All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

امریکی ڈرون - نشانہ امریکی اور اٹلی شہری.....

امریکی صدر کو دو لڑائیاں ورثے میں ملیں۔ ایک لڑائی عراق میں جاری تھی۔ جہاں سے امریکی اور اتحادی فوجوں کو واپس بلا لیا گیا تھا لیکن جنگ پھر بھی جاری رہی۔ دوسری لڑائی افغانستان میں جاری تھی جسے صدر اوباما مشکل سے ختم کرنے کے قریب لایا لیکن بسیار کوشش کے باوجود یہ لڑائی ختم نہ ہوسکی۔ ابھی یہی کشمکش جاری تھی کہ کون سی لڑائی جاری ہے اور کون سی ختم، کہاں سے فوجیں واپس آنی ہیں اور کتنی فوجیں باقی رکھنا ہیں کہ یمن میں لڑائی شروع ہوگئی جو اب تک جاری ہے۔ ان لڑائیوں میں امریکی فوج اور سی آئی اے کا سب سے مہلک ہتھیار ’’ڈرون‘‘ رہا۔ 
امریکیوں نے اس سے اتنے گناہگار نہیں مارے جتنے بے گناہ مارے گئے لیکن امریکیوں نے ہمیشہ اس پر فخر کیا کہ اس سے ہم نے وہ کامیابیاں حاصل کی ہیں جو ہمیں روایتی جنگوں اور حملوں سے بھی نہیں مل سکیں۔ اس میں جتنے بھی بے گناہ شہری عورتیں اور بچے ہلاک ہوئے ان کا نہ تو کبھی تذکرہ کیا گیا اور نہ ہی ان پر شرمندگی کا اظہار کیا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان حملوں میں ہلاک ہونے والے بے گناہ شہری امریکی نہیں تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ’’ڈرون جنگ‘‘ کو امریکہ میں بہت پسند کیا گیا اور ان کے حملوں کے بعد ہلاک ہونے والے دہشت گردوں جو کہ اکا دکا ہوتے تھے خوب تشہیر کی جاتی تھی لیکن ان کے ساتھ ہلاک ہونے والے شہریوں کے بارے میں خبروں کو ہوا بھی لگنے نہیں دی جاتی تھی۔

امریکی اور مغربی میڈیا اس جرم میں برابر کے شریک رہے ۔ مقامی میڈیا کو ان علاقوں اور خبروں تک بہت کم رسائی رہی اور ان کی اطلاعات صرف حملے کی حد تک رہیں اور ان کا انحصار صرف مغربی میڈیا تک ہی رہا۔ لیکن قانون قدرت نے ایک دن حرکت میں آنا ہوتا ہے اور پچھلے ہفتے وہ منظر عام پر آگیا جس کے بارے میں دنیا کو شکوک و شبہات تھے۔ پچھلے ہفتے کی اطلاعات کچھ اس طرح سے تھیں۔ 15 جنوری 2015ء کو امریکی ڈرون نے پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے میں جو کہ ان کی اطلاع کے مطابق القاعدہ کا گڑھ تھا، حملہ کیا۔ اس جگہ پر کافی عرصے سے چار لوگوں کی آمدورفت جاری تھی جسے سیٹلائٹ، ڈرون اور دیگر ذرائع سے دیکھا گیا۔

 ان لوگوں کی گفتگو کو بھی موبائل فونز کی مدد سے سنا گیا۔ ان اطلاعات کی تصدیق کے بعد رپورٹ وائٹ ہاؤس روانہ کی گئی اور اس کے بعد وائٹ ہاؤس نے اس جگہ پر ڈرون حملے کی اجازت دیدی۔ چنانچہ حملہ کیا گیا اور حملے کے دوران اس مقام کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ حملے کے بعد امریکی رپورٹوں کے مطابق ملبے سے چار کی بجائے چھ لاشیں برآمد ہوئیں جن کی تدفین کر دی گئی جس پر امریکی سخت پریشان رہے کہ ان کی اطلاعات کے مطابق تو اس جگہ پر چار دہشت گردوں کو نشانہ بنایا گیا تھا جن کی کئی ذرائع سے تصدیق ہوئی تھی لیکن یہاں سے چھ لاشیں کیوں برآمد ہوئیں۔

 جنوری 2015ء سے 23 اپریل 2015ء تک امریکی حکومت کو یا تو یہ معلوم ہی نہیں ہو سکا کہ دو لاشیں کن لوگوں کی تھیں یا پھر امریکی حکومت نے یہ اطلاع بوجوہ چھپائے رکھی۔ میڈیا کے بعض ذرائع کے مطابق امریکی حکومت کو اس کا علم ہی نہیں ہوا کیونکہ ان کی اطلاعات رسانی کا سلسلہ اتنا کمزور ہے کہ ان کے پاس صحیح اطلاعات ہوتی ہی نہیں ہیں اور وہ یہ حملے صرف واقعات کی کڑیاں جوڑ کر کرتے ہیں جن میں بے گناہ لوگ بھی مارے جاتے ہیں لیکن میڈیا کے بعض ذرائع کہتے ہیں کہ امریکی حکومت کو اگرچہ اس سے قبل تو ان دو افراد کے ہلاک ہونے کا علم نہیں تھا لیکن ہلاک ہونے کے بعد شرمندگی کے سبب انہوں نے معاملہ دبائے رکھا۔

 ان دونوں صورتوں میں دوسری صورت زیادہ حقیقت کے قریب ہے کیونکہ چھ لوگوں کی ہلاکت کا علم تو بہت سے ذرائع کے پاس تھا البتہ ان دو لوگوں کی شناخت حملے کے چند روز میں ہو گئی تھی۔ 15 جنوری کے حملے میں ان چار لوگوں کے علاوہ دو لوگ تھے جو ہلاک ہوئے۔ یہ دو لوگ رپورٹ کے مطابق یرغمالی تھے۔ جو القاعدہ کے ارکان نے کئی برس سے اپنے پاس رکھے ہوئے تھے۔

ان میں ایک امریکی شہری اور ان وین سٹین تھا جنہیں 2011ء میں اغوا کیا گیا تھا۔ دوسرا مغوی گیوانی لوپورٹو تھا جو کہ اٹلی کا شہری تھا۔ انہیں 2012ء میں اغوا کیا گیا تھا۔ سی آئی اے کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ان مغویوں کے اس جگہ پر موجود ہونے کے شواہد نہیں تھے۔ ان کی ہلاکت کے بعد کافی عرصہ تک معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کون لوگ تھے۔ پچھلے ہفتے بدھ کے روز ان کی ہلاکت کی اطلاعات صدر اوباما کو دی گئیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ شاید یہ اطلاعات پہلے سے موجود تھیں لیکن ان کو صیغہ راز میں رکھا گیا اور پچھلے جمعہ کو جب اٹلی کے وزیراعظم نے وائٹ ہاؤس کا دورہ کیا تو اس وقت بھی انہیں ان کے شہری کے ڈرون حملے میں ہلاکت کے بارے میں نہیں بتایا گیا۔

 اس کے بعد صدر اوباما نے ان دونوں کی ہلاکت کا اعلان کرتے ہوئے اس کی مکمل طور پر ذمہ داری قبول کی کہ ’’میں بحیثیت فوج کے کمانڈر انچیف کے اس ناکامی کا مکمل طور پر ذمہ دار ہوں اور اس کی مکمل ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔‘‘ انہوں نے ان کے لواحقین اور شہریوں سے معافی مانگی اور اسے امریکی انٹیلی جنس کی ناکامی قرار دیا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ امریکی صدر نے بذات خود میڈیا پر آکر ڈرون حملوں کی حقیقت بیان کی۔ جن اطلاعات کی بنیاد پر یہ حملے کئے جاتے رہے ہیں ان میں خرابیوں کا اعتراف کیا اور نہ صرف سی آئی اے بلکہ خود اپنی ناکامی کا بھی اعتراف کیا۔

ڈرون حملوں کے بارے میں پوری دنیا میں ایک عرصے سے یہ چیخ و پکار جاری رہی ہے کہ ان سے بے گناہ شہری جاں بحق ہوئے ہیں۔ امریکہ کے پاس ان حملوں کا کوئی قانونی اور بین الاقوامی جواز نہیں ہے۔ یہ حملے امریکی فوج نہیں بلکہ سی آئی اے کر رہی ہے جو کہ اقوام متحدہ کی طرف سے دہشت گردی کی جنگ کے خلاف طاقت استعمال کرنے کا اختیار دیا گیا ہے اس قرارداد کے بھی خلاف ہے۔ لیکن امریکی صرف اس لئے اس کا جواز پیش کرتے ہیں کہ وہ محفوظ مقامات پر بیٹھ کر یہ حملے کرتے ہیں۔ ڈرون میں کوئی پائلٹ نہیں ہوتا۔ ان میں کسی امریکی شہری کو دوسرے ملک جانے اور لڑائی میں حصہ لینے کی ضرورت نہیں ہوتی اور ان حملوں میں جتنے لوگ بھی مر جائیں ان کو دہشت گرد گردان کر ان پر مٹی ڈال دی جاتی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں ان حملوں کے خلاف طویل عرصے سے آواز اٹھا رہی ہیں۔

صرف دنیا کے باقی حصوں سے ہی نہیں بلکہ امریکہ سے بھی انسانی حقوق کی تنظیمیں ان حملوں کے خلاف آواز اٹھا تی رہی ہیں لیکن 2004ء سے شروع ہونے والے ان حملوں میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ ان کا دائرہ عراق، افغانستان، پاکستان کے بعد یمن اور صومالیہ تک بھی پھیلا دیا گیا۔ امریکہ میں مقتدر شخصیات ان حملوں کا جواز اس طریقے سے پیش کر تی ہیں ’’ہمیں ان لوگوں کو مار دینا چاہیے جو ہمیں مارنے کی کوشش کرتے ہیں‘‘ لیکن قانون قدرت دیکھیں کہ جن امریکی اور یورپی شہریوں کو مرنے سے بچانے کے لئے ان حملوں کا آغاز کیا گیا وہ امریکی اور یورپی شہری خود ان حملوں کی زد میں آکر ہلاک ہوئے۔

 ہمیں ان دونوں افراد کے مرنے کا بھی شدید دکھ ہے لیکن افسوس اس امر پر ہے کہ ان ڈرون حملوں کے نتیجے میں سینکڑوں بے گناہ افراد ان میں عورتیں اور بچے شامل تھے لقمہ اجل بنے لیکن ان کی اموات پر کسی نے ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا۔ کسی نے افسوس تک کا اظہار نہیں کیا ۔ ان کی صحیح تعداد تک کسی کو معلوم نہیں لیکن ان دو امریکی اور یورپی شہریوں کی موت پر امریکی صدر نے خود میڈیا پر اظہار شرمندگی کیا جب قدرت انصاف کرتی ہے تو اس کی طاقت سب پر بھاری ہوتی ہے

حسن اقبال
"بہ شکریہ روزنامہ "نئی بات

Post a Comment

0 Comments