All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

کیا ہے تو نے متاعِ غرور کا سودا


کس قدر حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ ہم جسے حقائق کی دنیا کہتے ہیں اور جس میں کامیابی و ناکامی پر قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں رقم کرتے ہیں میرا اللہ اسے ’’متاعِ غرور‘‘ یعنی دھوکے کا سامان کہتا ہے۔ یہ دنیا اگر کسی سیاستدان، بادشاہ، سائنسدان، دانشور یا کالم نگار نے تخلیق کی ہوتی تو میں یقیناً اسے حقائق کی دنیا تسلیم کر لیتا اور اپنا تمام ماتم دنیا میں کامیابی اور ناکامی سے منسلک کر دیتا۔ لیکن میں کیا کروں، میرا کامل ایمان ہے کہ یہ دنیا اللہ تبارک و تعالیٰ نے تخلیق کی ہے اور وہ اس دنیا کی اس سے زیادہ تعریف نہیں فرماتا کہ یہ دھوکے کا سامان ہے۔ سید الانبیاء ﷺ نے اس دنیا میں رہنے، زندگی بسر کرنے یا ایک معلوم وقت گزارنے کے لیے اس دنیا کی جو تعریف کی ہے اور جس طرح اس کی بے وقعتی کی طرف اشارہ کیا ہے اس سے خوبصورت اس دنیا کو بیان ہی نہیں کیا جا سکتا۔

 اس دنیا سے جانے کے بعد بھی ایک لامتناہی زندگی ہمارا مقدر ہے اور ہم ایک تھوڑے سے وقفے کے لیے اس عارضی پڑاؤ یا ٹرانزٹ لاؤنج میں آئے ہیں۔ اللہ نے ہمارا یہ سفر اور یہ عارضی پڑاؤ ایک خاص مقصد کے لیے تخلیق کیا ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ ’’ہم نے موت اور حیات کو تخلیق کیا ہے تا کہ دیکھیں کہ تم میں سے اچھے اعمال کون کرتا ہے‘‘ (الملک)۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اچھے اعمال کی تعریف میں نہ عبادات آتی ہیں اور نہ ہی دنیا کی مادی کامیابی۔ عبادات تو ایک فرض ہے کہ جسے آپ نے اللہ کے حکم کے مطابق ادا کرنا ہے جب کہ ’’اچھے اعمال‘‘ تو آپ کا وہ تمام طرز عمل ہے جو آپ اس ’’عارضی پڑاؤ‘‘ میں اختیار کرتے ہیں۔

آپ جھوٹ نہیں بولتے، دھوکا نہیں دیتے، وعدہ خلافی نہیں کرتے، غیبت نہیں کرتے، قتل نہیں کرتے، ملاوٹ نہیں کرتے، لوگوں کا مال ہڑپ نہیں کرتے، اپنے کمائے ہوئے مال سے قرابت داروں، یتیموں، بیواؤں، مسکینوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں، آپ والدین کی خدمت کرتے ہیں اور ان کے سامنے اف تک نہیں کرتے، آپ اولاد کی نیک اور صالح اصولوں پر پرورش کرتے ہیں، آپ زنا نہیں کرتے، آپ غیر فطری فعل سے نفرت کرتے ہیں، غرض اعمال صالح کی ایک طویل فہرست ہے جو اللہ اور اس کے رسولﷺ نے بتائی ہے اور اسے ہی دنیا میں کامیابی اور ناکامی کا معیار بتایا ہے۔ آج اس ہنستی بستی دنیا کے ہر معاشرے میں انھی اچھے اعمال کو ہی معاشرے کی کامیابی کا معیار سمجھا جاتا ہے۔

دنیا کا کوئی صاحب عقل شخص کسی معاشرے یا سوسائٹی کی خوبصورتی کی تعریف کرتا ہے تو وہ کبھی یہ نہیں کہتا کہ وہاں بلب کتنے بنتے تھے، کاریں کتنی تھیں، پل کس قدر تھے، بلند و بالا عمارتیں کتنی تھیں، بلکہ وہ معاشرے کی خوبصورتی کا معیار اس ماحول کی انسانی اقدار سے لیتا ہے۔ وہاں چوری، ڈاکہ، زنا بالجبر، دھوکا، فریب، جھوٹ، قتل، اغوا اور دیگر جرائم کسقدر کم ہیں، وہاں انسان نے انسانوں کی فلاح کے ادارے کس قدر قائم کر رکھے ہیں۔ وہ اپنے بوڑھوں، معذوروں، یتیموں اور بیواؤں کا کس طرح خیال رکھتے ہیں۔ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ انسان آج کے اس ترقی یافتہ دور سے کہیں زیادہ بہتر طریقے سے یہ اچھے اعمال ان معاشروں میں کرتا تھا جنہوں نے موجودہ شہری زندگی یعنی ’’اربن لائف‘‘ کی شکل تک نہیں دیکھی تھی اور آج بھی دنیا بھر کے دیہی معاشرے انسانی ہمدردی اور اچھے اعمال میں ترقی یافتہ دنیا سے کہیں آگے ہیں۔

دنیا کی کسی سائنسی اور مادی ترقی کا کوئی تعلق انسان کی اخلاقی اور معاشرتی ترقی سے نہیں ہے بلکہ دنیا میں کارپوریٹ کلچر نے بدترین اخلاقیات کی بنیاد رکھی ہے۔ اپنی کاروباری سلطنت کی وسعت کے لیے انھوں نے جنگیں کیں، ملکوں پر قبضے کیے، دھوکے اور فراڈ سے مال بیچ کر کمپنیوں کے سرمائے میں اضافہ کیا، اسی زمین پر کروڑوں لوگوں کا خون بہایا اور آج بھی بہایا جا رہا ہے۔ پوری انسانی تاریخ میں اس قدر انسان قتل نہیں ہوئے جتنے موجودہ مادی ترقی کی دوڑ میں ہوئے۔ جنگ عظیم اول سے لے کر عراق کی جنگ تک کیا ٹیکنالوجی انسانوں کی فلاح، امن اور سکون کے لیے استعمال ہوئی۔ ہر گز نہیں۔ بلکہ یہ صرف اور صرف انسانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے استعمال ہوئی۔

کیا ہم کسی عارضی پڑاؤ یا ٹرانزٹ لاؤنج میں مستقل پڑاؤ کا رویہ رکھتے ہیں۔ کیا ہم کسی ایئر پورٹ، ریلوے اسٹیشن، یا بس اڈے پر کچھ دیر کے لیے رکیں اور ہم سب کو علم ہو کہ ہماری بس، ٹرین یا جہاز نے کسی بھی وقت آ جانا ہے اور ہم نے چند لمحے اس ٹرانزٹ لاؤنج میں گزارنے ہیں تو ہمارا رویہ کیا ہو گا۔ ہم زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے کو آرام پہنچانے کی کوشش کریں گے، کسی چیز کو اپنی مستقل ملکیت تصور نہیں کریں گے، ہم بس، ٹرین یا جہاز پر سوار ہوتے ہوئے پریشان نہیں ہوں گے، اس لیے کہ ہمیں یقین ہو گا کہ اگلی سواری پر میرے باپ بھائی، بیوی بچوں اور دوستوں نے بھی میرے ساتھ آ کر مل جانا ہے اور جو پہلے چلے گئے ہیں، میں ان سے جا کر ابھی ملاقات کر لوں گا۔

ہمیں ٹرانزٹ لاؤنج میں کونسے لوگ زیادہ اچھے لگتے ہیں، وہی جو ہم پر سب سے زیادہ مہربان ہوں، جو اپنی جگہ ہمارے لیے چھوڑ دیں، اپنا آرام ہمارے لیے قربان کر دیں۔ دنیا میں بڑے سے بڑے مادہ پرست کو بھی جب اور جہاں اس بات کا یقین ہو جائے کہ وہ یہاں صرف چند لمحوں کے لیے آیا ہے اور پہلی فلائٹ پر چلا جائے گا تو اس کا رویہ بدل جاتا ہے۔ وہ مستقل رہائش کے بندوبست اور سامان نہیں کرتا۔ ’’متاع غرور‘‘ اور عابر السبیل‘‘ یہ دو تصورات ہیں جو انسانی دنیا کو خوبصورت بناتے اور انسانی کامیابی کے اصول متعین کرتے ہیں۔ دنیا کے ہر مہذب معاشرے میں ہر جائز و ناجائز طریقے سے دولت کما کر اپنی معاشی سلطنت بڑھانے والا محترم نہیں گردانا گیا بلکہ اپنی معاشی سلطنت مستحق افراد میں بانٹنے کے بعد اس عارضی پڑاؤ سے چلے جانے والا قابل احترام تصور ہوا ہے۔

دنیا کی اس حیثیت کو اگر ہم سمجھ لیں تو پھر ہمارے لیے اللہ کی ذات کا تصور اور کامیابی کا معیار سمجھنا آسان ہو جائے گا۔ اللہ انسانوں کو اپنی ہر نعمت ایک امتحان کے طور پر عطا کرتا ہے۔ امتحان یہ کہ وہ اس نعمت پر اس کا شکر ادا کرتے ہوئے اس سے کس طرح خلق خدا کی خدمت کرتے ہیں اور پھر ایسا کرنے پر اس کا وعدہ ہے کہ وہ نعمتوں میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔ مسلمانوں معاشروں اور حکومتوں میں جب یہ چلن عام رہا ان پر نعمتوں کی بارش ہوتی رہی۔ لیکن یہی چلن جب دوسروں نے اختیار کر لیا تو نعمتوں کا رخ ان کی جانب موڑ دیا گیا۔ اللہ کے ہاں کسی بھی معاشرے پر رحمتوں کی بارش ان کی ٹیکنالوجی میں ترقی کی بنیاد پر نہیں بلکہ اچھے اعمال کی صورت میں ہوتی ہے جو اس دنیا میں انسان کو بھیجنے کا مقصد ہیں۔ خالصتاً مادہ پرستی کی کوکھ سے ظلم، زیادتی، ناانصافی اور جبر برآمد ہوتا ہے جس کا تجربہ آج پوری دنیا کو ہے۔

انسان کی ساری ترقی کا صرف اور صرف ایک ہی اعلیٰ اور ارفع مقصد ہوتا ہے اور وہ ہے پرسکون زندگی۔ اگر وہی حاصل نہ ہو سکے تو ساری جدوجہد ناکام۔ کیا پوری انسانیت کی جدوجہد ناکام نہیں۔ کیا پوری انسانیت بے چینی، بے اطمینانی، خوف، غربت، افلاس، جنگ، جہالت، ظلم اور قتل و غارت سے عبارت نہیں۔ ہر معاشرے کی اپنی بے چینی اور اضطراب ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں کا اپنا اور ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں کا اپنا۔ اس لیے کہ موجودہ دنیا کے ہر تجزیہ نگار، معیشت دان، سیاسی ماہر نے ترقی کا ایک ہی پیمانہ بنا رکھا ہے۔ یعنی مادی ترقی، معیشت، ٹیکنالوجی اور مادی سہولیات میں ترقی۔ یہ ہے متاع غرور کا سودا۔
دھوکے کے سامان سے محبت، دھوکے کے سامان کو ترقی کی معراج سمجھنا۔ یہ دھوکے کا سامان ہر کسی کو اس کے مزاج، حیثیت اور مقام کے مطابق دھوکا دیتا ہے۔ ٹرانزنٹ لاؤنج میں بیٹھے لوگ اپنی فلائٹ کے لیے زیادہ بے چین ہوتے ہیں، انھیں جلد اپنی منزل پر پہنچنے کی دھن مضطرب کر رہی ہوتی ہے۔ ہمیں یقین ہی نہیں کہ ہماری کوئی منزل ہے، ہم تصور کیے بیٹھے ہیں کہ ہماری فلائٹ کینسل ہو چکی ہے۔ ہم ٹرانزٹ لاؤنج سے اسقدر محبت کرتے ہیں کہ ہمیں اسی کے اجڑنے پر اپنی زندگی اجڑنے کا گمان ہونے لگتا ہے۔ اس سے زیادہ دھوکے کا سامان اور کیا ہو سکتا ہے۔ اقبال نے اس قرانی اصلاح کا کیا خوب شعری اظہار کیا ہے؎

کیا ہے تونے متاعِ غرور کا سودا
فریب سود و زیاں لا الہ الا اللہ

اوریا مقبول جان
"بشکریہ روزنامہ ’’ایکسپریس

Post a Comment

0 Comments