All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

بی بی سی کی رپورٹ : ریاست بے بس کیوں ہے

ایم کیو ایم کے بھارتی کنکشن کے بارے میں بی بی سی کی رپورٹ نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ رپورٹ میں سنگین الزامات لگائے گئے ہیں۔ بی بی سی نے اس رپورٹ کیلئے برطانوی سورس (ذرائع) کی بجائے پاکستانی سورس کا سہارا لیا ہے جو معتبر اور مستند ہے۔ رپورٹ کے مطابق برطانوی اہلکاروں کی جانب سے عمران فاروق قتل اور منی لانڈرنگ مقدمات کی تفتیش کے دوران ایم کیو ایم کے دو سینئر رہنماﺅں نے ویڈیو بیان میں بھارت سے مالی مدد لینے کا اعتراف کیا۔ ایم کیو ایم کے کارکن بھارت میں دہشت گردی کی تربیت حاصل کرتے رہے ہیں۔ 
رپورٹ کیمطابق لندن میں مقیم ایم کیو ایم کے لیڈروں کے گھروں پر چھاپے کے دوران پانچ لاکھ پاﺅنڈ کی کرنسی اور ایسی لسٹیں برآمد ہوئیں جن میں بھارت سے حاصل کیے گئے اسلحے اور گولہ بارود کی تفصیل موجود تھی جسے کراچی میں دہشتگردی کیلئے استعمال کیا جانا تھا۔ بی بی سی نے اپنی رپورٹ کو مستند بنانے کیلئے برطانیہ کے دو ججوں کی آبزرویشن شامل کی ہیں جنہوں نے سیاسی پناہ کے مقدمات کے فیصلوں میں درج کیا کہ ایم کیو ایم کے دہشتگردوں نے ان دو سو پولیس افسروں کو قتل کردیا جنہوں نے دہشتگردی کے خاتمے کیلئے فعال کردار ادا کیا تھا۔ 

ریکارڈ اور شہادتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم طویل عرصے سے دہشتگردی میں ملوث ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ ایم کیو ایم نے برطانوی ججوں کے ان عدالتی ریمارکس کیخلاف کوئی اپیل نہ کی۔ ایم کیو ایم کی قیادت بی بی سی کی رپورٹ کیخلاف عدالتی چارہ جوئی کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتی حالانکہ برطانوی قوانین بڑے سخت اور عدالتی نظام شفاف اور منصفانہ ہے۔ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے بی بی سی کی رپورٹ کو بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی قراردیتے ہوئے کہا ہے ایم کیو ایم پاکستان کی سلامتی اور استحکام میں یقین رکھتی ہے اس کےخلاف بی بی سی کی رپورٹ میں لگائے جانیوالے الزامات کی نوعیت جناح پور اور نیٹو اسلحہ کے الزامات سے ملتی جلتی ہے جو ثابت نہ کیے جاسکے اور جن کی امریکہ اور سابق جرنیلوں نے تردید کردی۔ پاکستان کی تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ سیاستدانوں اور جرنیلوں کا میڈیا ٹرائیل ہی ہوتا رہا ہے جبکہ عدالتی ٹرائیل سے گریز کیا جاتا رہا ہے۔
ایم کیو ایم بدقسمت سیاسی جماعت ہے جو جمہوری طاقت رکھنے کے باوجود فاشسٹ نوعیت کے الزامات سے نجات حاصل نہ کرپائی۔ ایم کیو ایم کے کروڑوں حامی محب الوطن ہیں البتہ ایم کیو ایم کی قیادت سیاسی بصیرت اور وژن کا مظاہرہ نہ کرسکی۔ الطاف بھائی اپنے پرجوش خطاب میں توازن برقرار نہیں رکھ سکتے انہوں نے بھارت جاکر اپنے خطاب میں قیام پاکستان کو ہی ”بلنڈر“ قراردے دیا۔ بی بی سی کی رپورٹ میں لگائے گئے الزامات نئے نہیں ہیں۔ کراچی کے کھوجی پولیس افسر راﺅ انوار نے ایم کیو ایم پر اسی نوعیت کے الزامات لگائے تھے۔ انکی تحسین کی بجائے انکا تبادلہ کردیا گیا۔

 پاکستان کے عسکری دانشور سابق صوبائی وزیر بریگیڈئیر (ر) حامد سعید اختر سندھ میں (1990-91) ایم آئی کے صوبائی چیف تھے۔ انہوں نے ایم کیو ایم کی دہشت گردی، مجرمانہ سرگرمیوں اور بھارتی اعانت کے بارے میں رپورٹیں جی ایچ کیو کو ارسال کیں مگر اس وقت کے آرمی چیف نے انکی رپورٹوں پر سنجیدگی کے ساتھ غور نہ کیا۔ عام تاثر یہ ہے کہ آرمی چیف اپنی عوامی مقبولیت کے سلسلے میں خوش فہمی میں مبتلا تھے اور ریٹائرمنٹ کے بعد ایم کیو ایم کے تعاون سے سینیٹر اور صدر پاکستان بننے کے سیاسی خواب دیکھ رہے تھے۔ آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی جنرل(ر) حمید گل نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایم کیو ایم کیخلاف بی بی سی کی رپورٹ میں لگائے جانےوالے الزامات نئے نہیں ہے بلکہ ریاستی اداروں کے ریکارڈ میں پہلے ہی موجود ہیں۔

 پاکستان سے محبت کرنیوالے 82سالہ باباجی میجر (ر) شبیر احمد جنہوں نے پاکستان بنتے دیکھا۔ دو بڑی جنگوں میں اگلے مورچوں میں پاکستان کا دفاع کیا۔ چار سال بھارت کی قید میں رہے۔ آئی بی کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کے منصب پر فائز رہے۔ پانچ سال بلوچستان میں فرائض انجام دیتے رہے اور 1994میں کراچی آپریشن کے دوران جنرل(ر) نصیراللہ بابر کے ساتھ سرگرم کردار ادا کیا۔ اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں موجودہ حالات پر اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے۔ اس نے پاکستان کو توڑنے کیلئے کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ وہ آئندہ بھی اپنی مذموم کوششیں جاری رکھے گا۔ 

سوال یہ ہے کہ پاکستان کی ریاست کو منظم، مستحکم اور متحد رکھنے کیلئے کیا منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ اگر ہم اپنی اصلاح کرلیں تو کوئی دشمن پاکستان کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ بابا جی کہتے ہیں کہ 1994ءکے کراچی آپریشن میں ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے دہشتگردوں کی کمر توڑ کررکھ دی گئی تھی مگر بے نظیر بھٹو کے بعد آنیوالی حکومت نے سیاسی مصلحتوں کے تحت ایم کیو ایم کے مسلح ونگ کو دوبارہ زندہ کردیا اور بے نظیر بھٹو کو جلاوطن ہونا پڑا۔ باباجی کی نظر میں پاک چین اقتصادی معاہدے نے عالمی اور علاقائی تناظر کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ تاریخ کے اس بڑے قومی منصوبے کی تکمیل کیلئے لازم ہے کہ حکومت ان ملک دشمن عناصر کو عوامی، صحافتی اور عدالتی سطح پر بے نقاب کرے جو بیرونی طاقتوں کے آلہ¿ کار بن رہے ہیں۔

 سیاست کو بلا تفریق مجرموں سے پاک کیا جائے۔ بلوچستان میں سرداری نظام کو بحال کرکے بلوچ سرداروں کو امن و امان کے قیام کی ذمے داری سونپی جائے۔ سیاسی مسئلے کا فوجی حل جس کو گزشتہ دس سالوں سے آزمایا جارہا ہے کبھی کامیاب نہیں ہوگا کیونکہ نظریے کو گولی سے ختم نہیں کیا جاسکتا بلکہ نظریے کے مقابلے میں بہتر نظریہ دینا پڑتا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد بلوچ سردارپاکستان کے آئین کو تسلیم کرنے پر تیار ہوں گے بشرطیکہ ان کو مراعات دینے کا فیصلہ کرلیا جائے۔ ان مراعات پر خرچ ہونیوالی رقم ان اخراجات سے کم ہوگی جو بلوچستان میں فوجی آپریشن کے لیے استعمال ہورہے ہیں۔

پاکستان کے باشعور محب الوطن عوام یہ سوچ رہے ہیں کہ پاکستان کی ریاست اس قدر بے بس کیوں ہے۔ رب کائنات نے پاکستان کو ہر نعمت سے نوازرکھا ہے۔ پاکستان کا دفاع بڑا مضبوط ہے مگر جمہوری اور عسکری حکمران ریاست کو آئین اور قانون کے مطابق چلانے اور پاکستان کے عوام کو گڈ گورننس دینے میں کیوں ناکام رہے ہیں۔ حکمرانوں کی حرص و ہوس نے ریاست کو اس حد تک بے بس کردیا ہے کہ ملک دشمن اور عوام دشمن عناصر کھلم کھلا پاکستان کی سلامتی کے منافی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ لٹیرے بڑی دلیری اور بے باکی سے قومی دولت لوٹ رہے ہیں۔ جب انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کی کوشش کی جائے تو وہ سلامتی کے اداروں کو للکارنے لگتے ہیں اور پھر اس للکار کے بعد میدان میں ٹھہرنے اور اپنے اعمال کا حساب دینے کی بجائے اچانک دوبئی روانہ ہوجاتے ہیں۔ 

اگر بی بی سی پر پاکستان کی بھارت میں مداخلت کی رپورٹ جاری ہوتی تو بھارت آسمان پر سر اُٹھا لیتا اور پوری دنیا میں پاکستان کو بدنام کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھتا مگر پاکستان کی حکومت نے مصلحت پر مبنی چپ سادھ رکھی ہے۔ 1977ءمیں پی این اے کی تحریک جب عروج پر تھی۔ بھٹو شہید نے آرمی چیف جنرل ضیاءالحق سے کہا تھا کہ جنرل فوجی طاقت تمہارے ہاتھ میں ہے اور سیاسی طاقت میرے ہاتھ میں ہے آﺅ دونوں مل کر پاکستان کو ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کردیں مگر جنرل ضیاءالحق ذاتی اقتدار کے امکانات دیکھ رہے تھے اس لیے انہوں نے بھٹو کی تجویز کو سنجیدگی سے نہ لیا۔

 جنرل راحیل شریف پاکستان کے دفاع پر دہشتگردی کیخلاف جنگ پر پوری توجہ دے رہے ہیں جبکہ وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف معاشی دھماکے کے دعوے کررہے ہیں کیا شریفین ریاست کو بے بسی کی حالت سے نکال پائیں گے۔ اس سوال کا جواب 2016ءتک مل جائیگا۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی نے اعلان کیا ہے کہ حکومت بی بی سی کی رپورٹ میں لگائے گئے سنگین الزامات کی تحقیق کے سلسلے میں آخری حد تک جائیگی۔ آئین اور قانون کی مکمل اور یکساں عملداری سے ہی ریاست منظم اور متحد رہتے ہوئے اپنے مسائل پر قابو پاسکتی ہے۔ایم کیو ایم پر پابندی کی بجائے اس کے مسلح ونگ کو ختم کرنا چاہیئے۔

قیوم نظامی

Post a Comment

0 Comments