All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

پاکستان سٹاک ایکسچینج کیا ہے؟

ایک ایسے وقت میں جب چین کی معیشت میں سست رفتاری سے دنیا بھر کے بازارِ حصص میں مندی کا رجحان ہے، ایسے میں پاکستان میں سٹاک مارکیٹس کے نگران ادارے سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن (ایس ای سی پی) نے ایک معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے سٹاک ایکسچینجز کو آپس میں ضم کر کے ’پاکستان سٹاک ایکسچینج‘ بنانے پر اتفاق کیا گیا ہے۔

ایس ای سی پی اور سٹاک مارکیٹس کی مشترکہ کمیٹیوں کے مابین طے پانے والے معاہدے کے تحت ’بازارِ حصص میں شفافیت لانے اور کارکردگی بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ بین الاقومی معیار متعارف کروانے کے لیے انھیں ایک پلیٹ فارم کے تحت اکٹھا کیا جا رہا ہے۔

پاکستان کی تین سٹاک مارکیٹس کو آپس میں ضم کر کے پاکستان سٹاک ایکسچینج بنانے کا فائدہ کیا ہو گا اور اس کا مطلب کیا ہے؟
یہ جاننے کے لیے میں نے سٹاک مارکیٹ میں کام کرنے والی کمپنی عارف حبیب لمیٹڈ کے چیف اکانومسٹ خرم شہزاد سے بات کی۔

پاکستان سٹاک ایکسچنیج

سٹاک مارکیٹ کے انضمام یا ڈی میچولائیزیشن کا قانون سنہ 2012 میں منظور کیا گیا تھا، جس کے تحت کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے تین سٹاک ایکسچنج اپنے 40 فیصد تک حصص سرمایہ کاروں کو فروخت کریں گے اور یہ سرمایہ کار سٹرٹیجک سرمایہ کار‘ جیسے بیرونی سٹاک ایکسچنج بھی ہو سکتا ہے۔ تینوں سٹاک ایکسچنجز کے ارکان 40 فیصد کے مالک ہوں گے جبکہ باقی 20 فیصد حصص فروخت کے لیے عوام کو پیش کیے جائیں گے۔

خرم شہزاد نے کہا کہ یہ اقدام پاکستان میں سٹاک مارکیٹ میں اصلاحات کی جانب پیش رفت ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستانی سٹاک مارکیٹ بھی ایک ہی پلیٹ فارم سے کام کر سکے گی اور اس طرح سے مارکیٹ میں نئے سرمایہ کار آئیں گے نئے ٹیکنالوجیز متعارف کروائی جائیں گی۔

انھوں نے کہا کہ لاہور کراچی اور اسلام آباد سٹاک ایکسچینج کی بجائے ایک ہی سٹاک مارکیٹ ’پاکستان سٹاک ایکسچینج‘ ایک کمپنی کی طرز پر کام کرے گی، جس کے اپنے شیئر ہولڈز ہوں گے، بورڈ آف ڈائریکٹرز ہوں گے جو شیئر ہولڈرز کو جوابدہ ہوں گے اور اس طرح سے مارکیٹ میں سرمایہ کاری کے لیے نئی مصنوعات متعارف کروائی جا سکتی ہیں۔
 
سٹاک مارکیٹ کے انضمام یا ڈی میچیولائیزیشن  کا قانون سنہ 2012 میں منظور کیا گیا تھا، جس کے تحت کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے تین سٹاک ایکسچینج اپنے 40 فیصد تک حصص سرمایہ کاروں کو فروخت کریں گے اور یہ ’سٹرٹیجک سرمایہ کار‘ بیرونی سٹاک ایکسچینج بھی ہو سکتے ہیں۔
تینوں سٹاک ایکسچینجز کے ارکان 40 فیصد کے مالک ہوں گے جبکہ باقی 20 فیصد حصص عوام کو فروخت کے لیے پیش کیے جائیں گے۔

تاہم سٹاک مارکیٹ کے سرمایہ کار عقیل کریم ڈھیڈی نے 40 فیصد تک حصص کی سٹرٹیجک سرمایہ کاروں کو فروخت کرنے کی شرط کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے کہا کہ ریگولیٹر کو اپنے سرمایہ کاروں پر بھروسہ کرنا چاہیے اور انھیں بھی سٹاک مارکیٹ کے حصص خریدنے کی اجازت دینی چاہیے۔

ایک بازارِ حصص

پاکستان سٹاک ایکسچنج ایک کمپنی کی طرز پر کام کرے گی، جس کے اپنے شیئر ہولڈز ہوں گے، بورڈ آف ڈائریکٹرز ہوں گے جو شیئر ہولڈرز کو جوابدہ ہوں گے اور اس طرح سے مارکیٹ میں سرمایہ کاری کے لیے نئی مصنوعات متعارف کروائی جا سکتی ہیں۔

ماہر اقتصادیات خرم شہزاد

عقیل کریم ڈھیڈی کا کہنا ہے کہ ’پاکستان سٹاک ایکسچینج کے قیام سے ملک کے بازارِ حصص کو ریگولیٹ کرنا آسان ہو جائے اور اس سے مارکیٹ میں رِسک اور مینیجمنٹ بہتر ہو گی اور مارکیٹ کی آمدن میں اضافہ ہو گا۔

کراچی سٹاک ایکسچینج ہنڈرڈ انڈیکس کا شمار دنیا میں تیزی سے ابھرتی ہوئی مارکیٹس میں ہوتا ہے لیکن حالیہ دنوں میں چینی معیشت کی سست رفتاری اور کرنسی کی قدر میں کمی کی وجہ سے کے ایس ای ہنڈرڈ انڈیکس میں بھی مندی کا رجحان ہے۔

ماہر اقتصادیات خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ سٹاک مارکیٹ کی ڈی میچیولائیزیشن سے مارکیٹ کا حجم بڑھے گا اور نئی اصلاحات سے ریگولیشنز مضبوط ہوں گی اور سرمایہ کاری کو محفوظ بنایا جا سکے گا۔

انھوں نے کہا کہ ’پاکستان سٹاک ایکسچینج بھی ایسے ہی ہو گا جیسے نیویارک کا نیس ڈیک سٹاک ایکسچینج یا ممبئی سٹاک ایکسچینج۔ اس طرح ایک سٹاک ایکسچینج پورے ملک کے بازارِ حصص کو ظاہر کرے گا، جس میں انڈیکس تو الگ الگ ہو سکتے ہیں لیکن سٹاک ایکسچینج ایک ہی ہو گا، جس سے بلاشبہ بازارِ حصص میں بہتری آئے گی۔

بشکریہ
سارہ حسن
بی بی سی اردو

Post a Comment

0 Comments