All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

نواز شریف کی مشکلات

طالبان کی طرف سے قندوز پر قبضے کے بعد سے عالمی میڈیا میں ایک طوفان برپا ہے۔ طالبان نے یہ کام ایک ایسے وقت میں دکھایا جب دنیا بھر کے سربراہان مملکت، وزرائے اعظم اوروزرائے خارجہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے نیویارک میں جمع تھے۔ پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف کی جنرل اسمبلی میں تقریر سے دو دن قبل شمالی افغانستان کے اہم ترین شہر پر طالبان کے قبضے کے بعد افغان حکومت کے نمائندے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو نیویارک میں پاکستان کیخلاف الزام تراشیوں کا جواز مل گیا اور انہوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کی۔ اس سے قبل طالبان موسیٰ قلعہ پر بھی قبضہ کرچکے ہیں لیکن انہوں نے زیادہ دن یہ قبضہ برقرار نہیں رکھا۔
ہوسکتا ہے وہ چند دن میں قندوز سے بھی نکل جائیں کیونکہ اتنے بڑے شہر پر قبضہ برقرار رکھنا آسان نہیں لیکن سقوط قندوز کی ٹائمنگ نے وزیراعظم نواز شریف کیلئے بہت سے مسائل کھڑے کر دیئے۔ 

ایک طرف امریکی و برطانوی اخبارات میں یہ دعوے کئے جارہے ہیں کہ پاکستان میں طاقت کا اصل مرکز سیاسی حکومت نہیں بلکہ فوج ہے۔ دوسری طرف عمران خان نے نواز شریف حکومت کے خلاف اوپر تلے جلسوں کا اعلان کردیا اور تیسری طرف طالبان نے قندوز پر قبضہ کرکے افغان حکومت کیساتھ ساتھ تاجکستان اور ازبکستان کو بھی پاکستان کے بارے میں شکوے شکایتوں کے انبار لگانے کا موقع دے دیا۔ وزیراعظم نوازشریف نیویارک کے سالانہ سفارتی اجتماع میں مسئلہ کشمیر پر عالمی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف تھے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں پاکستان کا موقف بھرپور انداز میں پیش بھی کردیا لیکن قندوز پر طالبان کے قبضے نے کئی عالمی رہنمائوں کے لب و لہجے کو تبدیل کردیا۔ نوازشریف سے تشویشناک لہجوں میں سوال پوچھے جانے لگے۔

ان سوالات کے جواب میں نواز شریف یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ جائو اور یہ سوال اسی سے پوچھو جس کو تم مجھ سے زیادہ طاقتور قرار دیتے ہو کیونکہ جواب تو منتخب وزیراعظم کو ہی دینا ہے۔ نوازشریف نے افغانستان کے بارے میں کئی عالمی رہنمائوں کے تحفظات دور کرنے کی اپنے تئیں کوشش ضرور کی لیکن جب امریکی وزیر خارجہ اور بھارتی وزیرخارجہ ایک ہی زبان بولنے لگیں اور پاکستان میں کچھ کالعدم تنظیموں کے نام لے کر کہنے لگیں کہ ان تنظیموں کو نئے ناموں سے کام کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے اور جب قندوز پر طالبان کے قبضے کے بعد ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ یہ شور مچانے لگے کہ قندوز پرحملہ کرنے والوں میں کئی غیرملکی بھی شامل ہیں، تو پھر عالمی رہنما آپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں کے جائز دعوئوں کو بھی شک و شبے کی نظر سے دیکھیں گے۔

صورتحال یہ ہے کہ خارجی و داخلی محاذ پر ریاست یا حکومت کی کسی کامیابی کا کریڈٹ سیاسی حکومت کو نہیں ملتا جبکہ ہر ناکامی کا بوجھ سیاسی حکومت کے کندھے پر ڈال دیا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں سیاسی حکومت صرف کمزوری نہیں بلکہ نااہلی کا مظاہرہ بھی کر رہی ہے۔

سیاسی حکومت کی سب سے بڑی نااہلی یہ ہے کہ وہ قومی معاملات پر اتفاق رائے کو برقرار نہیں رکھ سکی۔ 2014ء میں وزیراعظم نوازشریف کے خلاف لانگ مارچ اور دھرنا ہوا۔ا س مشکل وقت میں جو جماعتیں نوازشریف کے ساتھ کھڑی تھیں اب انہیں کرپشن اور دہشت گردی کےالزامات کا سامنا ہے۔ بی بی سی کے اوون بینٹ جونز نے تو یہ تک کہہ دیا کہ سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کے الزام میں جو مقدمہ شروع کیا گیا تھا اس کی کارروائی ’’بلاک‘‘ کردی گئی ہے۔ نوازشریف اس مقدمے کو انجام تک پہنچانے کی ہمت نہیں رکھتے تھے تو انہوں نے یہ مقدمہ کیوں شروع کیا؟ مقدمے کی کارروائی ’’بلاک‘‘ ہونے کے بعد بھی انہوں نے یہ تاثر دیا کہ وہ ایک بااختیار حکمران ہیں لیکن زمینی حقائق تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ نندی پور پاور پروجیکٹ کے افتتاح کے موقع پر شہباز شریف کی طرف سے کامیابی کے دھواں دھار دعوے نواز شریف کیلئے ندامت میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹائون لاہور میں 14 افراد کے پولیس کے ہاتھوں قتل کی انکوائری ابھی مکمل نہیں ہوئی اور نندی پور پاور پروجیکٹ کی انکوائری بھی شروع ہوگئی۔

اس قسم کی ہر انکوائری شہباز شریف خود شروع کراتے ہیں لیکن انکوائری یا تو کہیں پھنس جاتی ہے یا اس کی رپورٹ غائب ہو جاتی ہے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ ایک شریف معاملات سنبھالنے کی کوشش کرتا ہے لیکن دوسرا شریف معاملات بگاڑ دیتا ہے۔ پھربات میں سےبات نکلتی ہے۔ایک شریف طاقتور اور دوسرا شریف کمزور قرار دیاجاتا ہے۔ حالات کی نزاکت کا تقاضا کچھ اور ہے۔ آج ہمیں افراد کو نہیں اداروں کومضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو نہیں بلکہ ریاست کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ ریاست اس وقت مضبوط ہوگی جب آئین و قانون کی بالادستی قائم ہوگی۔ آئین و قانون سب کیلئے برابرہونا چاہئے۔ ریاستی اداروں کی کامیابیوں کا کریڈٹ افراد کو نہیں اداروںکو ملنا چاہئے۔ ناکامیوں کا بوجھ صرف ایک ادارے کو نہیں بلکہ سب اداروں کو اٹھانا چاہئے۔ ہم سب کو اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہئے۔

غیرضروری بحثوںاور غیرضروری تنازعات سے بچنا چاہئے۔ ان بحثوں اور تنازعات کا آخری نتیجہ شاید کسی فرد کو وقتی طور پر بہت عظیم بنا دے لیکن ’’ربط ِ ملت‘‘ کہیں کھو جائے گا۔ اپنے آپ کو تبدیلی کی موج سمجھنے والے یاد رکھیں کہ موج دریا میں رہےگی تو اس کا دبدبہ قائم رہے گا۔ دریا کے کناروں سے ٹکرا کر باہر نکلے گی تو شاید سیلاب بن کر کچھ تباہی پھیلا دے لیکن بیرون دنیا اس موج کا پانی بھاپ بن کر اڑ جاتا ہے۔ اس ناچیز نے پچھلے کالم میں بھی گزارش کی تھی کہ سیاسی حکومتوں کی کمزوریاں مارشل لا کا راستہ ہموار کیا کرتی ہیں لیکن فوج کو سیاست میں ملوث نہیں ہونا چاہئے۔ کچھ مہربان یہ سمجھتے ہیں کہ فوج کو سیاست سے دور رہنے کا مشورہ دینا فوج سے دشمنی ہے۔ یہ خاکسار تو قائداعظمؒ کا پیروکار ہے اور قائداعظمؒ کی تعلیمات میں فوج کو سیاست کی اجازت نہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ کسی حکمران کو بھی فوج کے ساتھ سیاست نہیں کرنی چاہئے۔

کچھ قارئین نے پچھلے کالم کے حوالے سے پوچھا ہے کہ جنرل ایوب خان نے 13 بریگیڈئیروں کو نظرانداز کر کے یحییٰ خان کو میجر جنرل کیسے بنا دیا تھا؟ کیا فوج میں پروموشن میرٹ پر نہیں ہوتی؟ جواب یہ ہے کہ جناب منیراحمد منیرکی کتاب ’’المیہ پاکستان کے پانچ کردار‘‘ پڑھ لیں۔ کتاب میں جنرل یحییٰ خان کا انٹرویو شامل ہے جس میں انہوں نے خود یہ بتایا کہ جنرل ایوب خان نے انہیں وقت سے پہلے پروموٹ کردیا۔ جب پروموشن کی فائل وزیراعظم حسین شہید سہروردی کے پاس گئی تو انہوں نے ایوب خان سے پوچھا کہ آپ نے یحییٰ خان کو 13 بریگیڈیئروں پر کیوں ترجیح دی؟ تو ایوب خان نے جواب میں کہا کہ وہ 13 بھی اچھے ہیں اور یحییٰ خان بھی اچھا ہے اور سہروردی نے دستخط کردیئے۔
اسی طرح پرویز مشرف نے بھی اپنی کتاب ’’اِن دی لائن آف فائر‘‘ میں یہ الزام لگایا ہے کہ جب انہیں آرمی چیف بنایا گیا تو وہ سینیارٹی لسٹ میں تیسرے نمبر پر تھے۔

 پہلے نمبر پر جنرل علی قلی خان تھے لیکن علی قلی خان کو یہ سینیارٹی جنرل عبدالوحید کاکڑ نے غلط طریقے سے دی۔ مشرف صاحب لکھتے ہیں کہ جنرل جہانگیر کرامت نے بھی میرےبجائے علی قلی خان کو ’’چیف آف جنرل اسٹاف ‘‘مقرر کردیا تاکہ ان کے بعد علی قلی خان آرمی چیف بن جائیں حالانکہ یہ میرا حق تھا تاہم نواز شریف نے علی قلی خان کی بجائے مجھے آرمی چیف بنادیا۔ میں نے یہ دونوں حوالے فوج کے دو سابق سربراہوں کے دیئے ہیں۔ صوابدیدی اختیار وزیراعظم کا ہو یا آرمی چیف کا، یہ اختیار صرف میرٹ کو سامنے رکھ کر استعما ل کیاجائے تو نتائج اچھے نکل سکتے ہیں۔اس وقت میرٹ پر عملدرآمد کی زیادہ ضرورت وزیراعظم نوازشریف کو ہے۔ انہیں اپنی کابینہ اور اہم اداروں میں میرٹ اور قانون پر سختی سے عملدرآمد کرنا ہوگا بصورت دیگر ان کی مشکلات بڑھتی جائیں گی اورکفارہ ہمیں ادا کرنا پڑے گا.

حامد میر
بہ شکریہ روزنامہ   جنگ 

Post a Comment

0 Comments