All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

اہل شام کی ہجرت

آج اہل شام ہجرت پر مجبور ہیں۔ کل افغان بھی اسی طرح مجبور تھے۔ لوگ آخر ہجرت کیوں کرتے ہیں؟ ہجرت تاریخ کے بڑے المیوں کا ایک عنوان کیوں ہے؟
تاریخ کے اوراق پر ثبت ہونے والا ہر واقعہ سلسلہ واقعات کی ایک کڑی ہے۔ ان واقعات کے مابین ایک ربط ہوتا ہے۔ اگر کوئی یہ ربط دریافت کرسکے تو ایک تصور تاریخ وجود میں آتا ہے۔

 ممکن ہے یہ تصور غلط ہو لیکن اس میں کہ یہ کام بڑے لوگ کرتے ہیں۔ بصورت دیگر تبصرہ کرنے والے ہر واقعے کو منفرد جانتے اور تاریخی شعور سے دور رہتے ہیں۔ کارل مارکس ایک بڑا آدمی تھا۔ ہم اس کے تصور تاریخ سے، ادب کے ساتھ اختلاف کرتے ہیں لیکن اس کی بڑائی میں شبہ نہیں کرتے۔ اقبال بھی اس کے تصور تاریخ کو نہیں مانتے مگر مارکس کو مانتے ہیں۔ اس نے اپنے عہد کے واقعات کو ایک تسلسل میں دیکھا۔ ان کو ایک تعبیر کے تابع کیا۔ تاریخ کی اس تعبیر نے ریاست اور سماج کے مروجہ تصورات بدل ڈالے۔ آج بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں، جو اس تعبیر کو متعبر مانتے ہیں۔
بقا کی خواہش انسانی جبلت ہے۔ اس معاملے میں وہ دوسرے حیوانوں سے ممتاز نہیں۔ یہ خواہش اسے ہجرت پر مجبور کرتی ہے۔ اس کے ساتھ آزادی بھی اس کا جبلی مطالبہ ہے۔ زنجیر، جسم کو پہنائی جائے یا ذہن کو، انسان کبھی گوارا نہیں کرتا۔انسانی تاریخ میں ہجرتیں انہی دو مطالبات کے تحت ہوئی ہیں۔ مادی بقا یا آزادی۔ دریائوں کے کنارے انسانی آبادیوں کا وجود اسی لئے دکھائی دیتا ہے کہ پانی ہمیشہ زندگی کی علامت رہا ہے۔ لوگ زندگی کی تلاش میں دریائوں کے قریب آبسے۔ یوں انسانی تہذیب دریائوں کے کنارے آگے بڑھتی رہی، یہاں تک کہ انسانی ذہن نے دوسرے مقامات پر اپنی بقاء کا سامان تلاش کرلیا۔ دریائے سندھ کا بل کھاتا کنارہ بھی اسی تہذیب کی کہانی سناتا ہے۔

فکری اور ذہنی آزادی کے لئے مسلمانوں نے اپنے دور اول میں دو ہجرتیں کیں۔ ایک حبشہ کی جانب اور دوسری مدینہ کی طرف۔ مکہ میں جب اب کی فکری آزادی سلب کر لی گئی تو انہیں بادل نخواستہ اس شہر کو چھوڑنا پڑا۔ اللہ کے آخری رسول نے ہجرت کے وقت جو الفاظ ارشاد فرمائے، وہ ان کے داخلی کرب کا غیر معمولی اظہار تھا۔ ہجرت کے بعد جب مدینہ میں مسلمانوں کی ریاست وجود میں آگئی تو پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں جہاد کی اجازت دی۔ اس کی وجہ بھی بتائی کہ انہیں ناحق گھروں سے نکالا گیا، صرف اس جرم پر کہ وہ اللہ تعالیٰ کو اپنا رب کہتے تھے [الحج 22:39،40] اسلام نے ہر طرح کی آزادی کو انسان کا بنیادی حق قرار دیا۔ اس کے قانون آزمائش کی بنیاد ہی انسان کا یہ حق ہے۔ آخرت میں وہ سزا وجزا کا مستحق ہی اس آزادی کے باعث ہوگا۔اسلام اس معاملے میں اتنا حساس ہے کہ اس کے قانون جرم وسزا میں بھی لونڈیوں کے لئے آدھی سزا ہے کہ وہ اس حصار سے محروم ہوتی ہیں جو آزاد عورتوں کو میسر ہوتا ہے۔
امن ایک ایسی قدر ہے جو بقا کی ضمانت ہے۔ امن ہی سے روزگار کے مواقع میسر آتے ہیں۔ امن جبر سے نہیں آتا۔ امن خاموشی کا نام نہیں ہوتا۔ خاموشی تو قبرستان میں سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ امن موت اور بھوک کے خوف سے آزادی کا نام ہے۔ امن انسان کے حق آزادی کو تسلیم کرنا ہے۔ یہ آزادی جسمانی بھی ہے اور ذہنی بھی۔ مجھے حیرت ہوتی ہے جب میں اپنے ارد گرد لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ کشمیر اور افغانستان کے لوگون کو جبر سے آزادی دلانا چاہتے ہیں لیکن یہاں کسی کو فکری اور عملی آزادی کا حق دینے کے لئے تیار نہیں۔ اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ آزادی کے مفہوم سے واقف نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک کسی دوسرے کو تو جبر کا حق نہیں لیکن اگر انہیں اختیار مل جائے تو وہ جبر کا پورا حق رکھتے ہیں۔

شام کے لوگ یورپ کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔ چالیس لاکھ دربدر ہوچکے ہیں۔ پانچ لاکھ کے قریب یورپ کی سرحدوں پر کھڑے ہیں۔ یورپی یونین نے رکن ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار پناہ گزینوں کو کوٹے کے تحت اپنے ہاں جگہ دے۔ ہنگری، سلواکیہ اور بعض دوسرے ممالک کے ساتھ، برطانیہ کو بھی اس سے اتفاق نہیں ہے۔ جرمنی البتہ ایک سال میں آٹھ لاکھ افراد کو پناہ دے رہا ہے۔ اس کے متنوع اسباب ہیں جو اس وقت میرا موضوع نہیں۔ ہنگری کا وزیر اعظم اس لئے اپنے ملک کے دروازے بند رکھنا چاہتا ہے کہ اس کے نزدیک، آنے والے مسلمانوں سے ہنگری کی مسیحی شناخت کو خطرہ ہے۔ 

اس کے برخلاف پوپ فرانسس نے یورپ کے کیتھولک اہل کلیسا سے کہا ہے کہ وہ مسیحی عبادت گاہوں کے دروازے مسلمان پناہ گزینوں کے لئے کھول دیں۔ عالمی سطح پر مذہب کا سیاسی کردار بھی آج میرا موضوع نہیں۔ اس لئے میں اس اس بات کو امر واقعہ کے طور پر بیان کرتے ہوئے، بنیادی سوال کی طرف لوٹتا ہوں کہ اہل شام کیوں گھروں سے نکل رہے ہیں؟ لوگ ہجرت کیوں کررہے ہیں؟ آج دنیا کے ہر آدمی کی یہ خواہش کیوںہے کہ وہ مغرب کے کسی ترقی یافتہ ملک کا شہری بن جائے؟ ہجرت کا رخ مغرب کی طرف کیوں ہے؟

میرا خیال ہے کہ مغرب نے بڑی حد تک وہ سماج قائم کردیا ہے جہاں امن کو بنیادی قدر کی حیثیت حاصل ہے۔ جہاں انسان کی جسمانی اور ذہنی آزادی کو بطور قدر مستحکم کردیا گیا ہے۔ وہاں انسان کو موت اور بھوک کے خوف سے ممکن حد تک آزاد کر دیا گیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہر آدمی کی ہجرت کا رخ آج مغرب کی طرف ہے۔ جب ہم مغربی معاشرے کی بات کرتے ہیں تو اس سے مغرب کے استعماری کردار کی نفی مقصود نہیں۔ یہ ایک بدیہی بات ہے۔

 اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آج اگر شام اور کل افغانستان کے لوگ ہجرت پر مجبور ہوئے تو اس کی ذمہ داری امریکا اور مغرب پر ہے۔ مشرق وسطیٰ مین اگر کسی نے فساد کی بنیاد رکھی تو وہ برطانیہ اور امریکا ہیں۔ آج سوال اٹھتاہے کہ صدام حسین کا عراق زیادہ پرامن تھا یا آج کا عراق؟ قذافی کا لیبیا زیادہ پر امن تھا یا آج کا لیبیا؟ ان دونوں نے بھی انسانی آزادی کو سلب کیا۔ مغرب نے لیکن جو اس کا متبادل دیا وہ اس سے بھی بدتر ثابت ہوا۔

اس ہجرت کا ایک پہلو یہ ہے کہ مسلمان معاشرے اپنے شہریوں کو امن دے سکے نہ آزادی۔ انہیں موت کے خوف سے آزاد کر سکے نہ بھوک کے اندیشے سے۔ کہیں بادشاہتیں ہیں اور کہیں آمریتیں۔ جہاں ریاست جبر نہیں کرتی وہاں غیر ریاستی عناصر جبر کررہے ہیں۔ کوئی جان کے خوف سے ہجرت کررہا ہے اور کوئی بھوک کے خوف سے۔ بدامنی ہے اور فتنہ۔ فتنہ بمعنی مذہبی جبر جسے قرآن مجید نے قتل سے شدید تک قرار دیا ہے۔ شام میں مارچ 2011ء کے بعد سے اب تک، تین لاکھ بیس ہزار افراد مار ڈالے گئے۔

 ایک شخص اقتدار چھوڑنے کے لئے تیار نہیں اور دوسرے فساد کے ذریعے اسے ہٹانا چاہتے ہین۔ افسوس یہ ہے کہ ایک کا پشتی بان ایک مسلمان ملک ہے اور دوسرے کا حامی وناصر ایک دوسرا مسلمان ملک۔ مرنے بھی مسلمان ہیں۔ یمن اور لبنان میں بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ اس کےبعد اگر عام مسلمان اپنے آبائی ملکوں کو چھوڑ کر یورپ اور امریکا کے دروازے پر دستک دے رہا ہے تو اس کا سبب اس کی جبلت ہے۔

یہ واقعات ہمیں بتاتے ہیں کہ تاریخ میں ہجرت کیوں ہوتی ہے۔ یہ بات تب سمجھ میں آئے گی جب ہم یہ جانیں گے کہ تاریخ کے صفحات پر ثبت ہونے والا ہر واقعہ ایک سلسلہ واقعات کی کڑی ہے۔ اس سے آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ ہمارے ہاں ہر کوئی امریکا کو گالی دینے کے باجود امریکا ہی میں کیوں رہنا چاہتا ہے؟

خورشید ندیم

Post a Comment

0 Comments