All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

بڈھ بیرکا سبق

عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے محا ذ پر گزشتہ چند سال میں کچھ بنیادی تبدیلیاں آئیں جن کی وجہ سے حکومت کامیابی کے زعم میں مبتلا ہوگئی اور عوام نے سکھ کا سانس لیا۔ پہلی بڑی تبدیلی کا عامل ایبٹ آباد آپریشن بنا۔ چونکہ اسامہ بن لادن القاعدہ کے بانی سربراہ تھے اور چونکہ اس خطے میں جہادی فکر اور عسکریت پسندی کے حوالے سے ڈرائیونگ سیٹ پر القاعدہ بیٹھی تھی اور چونکہ پاکستانی عسکریت پسندوں کو روحانی، نظریاتی اور حکمت عملی کی غذ ا القاعدہ سے مل رہی تھی ، اسلئے جب اسامہ بن لادن کے مارے جانے کے بعد القاعدہ پاکستان و افغانستان سے عرب دنیا منتقل ہونے لگی تو اس کا اثر پاکستانی عسکریت پسندوں کے مورال اور سرگرمیوں پر بھی پڑا۔

 دوسری طرف خود عرب دنیا کے جہادی بھی القاعدہ اور داعش میں بٹ گئے۔ ماضی میں کبھی پاکستانی عسکریت پسندوں کی صفوں میں اختلافات ہوتے تو القاعدہ کے رہنما ، ان کو ختم کرتے۔ وہ مختلف قسم کے عناصر کے درمیان رابطہ کار کا کام بھی سرانجام دے رہے تھے۔ یوں اب جب پاکستانی عسکریت پسندوں میں آپس کے اختلافات نے جنم لیا تو یہ اختلافات ختم ہونے کی بجائے بڑھنے لگے کیونکہ ان کو ختم کرانے کے لئے افغان طالبان ماضی کی طرح فعال رہے اور نہ القاعدہ کے رہنما میدان میں آئے ۔
بیت اللہ محسود اور حکیم اللہ محسود کے ادوار میں تحریک طالبان پاکستان کی مرکزیت قائم تھی اور کراچی سے لے کر گلگت بلتستان تک کے طالبان کو ایک نظم میں لایا گیا تھا۔ ملا فضل اللہ چونکہ تحریک طالبان کے پہلے غیرقبائلی امیر تھے اور وہ وزیرستان کو مرکز بنا کر پورے ملک کی سطح پر اپنے کنٹرول کو یقینی نہ بناسکے ۔ وزیرستان میں ولی الرحمان گروپ ، حکیم اللہ محسود کی زندگی میں علیحدہ ہوگیا تھا۔ ملا فضل اللہ کے امیر بن جانے کے بعد وہ گروپنگ مزید بڑھ گئی ۔ اسی طرح مہمند ایجنسی کے طالبان نے عبدالولی عرف عمر خالد خراسانی کی قیادت میں تحریک طالبان (جماعت الاحرار) کے نام سے الگ نظام بنا دیا اور ملک کے کئی حصوں سے کئی دیگر طالبان بھی ان کے ساتھ وابستہ ہوگئے ۔

 اورکزئی ایجنسی کے حافظ سعید اور شاہد اللہ شاہد داعش میں چلے گئے ۔ پنجاب طالبان کے امیر عصمت اللہ معاویہ جو پڑھے لکھے جہادی اور پنجاب یا شمالی علاقہ جات میں گہرے اثرورسوخ کے حامل تھے ، کی حکومت کے ساتھ مفاہمت ہوگئی ۔ اس وجہ سے بھی سیکورٹی فورسز کا کام نسبتاً آسان ہوگیا اور طالبان کا مشکل ہوگیا۔

ریاست کے خلاف لڑنے والے عناصر جو مذہبی بنیادوں ، لسانی بنیادوں اور سیاسی بنیادوں پر ہتھیار اٹھا لیںا پھر غیرملکی قوتوں کے اشارے سے تزویراتی بنیادوں پر، کہیں نہ کہیں ایک دوسرے کے معاون بن ہی جاتے ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک چونکہ ریاست اور ریاستی اداروں سے لڑ رہا ہوتا ہے اور ریاست کی کمزوری سب کا ہدف ہوا کرتا ہے ، اسلئے حتمی مقصد سب کا ایک ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ا نکے مقاصد الگ الگ ہوں تو بھی ریاستی اداروں کیلئے سب ایک جیسی پریشانی کا باعث بنتے ہیں لیکن پاکستان میں تو باقاعدہ طور پر قبائلی علاقوں، بلوچستان اور کراچی کے عسکریت پسندوں کے درمیان تعاون کا سلسلہ جاری رہا ۔

گزشتہ کچھ عرصے سے چونکہ پاکستان میں کارروائیاں کرنے والے عسکریت پسندوں اور قانون شکنوں کیخلاف کراچی سے لیکر خیبرایجنسی تک اور بلوچستان سے لے کر وزیرستان تک بیک وقت آپریشن ہورہے ہیں ، اس لئے عسکریت پسندوں کیلئے ایک جگہ سے فرار ہوکر دوسری جگہ جانے یا پھر ایک گروپ سے نکل کر دوسرے میں پناہ لینے کا موقع نہیں رہا۔ اسی طرح چونکہ پہلی مرتبہ شہروں میں بھی انٹیلی جنس کی بنیاد پر پکڑ دھکڑ ہوئی تو نتیجتاً ماضی کے مقابلے میں یہ عناصر زیادہ کمزور ہوئے ۔ 

ایک اور وجہ عسکریت پسندوں کی غیرملکی سپورٹ میں کمی ہے ۔ کراچی کے عسکریت پسندوںکو ہندوستان اور مغربی ممالک سے شہہ مل رہی ہے۔ اسی طرح بلوچ اور تحریک طالبان کے بعض عناصرنے افغانستان میں پناہ لی تھی ۔ گزشتہ سال کے دوران چونکہ افغانستان سے بھی تعلقات بہتر ہوگئے تھے اور مغربی ممالک کے ساتھ بھی ان معاملات کو پوری قوت کے ساتھ اٹھایا گیا۔ اس لئے بھی ان لوگوں کا مورال گرنے لگا اور جہاں ایک طرف بلوچ عسکریت پسندوں نے مفاہمت کے اشارے دئیے ، وہاں کراچی کے عسکریت پسند بھی مدافعانہ پوزیشن لینے پر مجبور ہوگئے ۔ ایک اور بڑا عامل یہ بنا کہ سال گزشتہ کے دوران چونکہ افغانستان میں پورا سیاسی نقشہ بدل رہا تھا اور نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد تما م اہم کردار اپنی اپنی پوزیشن بدل رہے تھے ، اس لئے مختلف قوتیں اور ان کے پراکسیز بھی نئے رول کی تلاش میں انتظار کررہے تھے یا پھر نیا لائحہ عمل بنارہے تھے ۔

ان سب عوامل ، آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان کے بعض جزیات پر عمل کی وجہ سے پاکستان میں حالات نسبتاً بہتر ہوئے اور نہ صرف حکومتی ترجمان مونچھوں کو تائو دے کر بلند بانگ دعوے کرنے لگے بلکہ کریڈٹ لینے کا جھگڑا بھی شروع ہوا۔ دفاعی ادارے سیاست کی اصلاح کی فکر کرنے لگ گئے جبکہ میڈیا نے حسب عادت ریٹنگ کی ڈرامہ بازی شروع کردی لیکن اب بڈھ بیر حملے سے یقینا سب کو پتہ چل گیا ہوگا کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا دعویٰ محض دعویٰ ہے ۔ جڑوں سے تب اکھاڑ پھینکا جاسکے گا کہ جب دہشت گردی کی جڑوں اور روٹ کازز کی طرف توجہ دی جائے گی۔

روٹ کازز میں سیاسی اور تزویراتی مقاصد کے لئے مذہب کا استعمال ، تضادات پر مبنی خارجہ پالیسی ، سول ملٹری ہم آہنگی کا فقدان ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور خفیہ اداروں کے درمیان کوآرڈنیشن کا فقدان ، سیاست، خارجہ پالیسی اور مذہبی حوالوں سے جوابی بیانیہ کی عدم موجودگی جیسی چیزیں شامل ہیں اور جب تک ان روٹ کازز کا حل قومی سطح پر مکمل قومی ہم آہنگی اور یکسوئی کے ساتھ نکالا نہیں جاتا ، تب تک صرف ملٹری آپریشنوں یا فوجی عدالتوں کے ذریعے پاکستان کو پرامن بنانے کا تصور کرنا حماقت ہے ۔

 ملک میں جنگی فضا کے ہوتے ہوئے ایک اور طرح کے جہادیوں اور جنگجوئوں کا خاتمہ مکمل طور پر کیسے ممکن ہے ؟۔ ایک طرف پاکستان میں طالبان کی طرح جہاد و قتال اور ریاست کے تصور پر یقین رکھنے والے عناصر ہمارے ہاں حسب سابق پیدا ہورہے ہیں اور اس طرح کے عناصر کے تخلیق کار ہمارے ہاں ریاستی سطح پر عزت و توقیر کے مستحق سمجھے جاتے ہیں تو دوسری طرف ہم یہ کوشش کررہے ہیں کہ تخلیق کا یکسر خاتمہ کرلیں۔

وہ لوگ جنہیں ہماری ریاست نے اس راستے پر لگایا اور جو اس وقت ہماری ریاست کو چیلنج کررہے ہیں کو مین ا سٹریم میں لانے کے لئے کوئی منصوبہ بھی نہیں بنایا جارہا اور ہم جیسا کوئی عاجز جب اس کی تجویز دے تو اسے القابات سے نوازا جاتا ہے لیکن دوسری طرف ان کی تخلیق بھی بند نہیں کررہے ہیں اور توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ ان لوگوں کو ہم مکمل طور پر محض آپریشنوں کے ذریعے ختم کردینگے ۔ ہم افغانستان کے ساتھ بارڈر مینجمنٹ کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھارہے ہیں ۔ اس وقت بھی روزانہ تیس سے پچاس ہزار لوگ بغیر ویزے اور پاسپورٹ کے پاک افغان سرحد کراس کررہے ہیں اور توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ افغانستان کے انتشار سے ہم محفوظ رہ سکیں گے ؟

نہ جانے یہ بات ہمیں کب سمجھ آئے گی کہ افغانستان میں امن اس وقت افغانستان سے زیادہ پاکستان کی ضرورت ہے ۔ افغانستان ایک تباہ حال ملک بن چکا ہے ۔ وہ عالمی اور علاقائی قوتوں کی چرا گاہ بن چکا ہے ۔ اس کی سیاست ابھی بچپنے کے دور سے گزررہی ہے اور اس کے ادارے ابھی مستحکم نہیں ہیں ۔ اسلئے یہ توقع لگانا کہ پہلے افغان حکومت یہ یہ کرے گی تو پھر ہم اس کیلئے وہ وہ کریں گے ، مدبرانہ اپروچ ہر گز نہیں ۔ افغان حکومت غلطیاں کرتی رہے لیکن ہمیں بہر صورت وہاں امن لانے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ کیونکہ جب تک وہاں استحکام نہیں آتا، پاکستان میں استحکام نہیں آسکتا اور جب تک وہاں پر عسکریت پسندی اور خانہ جنگی کا دور دورہ ہوگا، پاکستان میں بھی ایسا ہوتا رہے گا۔

سلیم صافی

بہ شکریہ روزنامہ  جنگ

Post a Comment

0 Comments