All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

ڈیم کی قدر پاکستان سے پوچھیے

ہر سال موسمِ برسات میں پاکستان کا سیلاب سے متاثر ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ تو اب ایک روایت ہے، ایک طرح کا دستور بن چکا ہے۔ پاکستان میں جو بھی حکومت آتی ہے، یہ اس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ سالانہ سیلاب کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس کی تیاری کرلے۔ وہ تیاری اس طرح کی جاتی ہے کہ سیلاب زدگان کی مدد کے لئے جو فنڈز درکار ہوسکتے ہیں ان کا کچھ تخمینہ پہلے سے لگا لیا جاتا ہے۔

یہ تو ایک قدرتی آفت ہوتی ہے، اللہ کی مرضی ہے اور انسان اللہ کی مرضی کے آگے بے بس ہے۔ اس کا حل، جو کہ حکومت نے عوام کو کو دیا ہے وہ یہی ہے کہ ہر سال سیلاب آنے کی صورت میں متاثرین کی کچھ امداد کی جاتی ہے اور کسی حد تک ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دی جاتی ہے۔ دریا بھی تو ہمارے ہی ہیں جو برسات کے موسم میں ابل پڑتے ہیں، پھر ایسے میں حکومت کے پاس یہی ایک راستہ ہے۔

واحد راستہ اس لیے یہی ہے کہ دوسرا راستہ تو ہم نے بند ہی کردیا ہے۔ ڈیم تو ہم نہیں بنائیں گے کیونکہ ہماری سیاسی قیادت کا اتفاق نہیں ہوسکتا۔ کالا باغ ڈیم کو متنازع بنا کر سیاست کی نظر کردیا گیا اور پاکستانی عوام کو ہر سال سیلاب میں غوطے کھانے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ ہمارے بجٹ میں ملکی دفاع کو خاص طور پر ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے اور رکھا جانا بھی چاہیئے کیونکہ اس ملک کو سرحد کے دونوں طرف خطرات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ 

ٹی ٹی پی کی صورت میں پاکستان کو ایک جنگ میں الجھا دیا گیا ہے اور انہیں دہشتگردوں کے زریعے سے پاکستان میں امن و امان کی صورتحال کو بگاڑنے کے لیے سازش کی گئی ہے۔ جب دشمن ملک ہمارے دریاؤں کے پانی کو قابو کرسکے یعنی جب چاہے روک لے اور جب چاہے چھوڑ دے تو اسے ہم سے لڑنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے لیے تو بہتر یہی ہے کہ ہر سال اسی کھیل میں الجھا کر ہماری معیشت تباہ کردے اور ہمیں بھرپور جانی نقصان بھی اٹھانا پڑے۔
جب پاکستان اور بھارت میں بارشیں کم ہوتی ہیں اور دونوں ممالک کو قحط سالی سے بچنے کے لیے پانی درکار ہوتا ہے تو ایسے میں بھارتی ڈیم پاکستان کو قحط سالی میں مبتلا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ 

ہمیں اپنی نا اہلی تو نظر آتی ہی نہیں لہٰذا اس پر تبصرہ بے کار ہے۔ تب پاکستان میں دریا خشک ہوتے ہیں اور کسان پانی کو ترستے ہیں مگر وہ نایاب ہوتا ہے کیونکہ وہ بھارت میں زرعی مقاصد کے لیے استعمال ہوجاتا ہے۔ پانی کتنا ضروری ہے؟ پاکستانی اس سوال کا جواب بخوبی دے سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اپنے ملک کے دریا ہی جب قابو میں نہ ہوں اور دشمن ملک انہیں ڈیم بنا کر قابو کر لے تو پھر ہر سال برسات کے موسم میں سیلاب جس سے اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے، ان کا مقدر بن جاتا ہے۔ جانی نقصان کی تو تلافی ممکن ہی نہیں۔ یہ سالانہ معمول ہے مگر نہ حفاظتی بندوں کو مضبوط کیا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی خاص اقدامات کیے جاتے ہیں جن کی بدولت پانی سے نقصان کم ہو۔
ہمارے پاس اس پانی کو جو کہ آج تباہی اور بربادی کا سامان بنا ہوا ہے، ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیم ہی نہیں ہیں۔ اچھے وقتوں میں پاکستان میں تربیلا اور منگلا جیسے بڑے ڈیم تعمیر ہوگئے جنہوں نے آج بھی وطنِ عزیز میں بجلی کی پیداوار کا ذمہ اٹھایا ہوا ہے۔ پاکستان میں کسی بڑے ڈیم کا بننا ناگزیر ہے اور اگر پاکستان ایسا نہیں کرتا تو پھر پاکستان کو یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ اس کے کسی دشمن کو اس پر حملہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، یہ سیلاب اور قحط ہی کافی ہیں جو پاکستان کی روایت بن رہے ہیں۔ ہم اقتصادی ترقی کے خواب تو دیکھتے ہیں مگر حال یہ ہے کہ لوڈ شیڈنگ نے ہماری معیشت کو تباہ کیا ہوا ہے۔ بجلی کی قلت نے ہماری صنعتوں کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔

ہماری ہر حکومت کی ترجیحات ذاتی مفادات پر مبنی ہوتی ہے جس نے ملک کو تباہی کے دہانی پر لا کھڑا کیا ہے! دہشتگردی کی لعنت نے ملک کو شدید نقصان پہنچایا۔ کیا ہمارے سیاستدان نہیں سمجھتے کہ قومی مفاد کے لیے ڈیم کا بننا ضروری ہے؟ کیا یہ نہیں جانتے کہ ڈیم نہ بنا تو ملکی مستقبل پر آنچ آئے گی؟ لیکن اب پانی واقعی سر سے اوپر گزرچکا ہے، اگر اب بھی عقل کے ناخن نہیں لیے اور ڈیم بنانے کے لئے سنجیدہ نہیں ہوئے تو پھر اگلی بار تباہی پر الزام دشمن پر مت لگائیے گا۔

ابو بکر فاروقی

Post a Comment

0 Comments