All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

بجٹ کیسا ہونا چاہئے...سراج الحق

وزیر خزانہ اسحق ڈار 5جون کو 2015- 16کا بجٹ پیش کرینگے ،یہ بجٹ کیسا ہونا چاہئے ،ہماری ترجیحات کیا ہونی چاہئیں اور مستقبل میں ہمیں اپنی معیشت کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے اور خود انحصاری کی منزل پر پہنچنے کیلئے قومی سطح پر کن اقدامات کی ضرورت ہے؟؟ ان سوالوں کا جواب ہر پاکستانی جاننا چاہتا ہے ، اس لئے ہمارے لیے لازم ہے کہ ہم اپنے معاشی پس منظر کوسامنے رکھتے ہوئے ۔(الف) مجموعی قومی پیداوار میں سالانہ اضافے کا ہدف کم از کم7فیصد رکھیں (ب)۔ اس ہدف کو پورا کرنے کیلئے زرعی اور صنعتی سیکٹرزمیں سالانہ بڑھوتری بھی اسی ہدف کے مطابق ہو۔ (ج)ملکی ریونیو میں کم ازکم ڈیڑھ کھرب روپے کا سالانہ اضافہ کرناہوگاتاکہ ہمیں خسارہ پورا کرنے کیلئے قرض نہ لینے پڑیں۔(د)غیر ضروری درآمدات کو کم کرکے برآمدات کو بڑھانا ہوگاتاکہ بین الاقوامی تجارت میں ہمارا خسارہ کم ہوسکے۔

ان مقاصد کے حصول کیلئے ہمیں سب سے پہلے طرز حکمرانی بدلناہوگا۔ خاندانی وراثتی اور ذاتی وفاداری کی بنیاد پر حق حکمرانی کی بجائے عوام کے حقیقی نمائندوں کے ذریعے سے مشاورتی بنیاد پر میرٹ کیمطابق فیصلے کرنے ہونگے۔ میرٹ کی حکمرانی کے بغیر عدل قائم نہیں ہوسکتا۔ 2015-16ء کے بجٹ میں ہمیں ہرحال میں خودانحصاری کی طرف آناپڑیگا۔ اس سا ل بھی ریونیوکا بہت بڑاحصہ سود اور اصل زر کی قسطوں کی واپسی میں گیا ۔ ٹیکسیشن پالیسی کو اگر مالیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیاجائے تو اہل ثروت لوگوں سے مالی وسائل معاشی لحاظ سے کم نصیب لوگوں کی طرف منتقل کیے جاسکتے ہیں۔

 مگر موجودہ پالیسی جس کے تحت ڈائریکٹ ٹیکسز کا بھی 88فیصد ودہولڈنگ ٹیکس کے ذریعہ سے جمع کیاجاتاہے اور صرف 12فیصد حصہ اسسمنٹ /انفورسمنٹ کے ذریعہ سے وصول کیا جاتا ہے اور اسکے ساتھ سیلز ٹیکس ،کسٹم ڈیوٹی اور ایکسائز ڈیوٹی پہلے سے موجود ان ڈائریکٹ ٹیکسز بھی نافذ رہیں تو صاف ظاہر ہے کہ حکومت معاشی طور پر خوشحال لوگوں سے مالی وسائل لے کر معاشی لحاظ سے کم نصیب طبقے کی تکالیف کے ازالہ میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ معاشی طور پر خوشحال طبقے کے تعین میں ضروری اعداد و شمار اور کوائف حکومتی اداروں کے پاس موجود ہیں۔

 مثلاً بیرون ملک سفر ،اعلیٰ مہنگے اداروں میں بچوں کی تعلیم ،اعلیٰ مہنگے ہسپتالوں میں علاج ،بجلی گیس اور ٹیلی فون بمعہ موبائل فونزکے بل اور مختلف کلبوں کے بل کے متعلق ڈیٹا موجود ہے۔ بڑے شہروں کے پوش علاقوں میں عالی شان محل ،سب کو نظرآتے ہیں اور انکے بنانے کیلئے وسائل کاتعین کرنا کوئی جوئے شیر لانانہیں۔ یہی وہ واحد روڈ میپ ہے جس کے ذریعے سے ہم نہ صرف اپنے وسائل سے بہت حد تک اپنی ضروریات پوری کرسکتے ہیں بلکہ معاشی طور پر کم نصیب لوگوں کی فلاح و بہبود کی ذمہ داری بھی ادا کرسکتے ہیں۔اسی طرح سے ہر قسم کی آمدنی ،جو طے شدہ حد مثلاً چھ لاکھ روپے سالانہ ، سے زیاد ہ ہو ،وہ ٹیکس نیٹ میں لائی جائے۔ ودہولڈنگ ٹیکس کی بجائے انفورسمنٹ / اسسمنٹ /آڈٹ کاطریقہ اختیار کیاجائے۔ 

ٹیکس ادا کرنے والوں کی مکمل آگاہی کا انتظام کیاجائے۔ تمام قواعد و ضوابط سادہ اور عام فہم بنائے جائیں اور شکایت کی صورت میں مؤثر دادرسی اور احتساب کانظام قائم کیاجائے۔ 1996ء میں VATکے طریقہ کار پر سیلز ٹیکس کانظام لایاگیاتھاجس کا بنیادی مقصد معیشت کو دستاویزی شکل میں لانا تھانہ کہ ریونیوبڑھانے کیلئے استعمال کرناتھا۔آہستہ آہستہ معیشت کے دستاویزی شکل اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ ریونیو کیلئے انحصار انکم ٹیکس پر کیا جاناتھا۔ لیکن اس سکیم کو کامیاب نہیں ہونے دیا گیا۔ جب تک معیشت دستاویزی شکل اختیار نہیں کرتی اس وقت تک ڈائریکٹ ٹیکسز عدل و انصاف کے ساتھ جمع نہیں کیے جاسکتے اور جب تک اِن ڈائریکٹ ٹیکسز پر انحصار رہے گا۔ ٹیکسیشن کا نظام عادلانہ نہیں ہوسکے گا۔ ہماری تجویز ہے کہ بغیر کسی چھوٹ کے اندرون ملک ہر قسم کی سپلائی پر اور ہر درآمد پر 5فیصد سیلز ٹیکس لگایا جائے۔ تھائی لینڈ اورسنگا پور میں اس وقت سیلز ٹیکس کا ریٹ 7فیصد ہے،انڈونیشیا میں 10فیصد ہے اور سری لنکا میں 12فیصد ہے۔ ہمیں توانائی کے بحران کو فوری طور پر حل کرناہوگا۔

زراعت کا سیکٹر(بالخصوص فصلات )تقریباً گزشتہ سال سے شدید بحران کا شکار ہے۔ لائیوسٹاک کی حالت بھی اچھی نہیں ہے۔ زراعت کے سیکٹر میں 87 فیصد تک تعداد چھوٹے کسانوں کی ہے۔ جن کے پاس نہ تو پس انداز کی ہوئی آمدنی ہوتی ہے اور نہ ہی اپنی پیداوارا کو سٹور کرنے کی صلاحیت ۔پیشتر اسکے کہ موجودہ بحران اس طبقے کو ملیا میٹ کردے۔ حکومت تمام اہم زرعی اشیاء کی سپورٹ پرائس مقرر کرے او ر اس قیمت پر منڈی میں فروخت کو یقینی بنائے۔ جیسا کہ انڈیا میں ہے ۔ علاوہ ازیں زرعی مداخل (کھاد، زرعی ادویات ،زرعی مشینری) پر عائد سیلز ٹیکس ختم کرے ۔ زرعی ٹیوب ویلوں پر فلیٹ ریٹ سے بل وصول کیے جائیں۔

 کسانوں کو زرعی قرضے بلاسود دلوائے ،اس ضمن میں جماعت اسلامی حکومت کو سٹیٹ بینک سے منظور شدہ طریقہ کار کے مطابق ماڈل بناکر دینے کیلئے تیارہے۔ اور سہولت کار کارول نبھانے کیلئے اپنی خدمات پیش کرتی ہے۔زرعی تحقیق پر زیادہ سے زیادہ فنڈزلگائے جائیں تاکہ جدید ٹیکنالوجی استعمال کرکے اوسط پیداوا بڑھائی جائے او ر اضافی پیداوار کو ایکسپورٹ کیاجائے۔ حکومت کسانوں کی نمائندہ تنظیموں کے ساتھ مشاورت سے زرعی آمدنی پر ٹیکس لگانے کامعاملہ طے کرے۔ سٹاک مارکیٹ ،رئیل اسٹیٹ ،تعمیرات کی صنعت ،اور ڈویلپرزکو ٹیکس نیٹ میں لایاجائے۔

بجٹ 2015-16ء میں مدنظر رکھنے کیلئے ایک اور بہت اہم پہلو نجکاری کا ہے۔
آئندہ نجکاری کا عمل سیاسی جماعتوں کی مشاورت کیساتھ کیا جائے اور وہ ادارے جو ریاست کی ضرورت ہیں انکی ہرگز نجکاری نہ کی جائے البتہ ایسے اداروں کو منافع بخش بنانے کیلئے حکمت عملی اپنائی جائے ۔

جب تک انسانی وسائل کی ترقی پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی ملکی معیشت ماہر افراد کی خدمت سے ہمیشہ محروم رہے گی ۔ اس وقت تعلیم پر جی ڈی پی کا 2فیصد سے بھی کم اور صحت پر اس سے بھی کم خرچ انسانی وسائل کی ترقی میں حائل ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ 2015-16ء کے بجٹ میں ان دونوں سیکٹرز کیلئے جی ڈی پی کا 4سے 6فیصد ،فی سیکٹر،حصہ رکھاجائے۔ سارے ملک میں یکساں نظام تعلیم اور وہ بھی اپنی قومی زبان میں یقینی بنایا جائے۔ ملک بھر میں بڑی تعداد میں ٹیکنیکل سکول ،کھولے جائیں ،جہاں آٹو موبائل ،بجلی والیکٹرانکس وغیرہ کی تعلیم دی جائے اور یہاں کے فارغ التحصیل طلباء کو اپنا کاروبار شروع کرنے کیلئے بلاسودقرضے دیئے جائینگے۔

سرکاری ملازمین کی تنخواہیں 15فیصد بڑھائی جائیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ مزدوروں کیلئے کم ازکم 15000روپے ماہانہ تنخواہ مقرر کی جائے۔ اسی کے ساتھ میڈیکل اور کنوینس الائونس میں 200 فیصد اضافہ کیاجائے۔ پنشن اور کمیوٹیشن کا پرانا فارمولا 50فیصد ، 50فیصد بحال کیا جائے۔ سرکاری ملازمین کے موواووراور سلیکشنز گریڈکی سکیم بحال کی جائے۔

ملک میں سودی نظام کا خاتمہ کیاجائے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے غیر سودی نظام کے نفاذ کیلئے تفصیلی ہدایات اور طریقہ کار جاری کیے ہوئے ہیں۔ حکومت کم ازکم وہاں سے اس کارخیر کاآغاز کردے تاکہ ہم مجموعی طور پر اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نا فرمانی سے بچ سکیں۔ایک اور اہم مسئلہ این ایف سی ایوارڈ کا ہے۔ حکومت نے این ایف سی کمیشن تشکیل دے دیا ہے۔ ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں وفاق اور صوبوں کے درمیان محاصل کی تقسیم کا جو فارمولا طے پایاتھا ۔کم ازکم اس کو ہر حال میں برقرار رکھاجائے۔

 صوبوں کے سرپلس کو وفاق کی طرف موڑنے کی ماضی کی سب کوششیں آئندہ کیلئے ختم ہونی چاہئیں۔ پاکستان چین اقتصادی راہداری کامنصوبہ بہت اہم ہے۔متذکرہ بالا تجاویز پر اگر حقیقی معنوں میں عمل ہوجائے تو آئندہ بجٹ میں ہم نہ صرف آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ذلت سے بچ جائینگے بلکہ قوم خود انحصاری اور حقیقی آزادی کی منزل کے راستے پر بھی گامزن ہوجائیگی۔

سراج الحق

Post a Comment

0 Comments