All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

امریکہ کا نظامِ عدل


امریکہ کی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کو جو 1916ء کے صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹک پارکی کی نامزدگی کیلئے کوشاں ہیں امریکی شہر بالٹی مور میں سفید فام پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام شہریوں کے قتل پر پھر سے پھوٹ پڑنے والے پرتشدد ہنگاموں پر یہ کہنا پڑا کہ ہمیں یہ تلخ حقیقت تسلیم کرنی پڑے گی کہ سیاہ فام امریکیوں کے لئے امریکہ کا نظام عدل انتہائی ناقص ہے۔ افریقی نژاد امریکیوں کی ایک تہائی آبادی کو اپنی زندگی میں جیل جانا پڑتا ہے۔ گو اس وقت ایک سیاہ فام امریکہ کا صدر ہے اس کے باوجود سفید فام شہریوں کے مقابلے میں راہ چلتے افریقی نژاد امریکیوں کو پولیس روک کر تلاشی لیتی ہے، ان پر فردِ جرم عائد کرتی ہے اور عدالت انہیں لمبی سزا سناتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے اپنے تعزیری نظامِ عدل کو بے لگام چھوڑ دیا ہے جس سے وہ اپنا توازن کھو بیٹھا ہے لیکن ہمیں حالیہ المناک واقعات پر متحرک اور فعال ہو کر اپنے نظامِ عدل میں تو ازن پیدا کرنا چاہئے۔ ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں باراک اوباما کا لہجہ محتاط اور مبہم تھا۔ انہوں نے اشارتاً و کنایتاً تو سیاہ فام امریکیوں کے ساتھ نازیبا سلوک اور ناروا امتیاز کا ذکر کیا لیکن سفید فام پولیس، ججوں اور ارکان جیوری کے متعصبانہ رویے کا کھل کر ذکر کرنے سے اجتناب کیا اور کسی پادری کی طرح   کی ناصحانہ تلقین کی ۔
 
 صدر اوباما نے ذرا ہمت کر کے گزشتہ سال اگست میں ریاست مسوری کے قصبے فرگوسن میں سفید فام پولیس کے ہاتھوں 18 سالہ نوجوان مائیکل براؤن کو گولی مار کر ہلاک کرنے والے واقعہ کا ذکر کیا جس میں قرائن اور عینی شہادت کے باوجود سفید فام ارکانِ جیوری کی اکثریت نے قاتل کو باعزت بری کر دیا۔ ارکانِ جیوری نے اس قتل کو قاتل کا حقِ خوداختیاری قرار دے کر اسے آزاد کر دیا۔ سیاہ فام آبادی امریکہ کی مجموعی آبادی کا 18 فیصد ہے اور بعض جنوبی ریاستوں کے علاقوں میں اکثریت میں ہے لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ خود رچرڈ کلنٹن کی ریاست میں سیاہ فام کئی قیدیوں کو اس طرح ایک ہی زنجیر میں باندھ دیا جاتا ہے کہ وہ ایک ساتھ بندھے بندھے رہتے ہیں حتیٰ کہ بیک وقت رفع حاجت بھی کرتے ہیں۔

اس کی اطلاع 90ء کی دہائی کے اواخر میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے باتصویر شائع کی تھی۔ یہ ہیلری کلنٹن کی سسرال کی خبر ہے لیکن میاں بیوی دونوں میں کسی نے بھی اس توہین آمیز رویے کی مذمت نہیں کی۔ اب جبکہ موصوفہ صدارتی امیدواری کے لئے کوشاں ہیں تو انہیں سیاہ فام امریکیوں کے ووٹ کی ضرورت محسوس ہوئی تو ان کا دل مظلوم سیاہ فام امریکیوں کی حالتِ زار پر بھر آیا اور انہیں اچانک امریکہ کے نظامِ عدل کے نقائص نظر آنے لگے۔ میں ذرا ہیلری کلنٹن کو سات قبل کی تقریریاد دلانا چاہتا ہوں جب وہ اوباما کے مقابلے میں ڈیموکریٹک پارٹی سے صدارتی امیدوار کا ٹکٹ حاصل کرنے کے لئے ایڑی چوٹی (ویسے محترمہ چوٹی تو باندھتی ہی نہیں) کا زور لگا رہی تھیں۔ جب انہوں نے دیکھا کہ مختلف ریاستوں میں اوباما ان سے سبقت لے جا رہے ہیں تو انہوں نے کسی ہارے جواری کی طرح اپنا آخری پتا پھینک دیا۔ انہوں نے یہ کہا تھا کہ امریکہ کی سفید فام اکثریت سیاہ فام کے صدر منتخب ہونے کے حق میں نہیں ہے۔

امریکہ میں سیاہ فام آبادی مساویانہ حقوق کے لئے آج سے نہیں بلکہ امریکہ پر گوروں کی نوآبادی کے قیام سے ہی جدوجہد کرتی آئی ہے جو اب شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ فرگوسن کی واردات سے کہیں قبل سے وہ گوری پولیس کے ظلم و ستم کے خلاف احتجاج کرتی رہی ہے لیکن چونکہ امریکی عدلیہ اور پولیس کا باہم گٹھ جوڑ رہا ہے اس لئے انہیں کبھی انصاف نہیں ملا چنانچہ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق اب اس نے پولیس کے تشدد کا جواب تشدد سے دینا شروع کر دیا۔ اب تو نیویارک، شکاگو، مسوری، کیلیفورنیا، فلاڈلفیا غرضیکہ امریکہ کے طول و عرض میں توڑپھوڑ، لوٹ مار ، گھیراؤ جلاؤ، پولیس اہلکاروں پر ہدفی حملے روز مرہ کا معمول بن گئے ہیں جن کے باعث حکمران طبقے کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں جبھی تو امریکی عوام کی توجہ اندرونی مسائل سے ہٹانے کے لئے انہوں نے اسلامی انتہاپسندی اور جہادیوں کا ہوّا کھڑا کیا ہے۔

توہینِ رسالت، قرآنِ کریم کے نسخوں کی سرِعام آتشزنی با عصمت مسلم خواتین کے آنچل اور نقاب کو نوچنا، مساجد پر پٹرول بم سے حملے کرنا، اسلامی مراکز کو تباہ کرنا اس سفید فام مافیا کا طریقۂ واردات بن گیا ہے۔ سفید فام مافیا امریکہ میں مقیم مسلمانوں کی جاسوسی کرتی ہے جبکہ سی آئی اے پاکستان افغانستان اور یمن پر ڈرون حملے کرتی ہے۔ مسلم ممالک کے قدرتی وسائل مثلاً تیل، گیس، یورینیم، سونے ، چاندی، تانبے کے ذخائر پر غاصبانہ قبضہ کر نے کے لئے وہاں اپنے ففتھ کالم کے ذریعے تخریب کاری اور دہشت گردی کراتی ہے تاکہ ان ممالک میں اسے مداخلت کا جواز حاصل ہو۔

جب تک امریکہ کی سیاہ فام آبادی مسلم مالک میں امریکی حکمرانوں کی مداخلت کے خلاف نہیں اٹھ کھڑی ہوتی اس وقت تک وہ سفید فام مافیا کی غلامی سے ہرگز نجات نہیں حاصل کر سکتی۔ انہیں اور مسلمانوں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ان دونوں (سیاہ فام اور مسلمان) کا دشمن ایک ہے لہٰذا انہیں متحد ہو کر سفید فام مافیا کے خلاف جدوجہد کرنا چاہئے۔ امریکہ اور دنیائے اسلام میں آباد مسلم امہ کے افراد کو امریکہ کے سیاہ فام عوام کی جدوجہد کی بھرپور حمایت کرنی چاہئے اسی طرح سیاہ فام آبادی کو مسلم ممالک پر امریکی حملوں اور ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی مزاحمت کرنی چاہئے۔ یاد رہے اگر سیاہ فام امریکی اور مسلمان سفید فام مافیا کے خلاف متحد نہیں ہوئے تو وہ ان کے ظلم و ستم اور ناانصافیوں سے کبھی نجات حاصل نہیں کر سکیں گے۔ امریکہ میں آباد مسلمانوں کو سفید فام پولیس کے خلاف سیاہ فام آبادی کی مزاحمت کا ساتھ دینا چاہئے جبکہ سیاہ فام عوام کو امریکی عدالت کی جانب سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو دی گئی 87 سالہ قید سے رہائی کیلئے جدوجہد کرنا چاہئے

پروفیسر شمیم اختر
"بشکریہ روزنامہ "نئی بات

Post a Comment

0 Comments