قابو نہ پاسکے۔ یوں وہاں سے مایوس ہونے والے سیاسی کارکنوں کا آخری ٹھکانہ عمران کی جماعت قرار پائی۔

باقی سیاسی رہنما صرف سیاسی لیڈر ہیں لیکن عمران خان کو جو لوگ سیاسی لیڈر نہیں مانتے وہ بھی بطور کرکٹر ان کے قدردان ہیں۔ ہم جیسے ان کے نقاد بھی بطور سوشل ورکر ان کی کاوشوں کے مدح خواں ہیں۔ یوں وہ لیڈر سے زیادہ ایک سیلبریٹی ہیں۔ پہلے جمائما خان اور پھر ریحام خان کے ساتھ شادی نے ان کی سیلبریٹی کی حیثیت کو اور بھی چمکا دیا۔ ان حیثیتوں کی وجہ سے وہ میڈیا میں سب سے زیادہ ریٹنگ دینے والے لیڈر اور یوں میڈیا کے چہیتے قرار پائے۔

میڈیا اس تناظر میں ان پر مہربان تو تھا ہی اسے اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی نے ان پر اور بھی مہربان کردیا۔ مذکورہ تمام عوامل نے مل کر عمران خان کو ووٹوں کے لحاظ سے پاکستان کی تیسری بڑی جماعت کا قائد اور ذاتی مقبولیت کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے مقبول لیڈر بنا دیا۔ وہ چاہتے تو پاکستان کی تقدیر بدل سکتے تھے لیکن افسوس کہ ان سے چند ایسی غلطیاں سرزد ہوئیں کہ جن سے پاکستان کے فلاحی ریاست بننے کی منزل تو کوسوں دورہوئی ہی ٗ ان کے وزارت عظمیٰ کی منزل بھی سالوں دور ہوگئی اور اگر وہ اسی ڈگر پر گامزن رہے تو وہ منزل کبھی نہیں پاسکیں گے۔

کسی سیاسی لیڈر کے لئے وزارت عظمیٰ کے حصول کی کوشش بری نہیں بلکہ فطری امر ہے لیکن خان صاحب اس معاملے میںضرورت سے زیادہ جذباتی اور عجلت پسند واقع ہوئے۔ وہ سہاروں کی تلاش میں شارٹ کٹ کا انتخاب کرنے لگے۔ وہ اسٹیٹس کو توڑنے کا نعرہ لگا کر سیاست کے میدان میں اترے تھے لیکن اسٹیٹس کو کی علمبردار سب سے بڑی قوت کا مہرہ بننے لگے۔ اسی روش میں پہلے انہوں نے پرویز مشرف کی حمایت کی ۔ پھر ان کے جانشینوں کے کہنے پر پرویز مشرف کے مخالف نمبرون بنے ۔ انہی کے اشارے پر طالبان اور ڈرون کے معاملے پر انہی قوتوں کی پالیسی کے سب سے بڑے وکیل بنے رہے۔
انہی قوتوں کے لائے ہوئے روایتی مہروں کو پارٹی کا والی وارث بنایا اور گزشتہ انتخابات کے بعد تو ان قوتوں کے ایماء اور پارٹی کے اندر موجود ان کے مہروں کے اشارے پر دھرنے کے ذریعے پارلیمنٹ پر حملے اور سول نافرمانی جیسے غیرجمہوری اقدامات تک پر تیار ہوئے۔ گزشتہ دو ڈھائی سالوں کے دوران پی ٹی آئی نے جو سیاست کی اس کے نتیجے میں میاں نوازشریف تو اسٹیبلشمنٹ کے قدموں میں بیٹھنے پر مجبور ضرور ہوئے لیکن تحریک انصاف کے حصے میں بھی رسوائی کے سوا کچھ نہیں آیا۔ عمران خان کی ذات جو پہلے تبدیلی کی علامت تھی ٗ یوٹرن کی علامت بن گئی۔

پی ٹی آئی ٗ جو مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی جیسی جماعتوں کے متبادل کے طور پر میدان میں آگئی ٗ ایک اور مسلم لیگ(ق) بن گئی اور تحریک انصاف سیاست میں شائستگی کی علامت بن کر میدان میں اتری تھیٗ لیکن بدزبانی کی علامت بننے لگی۔ وغیرہ وغیرہ جبکہ اب رہی سہی کسر لاہور کے ضمنی انتخابات نے پوری کردی۔ جوڈیشل کمیشن کے فیصلے سے عدالتی محاذ پر پی ٹی آئی کو شکست ہوئی اور اب ضمنی انتخابات کے نتیجے نے عوامی سطح پر اس کی سیاست کو مسترد کردیا۔ لیکن افسوس کہ اردگرد جمع ہونے والے مشیروں نے اسپورٹس مین عمران خان کو ایسی راہ پر لگا دیا ہے کہ کسی صورت اپنی شکست اور اپنی غلطی نہیں ماننی ہے۔

 یہ روش جاری رہی تو پی ٹی آئی کے مستقبل کو تاریکی اور رسوائی سے کوئی نہیں بچاسکے گا۔ حالانکہ اس جماعت کو زندہ رہنا چاہئے۔ یہ جماعت سرمایہ داروںٗ روایتی سیاستدانوں یا پھر عالمی اور مقامی خفیہ طاقتوں کے کارندوں کے چنگل میں پھنس ضرور گئی ہے لیکن اس کے کارکن آج بھی پاکستان کا بڑا سرمایہ ہیں۔ اس کے کارکنوں کی اکثریت آج بھی ان لوگوں پر مشتمل ہے جو حقیقی تبدیلی کے آرزو مند ہیں۔

یہ جماعت ایسی جماعت بن گئی ہے کہ جس کے چاہنے والے گلگت سے کراچی تک موجود ہیں اور اسی نوع کی قومی جماعتیں جیسی بھی ہوں پاکستان کی ضرورت ہیں۔ پاکستان اس وقتی لفٹ اور رائٹ یا پھر مذہبی اور لبرل کی ایک بھیانک تقسیم کی طرف جارہا تھا اور پی ٹی آئی واحد ایسی جماعت ہے کہ جس نے اپنی آغوش میں ان دونوں کو ایک ساتھ لے لیا ہے۔ مجھے یہ بھی احساس ہے کہ عمران خان کے بارے میں میری طرح سخت اور منفی رائے بہت کم لوگ رکھتے ہیں اور آج بھی پی ٹی آئی کے کارکنان کی اکثریت ان کو مسیحا اور غلطیوں سے مبرا ہستی سمجھتے ہیں۔ گویا معاملہ بے انتہا خراب ہوکر بھی ان کے ہاتھ میں ہے۔ آج بھی عمران خا ن صاحب حوصلہ کریں اور تحریک انصاف کو اس کی اصل کی طرف لوٹانے کے لئے چند انقلابی فیصلے کریں تو نہ صرف ہم جیسے ناقدین کے منہ بند کرسکتے ہیں بلکہ تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ ملک کو بھی بچاسکتے ہیں ۔ وہ چند انقلابی اقدامات یہ ہوسکتے ہیں۔

دھرنوںٗ اسمبلی کی توہین ٗ سول نافرمانی اور مخالفین کو گالم گلوچ پر قوم سے معافی تو شاید نہ مانگ سکیں لیکن کم ازکم اسے غلطی تسلیم کرلیں۔
2012 کے بعد شامل ہونے والوں کی بجائے اس سے قبل پارٹی سے وابستہ مخلص لوگوں کو اہمیت دینے کا اعلان کریں۔ پارٹی کے اندر نمائشی نہیں بلکہ حقیقی جمہوریت لائیں۔ خوشامدیوں اور چاپلوسوں کی بجائے سچی اور کھری بات کرنے والوں کو قریب کریں۔

وہ لوگ جوچوہدری سرور کی طرح کسی اور ملک کے شہری ہیں اور کسی خاص مشن پر یہاں تشر یف لائے ہیں، وہ لوگ جو شاہ محمود قریشی اور شیخ رشید کی طرح ہر طرح کی اسٹیٹس کو کی علامتیں ہیں ٗ وہ لوگ جو اسد عمر اور شیریں مزاری کی طرح مخصوص طاقتوں کے نمائندے ہیں اور وہ لوگ جن کی طاقت اور پہچان عبدالعلیم خان اور اعظم سواتی کی طرح صرف اور صرف پیسہ ہے ٗ کی چنگل سے اپنے آپ اور پارٹی کو آزاد کریں۔

بدتمیزی کرنے اور ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بولنے والے ترجمانوں کی بجائے تہذیب کے دائرے میں بات کرنے والے سلیقہ مند لوگوں کو میڈیا میں اپنا ترجمان بنائیں۔ اسمبلی کے اندر مغربی ممالک کی طرز پر بھرپور تیاری اور ہوم ورک کے ساتھ بھرپور اپوزیشن کا کردار اپنالیں۔ حقیقی تھنک ٹینک بنا کر ہر شعبے میں آئینی اصلاحات کے لئے سنجیدہ کوششوں کا آغاز کریں۔ خیبرپختونخوا کی حکومت کی میرٹ پر تشکیل نو کریں اور ایڈہاک ازم کی بجائے ٗ بھرپور مشاورت کے نتیجے میں قابل عمل اور زمینی حقائق سے مطابقت رکھنے والی پالیسیاں بناکر قوم کے سامنے رکھ دیں۔
 
سلیم صافی
بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ‘‘

Post a Comment

0 Comments