All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

خالی الذہن جنگجوؤں کا مقابلہ ،مگر کیسے؟...خالد المعینا

سعودی عرب نے حال ہی میں نو ممالک سے تعلق رکھنے والے چار سو اکتیس مشتبہ جنگجوؤں کو گرفتار کیا ہے۔بے گناہ شہریوں پر حملوں سے روکنے کے لیے ابھی بہت فاصلہ طے کرنا ہے۔

گذشتہ چند روز کے دوران دو واقعات ایسے پیش آئے ہیں جن میں نوجوان انتہا پسندوں نے اپنے ہی خونی رشتوں کو ہلاک کردیا۔ایک واقعے میں ایک انتہاپسند نے اپنے باپ کو قتل کردیا تھا۔اس کے بعد سکیورٹی فورسز نے اس کو ہلاک کردیا تھا۔دوسرے نے اپنے سوتیلے چچا کو چیک پوائنٹ پر ہلاک کرنے کے بعد خود کو دھماکے سے اڑا دیا تھا۔ان نوجوانوں کو متشدد قاتل کس نے بنایا تھا؟
نوجوانوں کے گم راہ ہونے میں غیرملکی فورسز یا داعش کو مورد الزام ٹھہرانے کا کچھ فائدہ نہیں ہے۔یہ لوگ مختلف عوامل کی بنا پر گم راہ اور منحرف ہوتے ہیں۔ان میں سب سے اہم ان کی منفی انداز میں پرورش اور والدین کا انھیں نظرانداز کرنا ہے۔

تخلیقی سوچ

اس میں اسکول میں تعلیم ایک اہم عامل ہے جہاں کردار کی تعمیر کے بجائے صرف رٹا لگانے اور روایات ہی پر زور دیا جاتا ہے۔اس پر طرہ یہ کہ معاشرے میں کوئی کرداری نمونے بھی دستیاب نہیں ہیں۔

غیر نصابی سرگرمیوں کی عدم موجودگی نوجوان طلبہ کو بور اور نکما بنا دیتی ہے۔تعلیمی ادارے ہمارے نوجوانوں کو اپنی توانائیوں کو پروان چڑھانے اور بروئے کار لانے کے ذریعے مہیا نہیں کرتے ہیں۔

اسکولوں میں ڈراموں ،تھیٹرز ،مشغلوں پر مبنی ورکشاپس اورعام سادہ سوشل ورک کے لیے نہ تو کوئی منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور نہ اس ضمن میں کوئی رہ نمائی کی جاتی ہے۔اس طرح کی سرگرمیوں سے طلبہ کے اخلاقی کردار کو مضبوط بنانے میں مدد مل سکتی تھی۔

تخلیقی سوچ کی عدم موجودگی سے نوجوان خالی الذہن ہوجاتے ہیں اور وہ بآسانی انتہاپسند اساتذہ ،ائمہ اور سوشل میڈیا کے ''استحصالیوں'' کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ایسے لوگ بہ کثرت موجود ہیں جو دوسرے فرقوں یا نقطہ نظر کے حامل لوگوں کے خلاف نفرت کو مہمیز دینے کا کام کرتے ہیں۔

بعض لوگ اپنی حیثیت یا مرتبے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کھلے بندوں کام کرتے ہیں جبکہ بزدل لوگ اپنی مذموم اور بُری سوچ کی تشہیر کے لیے سوشل میڈیا پر عدم شناسائی کا سہارا لیتے ہیں۔

تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی

یہ لوگ موت کے سوداگر ہیں اور انھیں روکا جانا چاہیے۔افسوس تو یہ ہے کہ میں سوشل میڈیا پر ان کے مہلک زہر کو پھیلتے ہوئے دیکھ رہا ہوں اور یہ سلسلہ خطرناک رفتار کے ساتھ جاری وساری ہے۔

یہ محاورہ کہ خالی ذہن شیطان کا گھر ہوتا ہے ،گھر میں پختہ ہونے کے لیے آرہا ہے اور ہم بطور معاشرہ اپنے نوجوانوں کی کردار سازی کے لیے سرگرمیوں کی رہ نمائی نہ کرکے ان کی درست خطوط پر تعلیم وتربیت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ان تقریبات کو فراموش کردیجیے جہاں سینیر عہدے دار صرف زبانی جمع خرچ کے لیے آتے ہیں۔

ہمیں جس چیز کی ضرورت ہے،وہ اسکول میں سرگرمیاں ،کھیل کے لیے سہولتیں بحث ومباحثے ،تقریری مقابلے، مہم جوئی کے کھیل اور تخلیقی و ایجادی سرگرمیاں ہیں۔ان سے باہمی تعامل اور روابط کو فروغ ملتا ہے۔ہمیں صحت مند جسموں اور تخلیقی اذہان کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
میرا یہ ماننا ہے کہ سعودی عرب کے سرکاری اسکولوں کے تدریسی عملے میں مشرق اور مغرب سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ کو شامل کیا جانا چاہیے تاکہ سعودی اساتذہ ان کے تجربات سے استفادہ کریں اور جدید تعلیم کے نفاذ کے لیے آئیڈیاز اور خیالات کا باہمی تبادلہ کریں تاکہ اکیسویں صدی کے طلبہ کی تعلیمی ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔

ہمیں اساتذہ کی ضروریات کو بھی پورا کرنا چاہیے اور انھیں مراعات اور احترام دینا چاہیے۔سعودی اساتذہ بہ حیثیت مجموعی مایوسی کا شکار ہیں اور ان کی تن خواہیں بھی کم ہیں۔جب تک اساتذہ کی ایجاد و جدت کے لیے حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی اور انھیں نصاب کے مطابق تعلیم دینے کے لیے آزادی نہیں دی جاتی ہے،تو کسی محرک سے تہی دست ایسے اساتذہ کے ہوتے ہوئے تعلیم کی یہی صورت حال رہے گی۔

کاروباری برادری کو بھی نوجوانوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنی ذمے داریوں کو پورا کرنا چاہیے۔ کاروباری اداروں میں کھیلوں کی سہولیات ،پارک اور دوسرے مراکز قائم کرنے چاہئیں،چہ جائیکہ وہ صرف مالز کی تعمیر ہی پر توجہ مرکوز کریں اور وہ ملک بھر میں ہرکہیں کھمبیوں کی طرح ''اُگ'' رہے ہیں۔
سعودی عرب کا قیام عظیم قربانیوں کا نتیجہ ہے۔یہ دو مقدس مساجد (مسجد الحرام اور مسجد نبوی) کی زمین ہے اور اس کو تمام لوگوں کے لیے امن وآشتی،روشنی اور ترقی کا گہوارہ ہونا چاہیے۔اگر ہم اس مقدس سرزمین کے تحفظ میں ناکام رہے تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔

خالد المعینا

کہنہ مشق ،تجربے کار صحافی اور تجزیہ کار خالد المعینا ''سعودی گزٹ'' کے ایڈیٹر ایٹ لارج ہیں۔

Post a Comment

0 Comments